"KMK" (space) message & send to 7575

ایک اور پہلو

ہم اس عمل‘ بردباری‘ اعتدال اور توازن سے مکمل طور پر محروم ہو چکے ہیں جو ہماری میراث تھی۔ اس صفت سے مکمل کنارہ کش ہو چکے ہیں جو ہماری پہچان تھی اور اس حکم کو مکمل بھول چکے ہیں جو ہمارے لیے دین اور دنیا کی رہنمائی کا منبع تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ''امت اعتدال‘‘ قرار دیا‘ یہ لفظ امت اعتدال ہی اس خوبی کا صحیح مفہوم ہے جس کے بارے میں میرے مالک نے ہمیں ''امت وسط‘‘ کے نام سے مخاطب کیا۔ افسوس ہم نے اعتدال کی راہ چھوڑ دی اور ہر مسئلے پر انتہا پسندی کو اپنے تشریح کردہ ایمان کا حصہ بنا لیا۔ مولوی اپنی جگہ پر تو خیر سے مفتی کے درجے پر فائز ہو کر فتوے لگانے کا خودساختہ حق دار بن گیا‘ نام نہاد اعتدال پسندوں‘ روشن خیالوں اور وسیع القلبی کے دعویدارلبرل ازم کے پیرو کاروں نے بھی اپنے وضع کردہ مادر پدر آزاد لبرل ازم کے مخالفوں اور اختلاف رکھنے والوں کو بیک جنبش لب گردن زدنی قرار دے دیا۔دلیل کی جگہ دھونس دھاندلی نے لے لی۔گفتگو کا دروازہ بند ہوا اور اس کی جگہ بندوق نے لی ۔اعتدال کو انتہا پسندی نے ہماری زندگی سے خارج کر دیا اور نوبت یہا ں تک آن پہنچی ہے کہ ہر معاملے پر ہم مثالِ دو متحارب افواج صف بندی کر کے ہمہ وقت آمادہ پیکار ہیں۔
پاکستان میں ہر معاملے پر یہی حال ہے۔ ہم کسی ایک فریق کے موقف کے یا تو اس قدر حامی ہیں کہ اسے فرشتہ اور فریق ثانی کو شیطان مجسم قرار دیتے ہیں یا پھر اس کے بالکل الٹ ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ نہ کوئی توازن ہے اور نہ کوئی اعتدال۔نہ کوئی درمیانی راستہ اور نہ ہی تحمل۔معاملہ طالبان کا ہو یا سیاسی تقسیم کا‘ پوری قوم دو حصوں میں تقسیم ہے اور کسی دوسرے کو رتی برابر رعایت دینا گناہ عظیم تصور کرتی ہے۔میاں نواز شریف کے حامیوں سے بات کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے جانشین‘ قائد اعظم ثانی اور قریب قریب قرون اولیٰ کے مسلمانوں جیسے کردار کے مالک ہیں۔ زرداری صاحب کی بات کریں تو ان کے حامی انہیں پاکستان کا سب سے بڑا سیاستدان تو خیر قرار دیتے ہی ہیں انہیں ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وراثت کا جانشین اور بی بی مرحومہ کی سیاسی میراث کا جائز وارث بھی قرار دیتے ہیں؛ تاہم وہ انہیں جب ایک نہایت ایماندار اور متقی شخص بھی قرار دیتے ہیں تو مخالفین کی سٹی گم ہو جاتی ہے۔عمران خاں کے حامیوں کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے اور سوشل میڈیا پر قابض ہے۔ سوشل میڈیا پر کنٹرول ایسا ہے کہ جیسے بندر کے ہاتھ میں بندوق آگئی ہو۔ وہ اپنے مخالفین کو ہمہ وقت توپ کے آگے رکھ کر اڑانے سے کم پر کسی طور پر راضی نہیں ہیں اور انہیں دنیا کا سب 
سے اعلیٰ و ارفع سیاستدان قرار دیتے ہیں۔نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ کئی معقول صورت لوگ مولانا فضل الرحمن تک کی تعریفوں میں رطب اللسان ہیں۔اب اس مقام پر کوئی کیا عرض کر سکتا ہے؟
ہم پاکستانی بھی عجیب ہیں۔برسوں سے بلکہ نسلوں سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔یہاں رہتے ہوئے عشرے گزر گئے ہیں۔ ہم جیسے پاکستان سے آنے والوں کو یہاں کے رہائشی جہالت کا طعنہ مارتے ہیں۔خرابیوں کا منبع قرار دیتے ہیں۔ہماری سیاست پر تبرا کرتے ہیں۔ہمارے سسٹم پر چار حرف بھیجتے ہیں۔رشوت خوری‘نظام عدل‘امن و امان‘ قومی غیرت اور اسی قسم کے دیگر درجنوں معاملات پر ہمیں لتاڑتے ہیں لیکن دو منٹ گفتگو کریں تو اندر سے وہی انتہا پسند پاکستانی نکل آتا ہے جو پاکستان کے چک53میں پایا جاتا ہے۔مولوی سے لے کر ٹیکسی ڈرائیور تک اور بزنس مین سے لے کر بزنس ایگزیکٹو تک۔جاہل سے لے کر پڑھے لکھے تک اور بے روزگار سے لے کر اعلیٰ افسر تک۔ برطانیہ میں مقیم ہر قبیل کا پاکستانی اندر سے رتی برابر تبدیل نہیں ہوا اور جونہی بحث شروع ہو وہ اپنی ساری اعتدال پسندی ‘دلیل سے بات کرنے کی تربیت اور منطق کے استعمال کے دعوے کو بھول کر اسی انتہا پسندی پر اتر آتا ہے جس کے بارے میں ہم گمان کرتے ہیںکہ برطانیہ میں دس بارہ روزہ قیام کے دوران اس سے بچے رہیں گے مگر چار چھ منٹوں میں یہ خوش فہمی دور ہو جاتی ہے۔
تازہ ترین ملکی معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پاکستانی چینلوں میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔فریقین تقریباً دو متحارب افواج کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ہر فریق دوسرے کو گردن زدنی قرار دے رہا ہے۔غداری اور پھانسی کے فتوے لگ رہے ہیں۔اداروں کی توہین پر شور و غوغا ہو رہا ہے۔ دانشور اسے ایک نئی جنگ کا آغاز قرار دے رہے ہیں اور اسے میاں نواز شریف کی آخری غلطی کہہ رہے ہیں۔خوش فہموں کے نزدیک یہ ایک اور بارہ اکتوبر کی طرف جاتا ہوا راستہ ہے اور پیشین گوئیوں کا ایک طومارہے۔پیشین گوئیوں کے ماہروں اور عادی مجرموں کے ہاتھ ایک اور کھلونا لگ گیا ہے اور وہ اپنی علت پوری کر رہے ہیں۔اگر میں یہ کہوں کہ کچھ نہیں ہونے جا رہا تو یہ بھی پیشین گوئی ہو گی لہٰذا میں اس پر کچھ نہیں کہہ رہا۔
یہاں برطانیہ میں بھی ٹی وی چینلوں جیسا حال ہے۔ہر شخص اپنی بول رہا ہے۔معاملہ وہی ہے کہ ہر شخص ایک انتہا پر ہے۔ایک فریق کا موقف ہے کہ اس طرح تو بھارت کو بھی جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اپنے اہم ترین قومی ادارے پر الزامات کی مشین گن چلاتا رہے۔اس فریق کے بقول یہ ایک باقاعدہ سازش تھی جو ہمارے دشمنوں نے کی اور ہمارا اپنا میڈیا اس کے لیے استعمال ہوا۔ دوسرے فریق کا جو تعداد میں خاصا کم تھا مگر بہرحال ان کا موقف یہ تھا کہ جو کچھ کہا گیا وہ سچ ہے اور اس پر دوسری کوئی رائے ہی نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے میں ایک سبق ہے اور وہ یہ کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی حدود کا خود تعین کر لیا جائے اور قانون و اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر اپنا مقام طے کیا جائے۔ ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اگر اب بھی سبق حاصل نہ کیا گیا تو معاملات اس خرابی تک جا سکتے ہیں‘ جہاں اعتدال کی حدیں ختم ہو جاتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس معاملے میں کسی تیسرے فریق نے اپنا ''لُچ تل‘‘لیا ہو۔ فریقین کو اس پہلو پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے۔ جب ایک فریق نے کسی دوسرے کے بارے میں الزام لگایا ہو تو یہ بڑا آسان ہوتا ہے کہ تیسرا فریق دوسرے کی آڑ میں اپنا الو سیدھا کرلے۔لُچ تلنے والے ایسے مواقع کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں