"KMK" (space) message & send to 7575

رحمان اوررحیم کے نام سے

طاہر حسن سے میری پہلی ملاقات آج سے قریب انتیس سال قبل ہوئی۔ایم بی اے سے فارغ ہونے کے بعد نوکری کے لیے انٹرویوز کا مرحلہ چل رہا تھا۔میں اور احسان ایک انٹرویو کے سلسلے میں اکٹھے اسلام آباد گئے۔میں نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک دوست کے پاس اور احسان نے اپنی ہمشیرہ کے گھر ٹھہرنا تھا۔جب اسلام آباد پہنچے تو احسان نے اصرار کیا کہ میں بھی اس کے ہمراہ اس کی ہمشیرہ کے گھر قیام کروں ۔مجھے تھوڑا تامل تھا مگر جب احسان نے بہت اصرار کیا تو میں بادل نخواستہ اس کے ہمراہ چل دیا۔ 
احسان کا برادر نسبتی طارق حسن سرکاری ملازم تھا اور اس نے راولپنڈی میں ہولی فیملی ہسپتال کے پیچھے ایک گھر کا نچلا پورشن کرائے پر لے رکھا تھا۔ مجھے جھجکتا دیکھ کر احسان کہنے لگا: ''طارق اور بشریٰ دونوں نہ صرف یہ کہ مہمان نواز ہیں بلکہ اس گھر میں کئی قسم کے مہمان پہلے سے ہی قیام پذیر ہیں‘‘۔ یہ سن کر میں نے ایک بار پھر ارادہ تبدیل کرنے کا سوچا مگر میری ایک نہ چلی اور ہم گھر پہنچ گئے۔یہ چھوٹا سا دوبیڈ‘ایک لائونج اور ایک ڈرائنگ روم پر مشتمل گھر تھا جس کا صحن نہ تھا۔طاہر حسن احسان کے برادر نسبتی طارق حسن کا چھوٹا بھائی تھا اور احسان کا کزن بھی۔طاہر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایل ایل بی آنرز کر رہا تھا۔آغا قزلباش طارق حسن کا دوست اور کلاس فیلو تھا۔دونوں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے اکٹھے انتھرو پالوجی میں ماسٹرز کیا تھا۔آغا تقریباً بے روزگار تھا مگر اس کا اقرار نہیں کرتا تھا۔آغا لائونج پر قابض تھا۔ ڈرائنگ روم میں خاور کی چارپائی تھی اور ٹوچی بھی ڈرائنگ روم کے صوفے پر قابض تھا۔ بشریٰ کے جہیز کی ڈائننگ ٹیبل صرف اس لیے اس گھر میں نہیں آ رہی تھی کہ اس میز کی آمد کی صورت میں خاور کی چارپائی اٹھا دی جاتی جو ممکن نہیں تھی۔لہٰذا وہ میز کئی سال تک گھر نہ آ سکی تاوقتیکہ خاور اسلام آباد سے کہیں اور منتقل ہو گیا۔
میں اور احسان دوسرے بیڈ روم میں مقیم تھے۔ عارضی مہمان سمجھ کر ہمیں مستقل مہمانوں کی نسبت زیادہ حقوق مرحمت فرما دیے گئے تھے۔طاہر حسن کے بارے میں کئی دن تک پتہ نہ چل سکا کہ وہ رات کہاں سوتا ہے ۔قسم قسم کے بلکہ بھانت بھانت کے اس اجتماع کے طفیل دن اچھا گزر جاتا تھا‘ البتہ رات کو سونے کے لیے ہر دوسرے دن نئی ترتیب جاری ہوتی تھی کہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی اور مہمان آجاتا تھا ۔قلیل تنخواہ میں اتنی مہمانداری اور اس پرطرہ یہ کہ میزبان ہر جانے والے مہمان کو بہ اصرار روک لیتے تھے ۔میں اور احسان دو تین دن کے لیے گئے تھے مگر ایک ہفتے سے زیادہ وہیں پڑے رہے اور پھریوں ہوا کہ یہ گھر ہمارا بھی ڈیرہ بن گیا۔آغا قزلباش اور منصور وغیرہ سے دوستی ہو گئی۔ طارق سے ایسا تعلق بنا کہ لگتا تھا ہم بچپن کے دوست ہیں۔شروع شروع میں طاہر پڑھائی کے لیے کتابیں اٹھا کر ادھر ادھر ہو جاتا تھا مگر بعد میں وہ بھی اس گینگ کا حصہ بن گیا ۔تب مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ طارق اور طاہر سے یہ دوستی رشتے داری میں بدل جائے گی۔
میری شادی احسان کی ہمشیرہ سے ہو گئی اور طارق حسن میرا ہم زلف ٹھہرا۔چند سال بعد میری چھوٹی خواہر نسبتی کی شادی طاہر سے ہو گئی۔میری یہ چھوٹی خواہر نسبتی میرے بچوں کی فیورٹ خالہ تھی‘بلکہ میں شاید غلط لکھ گیا ہوں‘ وہ میری تینوں بیٹیوں کی سب سے زور دار سہیلی تھی۔شادی کے بعد وہ جھنگ چلی گئی اور میرے بچوں کا جھنگ آنا جانا لگ گیا۔ادھر دو چھٹیاں ہوئیں اور بچوں نے جھنگ جانے کا مطالبہ داغ دیا۔اسد نے زندگی کا پہلا اکیلے سفر جھنگ کے لیے کیا‘ جب اسے ڈائیووپر بٹھا کر جھنگ بھیجا گیا۔بعد میں تو پھر بچوں کی جھجک ہی اتر گئی۔ خود ہی بس پر چڑھتے اور جھنگ چلے جاتے ۔واپسی کا کرایہ وہ مجھ سے لے کر جاتے مگر حرام ہے جو کبھی وہ ان پیسوں سے واپس آئے ہوں۔واپسی کا کرایہ ان کی خالہ ادا کرتی اورساتھ کپڑے ملتے۔میں ہنس کر کہتا تھا کہ آپ کو خالہ سے کم اور وہاں سے ملنے والے تحائف اور نقدی سے زیادہ محبت ہے‘ لیکن مجھے پتہ تھا کہ معاملہ صرف اور صرف محبت کا ہے‘ اور صرف میرے بچوں پر ہی کیا موقوف‘ خاندان کا ہر بچہ جھنگ جانا چاہتا تھا۔چھٹیوں میں طاہر کے گھر میں جس طرح بچے سوتے تھے وہ ویسا ہی مشکل کام تھا‘ جیسے آپ ایک رکشے میں درجن بھر سواریاں بھرنے کی کوشش کریں۔
بچوں کی خالہ اور طاہر‘ دونوں حد درجہ کھلے ہاتھ کے تھے؛ تاہم طاہر ایک ہاتھ آگے تھا۔عرب میں ہوتا تو حاتم طائی کا قریبی عزیز ہوتا۔ اسے پیسے سے بڑی دلچسپی تھی مگر صرف خرچ کرنے کی حد تک ۔پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل تھا اور خاصا مصروف وکیل‘ مگر صرف مصروفیت کی حد تک ۔کمائی والا معاملہ خاصا مشکوک تھا۔ 
اسے پیسے مانگنا آتا ہی نہ تھا اور کسی واقف کار سے تو بالکل بھی نہیں۔دوست تو خیر بہت اونچے درجے کی چیزہیں محض جان پہچان والے سے بھی فیس لینا اس کے نزدیک باقاعدہ گناہ تھا۔کبھی میں چیمبر گیا تو دیکھا کہ دس موکل موجود ہیں۔میز پر خاکی لفافے کثیر تعداد میں پڑے ہیں۔دس بارہ عدالتوں میں روز حاضری بھی دی جا رہی ہے۔رات گئے تک کیس تیار کیے جا رہے ہیں۔سٹینو سے ٹائپ کروائے جا رہے ہیں۔بحث کی تیاری ہو رہی ہے مگر بیشتر کیس جان پہچان والوں کے ہوتے تھے اور ان کے بارے میں میں آپ کو بتا ہی چکا ہوں۔تاہم مزے کی بات یہ ہے کہ وہ مفت والے کیس بھی اسی جانفشانی اور محنت سے تیار کرتا تھا جس دلجمعی سے فیس والے کیسوں کی تیاری کرتا تھا۔یہ اور بات کہ یہ والے کیس مفتے والے کیسوں سے تعداد میں کہیں کم ہوتے تھے۔
خرچ کرنا اس پر ختم تھا۔بعض اوقات تو مجھے الجھن ہونے لگ پڑتی تھی کہ یہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔اسے سمجھانے کی کوشش کرتے تو وہ نہ بحث کرتا اور نہ جواب دیتا۔بس مسکرا دیتا تھا۔وہ اس دنیا کا نہیں کسی اور دنیا کا باسی تھا۔دنیاداری ‘حساب کتاب‘ لین دین‘ سودے بازی اور اس قبیل کی ساری قباحتوں سے کوسوں دور۔وہ یہاں پوری طرح مس فٹ تھا۔یہ دنیا اور وہ ایک دوسرے کے لیے شاید بنے ہی نہیں تھے مگر سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ وہ عام لوگوں کی طرح اس دنیا سے شاکی نہیں تھا۔اسے میں نے کبھی معاشرے کو‘حالات کو اور معاملات کو برا بھلا کہتے نہیں سنا۔مجھے اس کے تحمل اور قوت برداشت پر حیرت بھی ہوتی اور جھنجھلاہٹ 
بھی۔جب ہم بیٹھ کر اس کے واقف کار مفت بروں کو بُرا بھلا کہتے تو وہ صرف مسکراتارہتا۔وہ کسی بات پر بھی نہ تو مشتعل ہوتا اور نہ گرمی کھاتا۔نہ وہ کسی کے خلاف بولتا اور نہ ہماری ہاں میں ہاں ملاتا‘ بلکہ ہمارے اس طرح گرمی کھانے پر ایسے مسکراتا جیسے ہمیں احمق سمجھ کر معاف کر رہا ہو اور لطف لے رہا ہو۔ گھر کے ہر کام میں سستی اور آرام طلبی دکھانے والا طاہر دو کاموں میں بڑا تیز تھا۔مفت کے کیس نہایت عرق ریزی اور محنت سے تیار کرنے اور پیش کرنے میں اور دوسرا مہمانوں کے آنے پر اس کی پھرتیاں قابل دید ہوتی تھیں۔گزشتہ تین دن جھنگ اس کے گھر گزارے تو لگتا تھا ابھی دروازے سے مرغ روسٹ کے ڈبے‘ آئس کریم کے پیک‘پھلوں کی پیٹیاں اور نجانے کیا کیا لے کر وہ اندر آئے گا اور حسب معمول کہے گا اور فلاں چیز نہیں مل سکی‘ ختم ہو گئی تھی۔بس یہی کچھ ملا ہے فی الحال اسی سے گزارا کریں۔ مگر وہ ایک بار بھی نہیں آیا۔ آ بھی کیسے سکتا تھا؟اسے ہم اپنے ہاتھوں سے مٹی کے سپرد کر کے آئے تھے۔مجید امجد کی لحد سے محض چند قدم کے فاصلے پر۔جھنگ کے قبرستان لوہلے شاہ میں۔
اسے کبھی کسی کام کی جلدی نہیں ہوتی تھی مگر جاتے ہوئے اس نے صرف چند منٹ لگائے۔زاہد نے جھنگ سے فون پر صرف اتنا کہا کہ آپ بس آ جائیں۔کسی کو کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔کامران نے اندازاً بتایا کہ حالت سیریس ہے مگر دو منٹ بعد میری بڑی بیٹی نے روتے ہوئے بتایا کہ طاہر ماموں چلے گئے ہیں۔ مجھے یہ تسلی ضرور ہے کہ وہ اپنے ساتھ اعمال کے علاوہ حقوق العباد کی ادائیگی کا بہت بڑا خزانہ لے کر گیا ہے۔ہماری باری کسی وقت بھی آ سکتی ہے۔ خوف جانے کا نہیں تہی دامنی کا ہے۔واحد آسرا صرف اس کی رحمت کا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں