"KMK" (space) message & send to 7575

پی سی بی‘ میپکو‘ خواجہ آصف اور دھنیا

پورے ملک میں تماشا لگا ہوا ہے اور کسی کو احساس نہیں کہ ملک کن خطرات سے گزر رہا ہے‘ حالات کس سنجیدگی اور متانت کے متقاضی ہیں۔ اس وقت خودغرضی‘ ذاتی انا‘ شخصی مفادات اور مخالفت برائے مخالفت سے کہیں اوپر جا کر ایثار‘ خلوص‘ قربانی اور وسیع القلبی کی ضرورت ہے۔ ہر طرف افراتفری اور لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔ ملک ''روم جل رہا تھا اور نیرو بنسری بجا رہا تھا‘‘ کی تصویر پیش کر رہا ہے۔ حکومت کو اچانک چودہ سال بعد ڈی چوک پر فوجی پریڈ کا خیال آ گیا۔ کیونکہ اسی جگہ عمران خان نے لانگ مارچ کے شرکا کو اکٹھا کرنے کا اعلان کیا۔ اک تماشے کی سی صورت ہے اور پرویز رشید کے بیانات۔ 
سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کے گھر اس کا ہمسایہ آیا اور کہنے لگا کہ ہمارے گھر مہمان آئے ہیں‘ چارپائی چاہیے۔ سردار بلدیو سنگھ نے پڑوسی کی بات سنی اور کہنے لگا سریندر سنگھا! ہمارے تو اپنے گھر پروہنے آئے ہیں۔ چھ جی ہیں اور آٹھ منجیاں ہیں۔ ایک میری‘ ایک میری ووہٹی کی‘ ایک وڈے پتر کی‘ ایک اس کی ووہٹی کی‘ ایک چھوٹے پتر کی اور میری دھی کرن جیت کور کی۔ یہ چھ منجیاں تو ہو گئیں ہماری۔ دو پروہنے روپڑ سے آئے ہیں وہ باقی دو منجیوں پر سوئیں گے۔ کوئی چارپائی فالتو نہیں ہے۔ سریندر سنگھ نے یہ بات سن کر کہا۔ سردار جی! کوئی بات نہیں۔ میں کسی اور سے مانگ لیتا ہوں۔ یہ کہہ کر سریندر سنگھ واپس جانے لگا۔ ابھی وہ دس بارہ قدم ہی گیا تھا کہ پیچھے سے سردار بلدیو سنگھ نے اسے آواز دی۔ اوئے سریندر سنگھا! اوئے سریندر سنگھا! آواز سن کر سریندر سنگھ پلٹا اور کہنے لگا۔ کیا بات ہے بلدیو سنگھ جی! سردار بلدیو سنگھ کہنے لگا۔ سن اوئے سریندر سنگھا! ہمارے پاس آج کوئی منجی واقعی فارغ نہیں۔ لیکن اگر فارغ ہوتی بھی تو تجھے دینی نہیں تھی۔ اپنے پرویز رشید کا بھی یہی حال ہے اچھی بھلی صورتحال کچھ بہتر ہونے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں اور پرویز رشید اسی وقت پرویز رشید سے سردار بلدیو سنگھ بن جاتے ہیں۔
یہ تو صرف ڈی گرائونڈ کا معاملہ تھا۔ ہرطرف تماشا بلکہ شغل میلہ لگا ہوا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) میں میوزیکل چیئر کا کھیل چل رہا ہے۔ پینتیس پنکچر فیم نجم سیٹھی چار دفعہ فارغ ہوئے اور چار دفعہ بحال ہوئے۔ یعنی کل پانچ دفعہ چیئرمین پی سی بی بن چکے ہیں۔ کرکٹ بورڈ کے لیے ان کی ناگزیری دیکھتے ہیں تو گمان پیدا ہوتا ہے کہ موصوف شاید دنیائے کرکٹ کے سب سے معروف اور تجربہ کار شخص ہیں اور پاکستان کی کرکٹ ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتی؛ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نجم سیٹھی کا پاکستان کی کرکٹ میں کفیل بھائی گھوٹکی سے بھی کہیں نچلا درجہ ہے۔ کرکٹ کے حوالے سے کفیل بھائی گھوٹکی نجم سیٹھی سے کہیں معروف اور مشہور تھا۔ اللہ جانے وہ زندہ ہے یا نہیں۔ اگر حیات ہے تو خدا کرے صحت و تندرستی کے ساتھ ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کی سڑکوں پر چلنے والے تقریباً ساٹھ ستر فیصد ٹرکوں کے پیچھے کفیل بھائی گھوٹکی کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھا مل جاتا تھا۔ دنیائے کرکٹ کا بے تاج بادشاہ‘ کفیل بھائی گھوٹکی۔ لیفٹ آرم‘ رائٹ آرم‘ سپن بالر‘ کفیل بھائی گھوٹکی۔ کرکٹ کا شہنشاہ‘ کفیل بھائی گھوٹکی۔ کرکٹ کی دنیا کا عظیم ترین کھلاڑی‘ کفیل بھائی گھوٹکی اور اسی قسم کی دیگر تحریریں۔ کفیل بھائی پیشے کے اعتبار سے پینٹر تھا اور کرکٹ کا دیوانہ۔ وہ گھوٹکی میں کرکٹ کھیلتا تھا یا نہیں‘ اس بارے میں راوی‘ حسب معمول خاموش ہے مگر وہ پاکستان کی کرکٹ کی تاریخ میں ''چاچا کرکٹ‘‘ جیسا کردار تھا۔ گھوٹکی میں ٹرک اڈوں اور ہوٹلوں میں رکنے والے ٹرکوں کو پیچھے وہ رنگ اور برش سے یہ سب کچھ لکھتا تھا۔ ٹرک ڈرائیور اسے منع بھی نہیں کرتے تھے۔ 
پرانے ٹرکوں پر یہ تحریریں بکثرت مل جاتی تھیں۔ اب ایک عرصہ ہوا کسی ٹرک پر کفیل بھائی کے بارے میں کچھ لکھا نظر نہیں آتا۔ ٹرکوں کی بیک بالکل بے رونق ہو گئی ہے۔ کبھی یہ عالم تھا کہ ہر تین میں سے دو ٹرکوں کے پیچھے کفیل بھائی گھوٹکی کا ذکر ملتا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ بھولے سے بھی کسی ٹرک کے پیچھے کفیل بھائی کی کرکٹ کے بارے میں‘ اس کے مقام کے بارے میں اور سب سے بڑھ کر اس کے ذوق و شوق کے بارے میں کچھ نہیں ملتا۔ اب لے دے کر نجم سیٹھی کا ذکر ملتا ہے اور عدالتی کارروائیوں کا۔ 
ایک دوست سے ملاقات ہوئی تو وہ پوچھنے لگا کہ آخر عدالتوں میں میرٹ کا کیا معیار ہے؟ عدالتوں کے فیصلوں کا کیا مقام ہے؟ آخر چار بار کیسے ہوا کہ ایک عدالت نجم سیٹھی کو پی سی بی کی چیئرمینی کا اہل نہیں سمجھتی۔ اس کی تقرری کو خلاف ضابطہ قرار دیتی ہے‘ دوسری عدالت بھی چار بار اس کی چیئرمینی کو درست اور اس کی تقرری کو عین قانونی سمجھتی ہے۔ فیصلوں کا آخر کچھ معیار ہے؟ آخر یہ کیسے ممکن ہے چار بار ایک جیسا فیصلہ ہو اور ہر بار اپیل کا بھی پہلے جیسا فیصلہ آئے؟ آخر یہ کیا مذاق ہے کہ حکومت ایک ایسے شخص کو کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنانے پر بضد ہے جس کو کرکٹ کی الف ب کا پتہ نہیں ہے۔ پنکچروں کے محافظوں اور ان کے غیر مشروط حمایتیوں کا کہنا ہے کہ پی سی بی کی چیئرمینی کے لیے کرکٹ کا تجربہ‘ علم اور آگاہی قطعاً ضروری نہیں۔ یہ انتظامی عہدہ ہے یعنی ایڈمنسٹریٹو پوسٹ ہے اور اس پر تعیناتی کے لیے اچھا منتظم ہونا ضروری ہے نہ کہ کرکٹ کا کوئی سابق کھلاڑی یا کرکٹ کے معاملات سے آگاہ ہونا۔ دوسرے دوست نے دخل در معقولات دیتے ہوئے فرمایا کہ جہاں تک نجم سیٹھی کے پنکچر لگانے کی صلاحیت کا تعلق ہے تو اس عاجز کو ان کے اس علم اور مہارت کا تو پتہ نہیں مگر جہاں تک معاملہ ہے ان کے اچھے منتظم ہونے کا تو مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے کاروباری معاملات تو اچھی طرح چلا نہیں سکے اربوں روپے کے فنڈ پر بطور نگران ان کی تعیناتی کا انجام کیا ہونا ہے سب کو معلوم ہے۔ کسی شخص کے حال کے جانچنے کے لیے اس کا ماضی ہی کافی ہوتا ہے۔ 
ایک تماشا کرکٹ بورڈ میں لگا ہوا ہے اور ایک تماشا ادھر ملتان الیکٹرک پاور کمپنی یعنی میپکو میں لگا ہوا ہے۔ گزشتہ پونے دو سال سے میپکو کے انتظامی معاملات ایڈہاک ازم پر چلائے جا رہے ہیں اور اس عرصہ میں چار چیف ایگزیکٹو آفیسر ریٹائر یا تبدیل ہو چکے ہیں۔ ستمبر 2013ء کو ایک کل وقتی چیف ایگزیکٹو آفیسر فارغ ہوا تو ایک تین ماہ بعد ریٹائر ہونے والے افسر کو وقتی چارج دے دیا گیا۔ اس کی ریٹائرمنٹ پر جس افسر کو عارضی چارج دیا گیا وہ آٹھ ماہ بعد ریٹائر ہو گیا۔ پھر ایک اور افسر کو عارضی چارج دیا گیا لیکن پانچ ماہ بعد اسے فارغ کر کے ایک اور بزرگ افسر کو عارضی چارج دے دیا گیا۔ 2 جولائی 2014ء کو پانچ ماہ نو دن بعد اسے فارغ کر کے ایک اور افسر بھیج دیا گیا۔ اب 2 جولائی سے میپکو میں تماشا لگا ہوا ہے۔ 2 جولائی کو نئے آنے والے افسر نے زبردستی چارج لے لیا اور پرانے چیف ایگزیکٹو کا داخلہ میپکو ہیڈ کوارٹر میں بند کردیا۔ چوکیدار تعینات کردیے۔ حتیٰ کہ میپکو گیسٹ ہائوس میں اس کے کمرے کو تالا لگوا دیا اور اس کے کپڑے‘ بریف کیس وغیرہ اندر رہ گئے۔ پرانا چیف ایگزیکٹو کورٹ میں چلا گیا۔ اسے امتناع مل گیا۔ اب وہ دفتر میں کیسے داخل ہو؟ ادھر نئے چیف ایگزیکٹو نے عدالتی حکم کے خلاف نظرثانی کی اپیل کردی۔ ابھی عدالت کا پچھلا حکم معطل نہیں ہوا تھا لہٰذا پرانا چیف ایگزیکٹو کسی نہ کسی طرح غچہ دے کر دفتر آیا اور اپنے کمرے میں بیٹھ گیا۔ نیا چیف ایگزیکٹو گیسٹ ہائوس میں دفتر لگا کر بیٹھ گیا۔ دوسرے دن نیا چیف ایگزیکٹو تیس چالیس سپاہی‘ ایک ڈی ایس پی اور ایک ضلعی انتظامی افسر لے کر میپکو ہیڈ کوارٹر آیا اور ''بزور شمشیر‘‘ اپنی کرسی خالی کروا کر بیٹھ گیا حالانکہ ابھی اس کی نظرثانی کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اس کی تاریخ اگلے روز تھی۔ 2 جولائی سے آج تک میپکو میں ہر قسم کا انتظامی کام بند ہے۔ لوڈشیڈنگ زوروں پر ہے۔ اسی دوران چیف ایگزیکٹو کا سٹاف آفیسر انجینئر یوسف اقبال اس سارے جھگڑے اور تنائو میں اپنی جان سے چلا گیا۔ فائلیں ٹھپ پڑی ہیں۔ انتظامی معاملات دگرگوں ہیں۔ میپکو ہیڈ کوارٹر نوگوایریا بن چکا ہے۔ عدالتوں میں حاضریاں لگ رہی ہیں اور جگ ہنسائی اس کے علاوہ۔ چیف ایگزیکٹو افسر کا عہدہ اپنی آخری حد تک بے توقیر ہو رہا ہے۔ عوام بجلی کے مسئلے پر سڑکوں پر ہیں۔ حکومت اس سلسلے میں شدید دبائو میں ہے۔ پاکستان کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں سے سب سے بڑی کمپنی میپکو میں گزشتہ اکیس بائیس دنوں سے رتی برابر کام نہیں ہوا۔ وزیر مملکت کو تو خیر چھوڑیں وہ سوائے الٹے سیدھے بیان دینے اور اپنے ذاتی معاملات سدھارنے کے علاوہ نہ تو اور کچھ کر رہے ہیں اور نہ ہی اُن سے کسی قسم کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سیکرٹری پانی و بجلی کو سوائے وڈیو کانفرنس کرنے کے اور کوئی کام نہیں۔ گمان ہے کہ وزارت پانی و بجلی کے معاملات میں خواجہ آصف دھنیے کا استعمال بکثرت کر رہے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں