"KMK" (space) message & send to 7575

میاں صاحب!قدم بڑھائو، ہم تمہارے ساتھ ہیں

اللہ عالم الغیب جانتا ہے کہ مجھے پاکستان سے زیادہ محبت کسی اور ملک سے نہیں ۔میں نے کبھی خواب میں بھی پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں رہنے کا تصور نہیں کیا۔ آنا جانا ، دنیا دیکھنا، مشاعرے پڑھنا اور ملکوں ملکوں گھومنا میرا شوق بھی ہے کسی حد تک ذریعہ معاش بھی۔ مگر اس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ایک بار نہیں کئی بار ایسا ہوا کہ دوستوں نے برطانیہ میںسیٹل ہونے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ اسباب کا بندوبست بھی کیا۔ میری تعلیمی قابلیت یعنی ایم بی اے کی بنیاد پرکینیڈا میں مقیم دوستوں نے امیگریشن کا سارا مرحلہ طے کروانے کا ذمہ بھی لیا اور کچھ بھولے بھالے ہمدردوں نے سیاسی پناہ کے ذلت آمیز طریقے سے دوسرے ممالک کی شہریت حاصل کرنے کے طریقے بھی بتائے اور ساری ذمہ داری اٹھانے کا بھی وعدہ کیا ،مگر میں جانتا ہوں کہ مسافرت کے علاوہ میں پاکستان سے باہر رہ بھی نہیں سکتا۔
جب پاکستان سے باہر جاتا ہوں تو وہاں روز افزوں ترقی پر میں کڑھتا ہوں۔ میرا یہ کڑھنا احساس کمتری کے باعث نہیں۔ حکمرانوں کی بے غیرتی اور اجتماعی قومی بے حسی کے باعث ہے۔ میں احساس زیاں سے دکھی ہوں۔ ہم یہ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ یورپ اور برطانیہ میں جو کچھ ہورہا ہے صدیوں پہلے یہ لوگ ہم سے سیکھ کر گئے تھے ۔ انہوں نے ترقی کا سفر جاری رکھا ۔ہم نے ترقی معکوس کا راستہ اختیار کیا۔ دکھ اس بات کا نہیں ہوتا کہ ہم سے سیکھنے والے ہم سے آگے نکل گئے ۔ دکھ اس بات پر ہے کہ ہمیں اپنے اس نقصان، مراجعت اور پسپائی پر ملال ہے اور نہ شرمندگی۔ہم نے اس سارے انحطاط سے نہ تو کوئی سبق حاصل کیا اور نہ ہی مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی کی ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ان کے درمیان موجود تعلیم و ترقی کا فرق کم ہونے کے بجائے روز بروز بڑھ رہا ہے اور ابھی دور دور تک اس کے کم ہونے کا تو چھوڑیں، اسی حد تک رکنے کا بھی کوئی امکا ن نظر نہیں آرہا۔
میں جب بھی پاکستان سے باہر کہیں جاتا ہوں وہاں معاملات کو پہلے سے بہتر پاتا ہوں۔ یہ یورپ ہو، امریکہ ہو، برطانیہ ہو، مشرق بعید ہو یا مشرق وسطیٰ ۔ سب جگہ معاملات بہتری کی طرف رواں ہیں۔ دبئی اور ابوظہبی کو دیکھ کر دکھ بھی ہوتا ہے اور شرمندگی بھی۔ ہر معاملے میں ہم سے کہیں پیچھے ۔ تعلیم ، منصوبہ بندی ، افرادی قوت، تکنیکی مہارت اور پیشہ ورانہ معاملات، ہر حوالے سے ہم سے کہیں پیچھے ۔ ائیرلائن شروع کی تو سارا عملہ ہم سے مستعارلیا۔ اتصالات کے نام سے ٹیلی کمیونیکیشن کا آغاز کیا تو ساری تکنیکی مہارت اور افرادی قوت ہم سے ادھار لی۔ آج امارات اور اتحاد ائیر لائن کا کوئی ثانی نہیں اور ہمارا حال سب کے سامنے ہے ۔پی ٹی سی ایل نے اتصالات کو پائوں پر کھڑا کیا آج اتصالات والوں نے پی ٹی سی ایل خرید لی ہے۔ پورے مشرق وسطیٰ نے ہمارے مزدوروں سے بلند وبالا عمارات اور کاروبار کھڑے کرلیے اور ہم سارا ملک ،ان مزدوروں کے بھیجے ہوئے زرمبادلہ سے چلانے کی نوبت پر آگئے۔ جہانیاں سے تعلق رکھنے والے ایک بابے نے بتایا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے عربوں کو زکوٰۃ دیتا رہا ہے۔ یہ غریب عربی زکوٰۃ وصول کرنے جہانیاں تک دیکھے جانے کے تو گواہ موجود ہیں۔ آج ہم ڈیڑھ ارب ڈالر ملنے پر خوشی سے بغلیں بجارہے ہیں۔ حتیٰ کہ بجابجا کر یہ بغلیں زخمی ہوگئی ہیں۔ چار عشرے پہلے ہماری معاشی اور صنعتی ترقی دنیا کے لیے مثال ہوتی تھی آج ہماری شہرت ایک بھکاری اور ناکام ریاست کے طور پر مثال بن چکی ہے۔
گزشتہ سال برطانیہ گیا تو حسب معمول آشٹن انڈرلائن میں تھا۔ اس قیام سے مراد مشاعروں کے علاوہ دنوں کا قیام ہے۔ برطانیہ ، یورپ اور امریکہ وغیرہ میں مشاعرے ، تقریبات اور سیمینار وغیرہ ویک اینڈز پر ہوتے ہیں۔ ویک اینڈ سے مراد جمعہ ، ہفتہ اور اتوار ہے۔ ہفتہ کے روز چھٹی ہوتی ہے اور لوگوں کو دفتر وغیرہ جانے کی جلدی نہیں ہوتی اس لیے جمعہ کی رات دیر تک تقریبات میں شرکت کی جاسکتی ہے۔ ہفتہ تو ویسے ہی موج میلے کا دن ہوتا ہے خصوصاً رات۔ اتوار کو بھی چھٹی کے باعث ایسی تقریبات میں شرکت آسان ہے۔ بقیہ چار دن یعنی سوموار، منگل، بدھ اور جمعرات ہر شخص گدھے کی طرح کام کرتا اور جمعرات کی رات کسی تقریب میں شرکت محال ہے کہ جمعہ بھی '' ورکنگ ڈے ‘‘ ہے۔ عملی طور پر ہم لوگ پانچ دن فارغ ہوتے ہیں۔ میں یہ فارغ دن اپنے آشٹن والے دوستوں کے ہمراہ گزارتا ہوں۔
گزشتہ برس آشٹن گیا تو بابر نے بتایا کہ آشٹن سے مانچسٹر تک میٹرو کا منصوبہ زیر تکمیل ہے یہ لاہور والی میٹرو نہیں ہے جو کہیں جنگلے میں ہے اور کہیں فلائی اوور پر۔ یہ ٹرام ہے اور موجودہ سڑک پر ہی تھوڑی بہت تبدیلی سے چلائی جائے گی۔ اس سے آشٹن اور مانچسٹر کے درمیان تیز رفتار ٹرانسپورٹ میسر آئے گی۔ نہ زیادہ زمین خریدی گئی نہ کہیں مکان گرائے گئے، نہ کاروبار برباد ہوئے اور نہ ہی شہر دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ پہلے سے موجود سڑک کے درمیان دو رویہ ریلوے کی پٹڑی بچھا کر ٹرام چلادی گئی۔ صرف چند جگہوں پر جہاں سٹیشن بنانا مقصود تھا جگہ کھلی کی گئی اور اس کے لیے کم اہمیت کی کمرشل زمین حاصل کی گئی۔ اکثر جگہوں پر یہ زمین وہاں سڑک کے کنارے کسی گودام یعنی ویئر ہائوس کو خالی کروا کر حاصل کی گئی۔ گزشتہ سال یہ منصوبہ شروع کیاگیا تھا میں اس دوران ہر دوسرے دن آشٹن سے مانچسٹر جاتا رہا مگر نہ تو ٹریفک جام ملی اور نہ ہی راستے بند ملے۔ کام بھی چلتا رہا اور سڑک بھی چلتی رہی۔ اسی دوران اولڈ ہم سے مانچسٹر تک میٹرو کا منصوبہ بھی جاری تھا۔ اس سال برطانیہ گیا تو آشٹن کے دوستوں نے بتایا کہ میٹرو چل پڑی ہے۔ آشٹن میں میٹرو کا سٹیشن بابر کے دفتر سے پانچ منٹ کے پیدل سفر کے فاصلے پر ہے۔ میں زاہد ظفر سے ملنے کے لیے میٹرو پر سوار ہوا اور پکاڈلی اتر گیا جہاں زاہد ظفر میرا منتظر تھا۔
بجلی سے چلنے والی یہ میٹرو لنک ٹرام دو بوگیوں پر مشتمل ہے اور پیلے رنگ کی یہ ٹرام سوموار سے ہفتے کے دن تک ہر بارہ منٹ بعد روانہ ہوتی ہے جبکہ اتوار والے دن ہر پندرہ منٹ بعد۔ جلد ہی یہ سروس ہر چھ منٹ بعد روانہ ہوا کرے گی۔ بجلی میں کوئی تعطل نہیں اور یہ خوبصورت ٹرام ہمہ وقت رواں رہتی ہے۔ کبھی کراچی میں بھی ٹرام چلاکرتی تھی۔ 1964ء میں، میں چھوٹا سا تھا اور اپنے ماموں کے ہاں کراچی گیا تو ٹرام پر سواری کی۔ اب پچاس سال بعد 2014ء میں ٹرام میں سواری کی۔ خانیوال سے لاہور تک بجلی سے چلنے والی ٹرینوں پر سفر ابھی زیادہ پرانی بات نہیں۔ پھر نہ بجلی رہی اور نہ بجلی والی ٹرین۔ بجلی والے کھمبے باقی رہ گئے۔ تاریں اور دوسرا سامان کچھ پیشہ ور چوروں نے اتار لیا اور کچھ ریلوے والوں نے برابر کردیا۔لوگ کوئلے سے ڈیزل اور ڈیزل سے بجلی والی ٹرینوں اور ٹراموں پر آگئے اور ہم
بجلی سے واپس ڈیزل انجنوں پر آگئے ہیں۔ کیا عالی شان ترقی ہے۔
ملتان فون کیا تو اسد نے پوچھا ، موسم کیسا ہے؟ میں نے کہا، خنکی ہے۔ رات کمبل لے کر سوتا ہوں۔ دن کو کوٹ پہننا پڑتا ہے۔ درجہ حرارت زیادہ سے زیادہ سولہ اور کم سے کم پانچ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ اسد کہنے لگا آپ کے مزے ہیں، واپس ملتان آئیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا۔ درجہ حرارت اکتالیس ہے اور ہر گھنٹے بعد بجلی چلی جاتی ہے جس دن سی این جی کھلتی ہے اس دن تو خیر گیس آتی ہی نہیں ویسے بھی روزانہ شام کو چولہے نہیں جلتے ۔ ہمارے پاس تو یو پی ایس ہے ہی نہیں ، جن کے گھروں میں ہیں وہ بھی ہرگھنٹے بعد ہونے والی لوڈشیڈنگ کے سبب کام نہیں کررہے۔ میں نے پوچھا میاں شہبازشریف آج کل کہاں ڈیرہ لگائے ہوئے ہیں؟ اپنے دفتر میں ہیں یا مینار پاکستان پر ٹینٹ لگاکر اس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسد ایک دم پریشان ہوکرکہنے لگا۔بابا! مجھے کیا پتہ کہ وہ کہاں ہوتے ہیں ۔ پھر میں نے پوچھا انہوں نے اپنا نام تبدیل کیا ہے یا اسی پرانے نام سے کام چلارہے ہیں۔ وہ مزید پریشان ہوگیا۔ اسے لگا کہ شاید میرا ذہنی توازن بگڑ گیا ہے مگر احتراماً خاموش رہا۔
اگلے روز میری پاکستان آمد ہے۔ میاں شہبازشریف کا فرمانا تھا کہ اگر دو ماہ میں ، پھر چھ ماہ میں او رپھر مزید وعدے کے مطابق اگر وہ ایک سال میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کرسکے تو اپنا نام بدل لیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اس عمر میں نام بدلنے سے پیدا ہونے والی تقاضوں سے بچنے کے لیے جن میں نئی ڈگریوں کا اجراء، اخباری اشتہار کا خرچہ اور نئے سرے سے نئے نام کی مشہوری وغیرہ کی ''بھسوڑی‘‘ شامل ہے وہ دوبارہ مینار پاکستان پر ٹینٹ لگالیں۔ میں لاہور اترتے ہی میاں شہبازشریف سے اظہار یکجہتی کے لیے مینار آجائوں گا۔فی الحال برطانیہ بیٹھ کر صرف یہی نعرہ لگا سکتا ہوں کہ '' میاں صاحب ! قدم بڑھائو، ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں