"KMK" (space) message & send to 7575

عنوان میں کیا رکھا ہے؟

جب لوگ پاکستان کے حکمرانوں کو مغل بادشاہوں سے تشبیہ دیتے ہیں تو مجھے ان کی کم علمی اور کم عقلی پر حیرت ہوتی ہے، تاریخ کا ایک صفحہ کھول کر نہیں دیکھتے اور سنی سنائی پر نہ صرف یہ کہ یقین کر لیتے ہیں بلکہ جہالت پر مبنی اپنی معلومات کو آگے بھی پھیلانا شروع کر دیتے ہیں۔ 
مغلوں کے زوال کی پہلی وجہ تو یہ تھی کہ بالآخر ہر عروج کو زوال آتا ہے اور اسی حقیقت کے سبب وہ زوال پذیر ہوئے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ کوئی باہمت شخص سلطنت کی بنیاد رکھتا ہے، اس کے وارثوں میں سے دو چار حکمران اس سلطنت کو بام عروج پر پہنچا دیتے ہیں اور بالآخر وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ آرام طلب نسل جنم لیتی ہے، حکمرانوں والی اعلیٰ اقدار رخصت ہو جاتی ہیں، سخت کوش اور جفاکش حکمرانوں کے بجائے عیاش اور زندگی سے محبت کرنے والے حکمران ان کی جگہ لے لیتے ہیں، ذلت کا دور آتا ہے اور پھر کوئی دوسرا محنتی‘ بہادر‘ جفاکش اور اولوالعزم شخص کسی نئے حکمران خاندان کی داغ بیل ڈال دیتا ہے۔
بابر ایسا ہی شخص تھا۔۔۔۔۔ بہادر‘ جفاکش‘ ارادے کا پکا اور مہم جو۔ شیبانی خان سے شکست کھانے کے بعد وقت کی دھول میں گم ہو جانے کے بجائے اس نے خود کو مقدر کے حوالے نہ کیا، اپنی تقدیر خود بنانے کی ٹھانی اورگھوڑے کی پشت پر ہزاروں میل کا سفر طے کر کے ہندوستان میں اپنی قسمت سنوارنے آ پہنچا۔ آگے سب کچھ آپ کے سامنے ہے۔ 
مغلوں کی نالائقیاں اور غلطیاں اپنی جگہ کہ انہوں نے برصغیر میں حرم بنائے، تعلیمی ادارے نہ بنائے‘ مقبرے بنائے سکول نہ بنائے‘ ذاتی دارالترجمہ بنائے پرنٹنگ پریس نہ لگنے دیا مگر ان ساری کمزوریوں کے باوجود ان میں وہ خرابیاں نہیں تھیں جو ہمارے حکمرانوں میں ہیں۔ مغلوں نے حکومتی عہدے نااہلوں اور جاہلوں میں 
تقسیم نہ کیے، ان کے زوال کی وجوہ اور تھیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ایک انٹرویو لینے والے نے امیدوار کے بارے میں قیافہ لگاتے ہوئے پوچھا کہ کیا اس کا تعلق فلاں قوم سے ہے تو انٹرویو دینے والے نے بڑے سکون سے کہا کہ سر! اگر آپ نے یہ اندازہ میرے چہرے پر پڑنے والی پھٹکار سے لگایا ہے تو اس کی وجوہ کچھ اور ہیں، میرا تعلق آپ کی بتائی ہوئی قوم سے نہیں ہے۔ مغلوں کے زوال کی وجوہ بھی دوسری تھیں۔ انہوں نے اپنے عزیزوں‘ دوستوں اور رشتہ داروں کو سرکاری عہدے پر صرف اہلیت کی بنیاد پر تعینات کیا۔ انہوں نے اپنے پیاروں کو یا جن سے وہ خوش ہوئے ازراہ عنایت جاگیر تو بخشی‘ وزیر نہ بنایا‘ اشرفیوں کی تھیلی دے دی مگر شہر کا کوتوال مقرر نہ کیا؛ زر و جواہر عطا کیے، صوبیداری عطا نہ کی‘ وزیر‘ مشیر‘ گورنر‘ صوبیدار اور کوتوال میرٹ پر لگائے، غلط بخشی کہیں نہ کی۔ اکبر جیسا گمراہ اور ''چٹا‘‘ ان پڑھ اپنے نو رتنوں کے زور پر اکبر اعظم بن گیا۔ مشیر وزیر ایسے چن چن کر لگائے کہ دنیا آج بھی راجہ ٹوڈرمل‘ فیضی‘ ابوالفضل‘خان خاناں اور بیربل کو یاد کرتی ہے۔ یہاں لوگوں کی کم علمی کا یہ حال ہے کہ ہر غلط بخشی پر وہ حکمرانوں پر مغلوں کی تقلید کا الزام لگا دیتے ہیں۔ 
عالم یہ ہے کہ ہمارے حکمران حکومت کو حلوائی کی دکان سمجھتے ہیں اور ہمہ وقت اپنے نانا جی کا فاتحہ کے لیے ساری شیرینی تبرک سمجھ کر تقسیم کرتے پھرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایٹمی ملک میں سوئی تک باہر سے آ رہی ہے اور زرعی ملک میں لوگ قحط سے مر رہے ہیں۔ تھر میں پڑنے والا قحط قدرتی عوامل کے باعث نہیں بلکہ انتظامی نالائقیوں کے باعث ہلاکت خیز بنا۔ باقی ملک کا حال بھی مثالی نہیں لیکن سندھ میں تو حد ہو گئی۔ میرٹ کو عنقا ہوئے عرصہ بیت گیا۔ امتحانی نظام کا عالم ایسا کہ ایک زمانے میں ہمارے دوست سندھ سے ایل ایل بی کیا کرتے تھے، نوکری لاہور میں کرتے اور ڈگری سندھ سے لے کر آ جاتے تھے۔ یہ قانون کی تعلیم کا حال تھا، اب معاملہ اور بگڑ چکا ہے۔ پرویز مشرف دور میں جب بی اے پاس اسمبلی کا شہرہ آفاق واقعہ ظہور پذیر ہوا تو لوگ راتوں رات گریجوایٹ ہو گئے۔ بعد میں جب ان ڈگریوں پر زوال آیا اور تحقیقات شروع ہوئی تو جعلی ڈگریوں کی غالب اکثریت کے پاس مدرسے کی سندیں تھیں یا سندھ کی جامعات کی ڈگریاں۔ میں پیلی ٹیکسی سکیم کی سکروٹنی کمیٹی کا ممبر تھا۔ اہلیت کے شرائط میں اور کئی چیزوں کے علاوہ ڈرائیونگ لائسنس کی شرط بھی شامل تھی۔ ڈرائیونگ لائسنسوں کی تصدیق کا عمل شروع ہوا تو گزشتہ دس بارہ برس میں سندھ کے مختلف اضلاع کے جاری کردہ نوے فیصد لائسنسوں کے لیے لکھے گئے تصدیقی خطوط کا جواب یہ آیا کہ یہ لائسنس ہم نے جاری ہی نہیں کیے، یعنی لائسنس جعلی تھے۔ لائسنس ہولڈر قسمیں کھاتے تھے کہ انہوں نے یہ لائسنس بذات خود فلاں ضلع سے فلاں سن میں تین ہزار روپے دے کر بنوایا تھا۔ دفتر میں رقم دی تھی تاہم ٹیسٹ وغیرہ نہیں دیا تھا۔ بے شمار مستحق افراد صرف جعلی لائسنس کی وجہ سے اس سہولت سے محروم رہ گئے۔ 
سندھ کا پورا پورا ضلع کسی کی جاگیر ہے، جاگیر کا مطلب لغوی نہیں معنوی ہے۔ کہیں مہر ہیں، کہیں شیرازی، کہیں سید ہیں، کہیں مخدوم، کہیں پیر ہیں اور کہیں سردار، غرض جمہوریت کے نام پر چند خاندان عشروں سے لوگوں کے مقدرکے مالک ہیں اور ووٹ آج بھی پاکستان کی تاریخ میں انسانی نفسیات کو سب سے بہتر سمجھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر حاصل کرتے ہیں۔ تھر کے قحط کی کہانیاں نکلنی شروع ہو گئی ہیں۔ سیکرٹری ہیلتھ سندھ کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کے داماد ہیں اور کسی کا کہنا ہے کہ ڈی سی او تھرپارکر مخدوم عقیل الزمان ہالہ کی مخدوم فیملی کے فرزند ارجمند ہیں۔ 
صحرائے تھر دنیا کا ساتواں اور پاکستان کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ ہمارے ایک دوست کے بقول جو ان گنت بار تھر جا چکا ہے، یہ شاید دنیا کا سب سے خوبصورت صحرا ہے، اس کے ریتلے ٹیلے خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ تھوڑی سی بارش ہو تو قدرتی سبزہ صحرا کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے۔ گزشتہ دو برس کے دوران بارشیں بہت کم ہوئیں اور جو ہوئیں وہ فصلوں کے حساب سے وقت پر نہیں تھیں۔ تھر کے باسیوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش مویشی پالنا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھرپارکر کے صحرا میں تقریباً پچاس لاکھ مویشی (بھیڑ‘ بکری‘ گائے اور اونٹ) موجود ہیں۔ سندھ میں گوشت‘ دودھ اور چمڑے کی ضروریات کا ستر فیصد تھر کے مویشیوں سے حاصل ہوتا ہے۔ پانی کی قلت سے ان مویشیوں میں سے ہزاروں موت کا شکار ہو گئے۔ مٹھی‘ ڈیپلو اور چھاچھڑو بری طرح متاثر ہونے والی تحصیلیں ہیں۔ تقریباً دو لاکھ سے زائد افراد خشک سالی، ملیریا‘ نمونیہ‘ انفلوئنزا اور سانس کی بیماریوں سے متاثر ہوئے جن میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران دو سو کے لگ بھگ بچے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ یہ المیہ ایک دو دن کا نہیں مہینوں پر محیط ہے، یہ کسمپرسی کی ایسی کہانی ہے جس میں ایک طرف بے بسی اور دوسری طرف بے حسی نظر آتی ہے۔ 
اس دوران بلاول بھٹو سندھی ثقافت کے جشن منانے میں لگا رہا اور مرکزی حکومت مذاکرات نامی گورکھ دھندے میں پھنسی رہی۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ تھر سے ووٹ لینے والوں کو نہ پہلے دھیلے کی فکری تھی نہ اب تک مرغ مسلّم کھانے کے سوا کوئی کام ہے۔ رہ گیا ریلیف کا کام تو اس کے لیے اس ملک خداداد میں ''کالعدم‘‘ اور عوام کی راندہ درگاہ تنظیمیں اور جماعتیں موجود ہیں۔ ہندو اکثریت کے اس علاقے میں جماعت الدعوۃ موجود ہے اور ووٹوں کی سیاست میں مسترد شدہ جماعت اسلامی کام کر رہی ہے۔ الخدمت فائونڈیشن والے اس علاقے میں الخدمت کچن بھی چلا رہے ہیں اور ویٹرنری کلینک بھی، دوائیں فراہم کر رہے ہیں اور خوراک بھی۔ یہ سب کام وہ کر رہے ہیں جنہیں نہ پہلے کبھی یہاں سے ووٹ ملے ہیں نہ شاید آئندہ ملیں گے۔ یہاں سے ووٹ انہی کو ملیں گے جنہیں یہاں کے عوام نے اس بار بھی اپنے ووٹوں سے سر پر بٹھایا ہے۔ خدا جانے طوفانِ نوح میں زندہ بچ جانے والے سید قائم علی شاہ میں کیا خوبی ہے کہ وہ ایک عرصے سے سندھ کے عوام کے گلے کا ہار بنے ہوئے ہیں۔ کم از کم اس نالائقی اور بدانتظامی کے بعد تو انہیں ریٹائر کر کے آرام کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کا فیصلہ بہرحال دبئی میں بیٹھا ہوا سندھ کا بادشاہ گر کرے گا۔ خدا جانے سندھ کے عوام اپنا درست فیصلہ کرنا خود کب سیکھیں گے؟ کیا خبر طوفانِ نوح میں بچنے والا اس بار بھی بچ نکلے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں