"KMK" (space) message & send to 7575

مریض اور مسیحا

اس وقت ملک میں اگر سروے کروایا جائے کہ لوگ کیا چاہتے ہیں تو پتہ چلے گا کہ لوگ صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ چودہ اگست کو کیا ہوگا؟ جس سے ملیں وہ یہی سوال کرتا ہے۔ حتیٰ کہ عالم یہ ہے کہ آپ جس شخص کو بڑا معتبر اور باخبر سمجھ کر اس سے یہ سوال کرنا چاہتے ہیں‘ وہ آپ سے زیادہ پھرتیلا نکلتے ہوئے آپ کے سوال کرنے سے پہلے آپ سے سوال کر دیتا ہے کہ چودہ اگست کو کیا ہوگا؟ میں خود اس سوال سے تنگ ہوں۔ سوال کی نوعیت ایک سی ہے بس الفاظ کی ترتیب یا معاملے کی نوعیت کو تھوڑا سا اِدھر اُدھر کرنے کے علاوہ اور کچھ نیا نہیں۔ کوئی پوچھتا ہے کہ اس سارے معاملے کے پیچھے کون ہے؟ کوئی سوال کرتا ہے کہ عمران خان کتنے بندے اکٹھے کر لے گا؟ کوئی پوچھتا ہے کہ معاملہ پُرامن ہو گا یا خون خرابے کا امکان ہے؟ کسی کا سوال ہے کہ فوج کیا کرے گی؟ کسی کا سوال ہے اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے؟ کسی کا پوچھنا ہے کہ حکومت فری ہینڈ دے گی یا حسب معمول رکاوٹیں کھڑی کرے گی‘ گرفتاریاں کرے گی اور نظربندیاں کرے گی؟ غرض ہر سوال کا محور و مرکز چودہ اگست ہے۔ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں۔ میں خود کسی ایسے باخبر کا متلاشی ہوں جو ملتان میں بیٹھے ہوئے اس عاجز کو کچھ بتائے۔ جس سے میں پوچھتا ہوں وہ کہتا ہے کہ اس سے خود کسی نے یہ سوال کیے ہیں اور وہ ان کے جوابات مجھ سے پوچھنا چاہتا تھا۔ غرض ایک گھن چکر ہے جس میں ہر سمجھدار اور ناسمجھ یکساں عالمِ پریشانی میں ہے۔ اس صورتحال پر ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی ایک نظم ''مریض اور مسیحا‘‘ یاد آ رہی ہے۔ پڑھیں اور لطف لیں۔ 
''مریض اور مسیحا‘‘ 
بیمار ہو کے میں جو گیا ڈاکٹر کے ہاں 
کیونکر بتائوں کیسے مرے اڑ گئے حواس 
حیراں ہوا میں سن کے یہ نرسوں کی ٹیم سے 
وہ خود دوائی لینے گئے ہیں حکیم سے 
آگے سے جب حکیم کو ڈھونڈا‘ ہوا عیاں 
آئے تھے اس جگہ جو ابھی ڈاکٹر فلاں 
ان کو پئے مشاورت یہ حاذقِ زماں 
لے کر گئے ہوئے ہیں کسی ہومیو کے ہاں 
ناچار ہومیو کی طرف اٹھ گئے قدم 
پہنچا وہاں جو پاٹ کے گلیوں کے پیچ و خم 
بولا یہ بالکا کہ مجھے آپ کی قسم 
تینوں گئے ہیں پیر کے در پر کرانے دم 
ہنستے ہوئے جو پہنچا میں پھر پیر جی کے گھر 
تینوں کھڑے ہوئے تھے گلی میں پکڑ کے سر 
سن کر مرید خاص بڑے ڈاکٹر کا نام 
بولا پکڑ کے گھٹنوں کو از راہِ احترام 
تھا پیر جی کو رات سے سر درد مع زکام 
سو چھوڑ کر ادھورا یہاں اپنا فیض عام 
وہ آپ کے مطب پہ گئے ہیں ابھی ابھی 
ہوتا ہے اس طرح بھی جہاں میں کبھی کبھی 
...٭... 
فی الوقت ملکی صورتحال بھی اسی قسم کی ہے‘ جس سے علاج پوچھیں وہ خود سائل نکلتا ہے۔ سمجھدار کیونکہ سمجھدار ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ انہیں کچھ نہیں پتہ‘ لہٰذا وہ کچھ بتانے سے قاصر ہیں اور جن کو پتہ نہیں ہے وہ لمبی لمبی چھوڑ رہے ہیں۔ کوئی خبر دیتا ہے کہ فلاں ادارہ فلاں کے ساتھ ہے اور فلاں ایجنسی فلاں کے ساتھ ہے۔ جب یہ پوچھیں کہ آخر ایجنسیاں کسی کے آشیرباد کے بغیر عملی طور پر کیا دھڑن تختہ کر سکتی ہیں تو جواب آئیں بائیں شائیں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ایک دو دوستوں نے بڑے دعوے سے بتانا شروع کیا کہ دراصل ہو کیا رہا ہے اور مزید کیا ہونے جا رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ وہ نہ صرف خود کنفیوز ہیں بلکہ ہمیں بھی کنفیوز کر رہے ہیں۔ کنفیوژن اور پریشانی میں انسان ناامید ہوتا ہے اور الٹے سیدھے فیصلے کرتا ہے‘ غلط سلط لوگوں کی سنتا ہے اور فضول قسم کی باتوں پر یقین کرنا شروع کر دیتا ہے۔ میرا بھی یہی حال ہے‘ بلکہ میرا کیا قوم کی اکثریت کا یہی حال ہے۔ آپ یقین کریں کہ اس پریشانی میں‘ میں نے کل چودھری بھکن سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا کہ کیا ہو رہا ہے اور چودھری بھکن کے خیالات عالیہ سے مستفید ہوا ہوں۔ آپ یقین کریں اس کی باتیں سننے کے بعد مجھے نہ صرف چودھری بھکن کی دانشوری اور سمجھداری پر رشک آیا بلکہ خود اپنے آپ کو بھی داد دینے کو دل چاہا کہ میں نے ایسا بہترین فیصلہ کیا اور چودھری بھکن جیسے عظیم دانشور سے معاملات ڈسکس کیے۔ 
میں نے پوچھا‘ چودھری کیا ہونے جا رہا ہے؟ چودھری کہنے لگا ''میرا خیال ہے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ معاملات خرابی کی حد پار کرنے سے پہلے ٹھیک ہو جائیں گے۔ درمیان والے معاملات کو خراب نہیں ہونے دیں گے۔ کچھ حلقے شریفوں کے ساتھ ہیں تو کچھ ادارے ان کے مخالفین کے حامی مگر یہ بھی سب ڈرامہ ہے۔ کوئی کسی کے ساتھ نہیں۔ سب پاکستان کے ساتھ ہیں۔ میرا مطلب ہے‘ زور والے صرف پاکستان کے ساتھ ہیں۔ ان کو پاکستان کی بھلائی‘ سلامتی اور حفاظت درکار ہے۔ بالآخر وہ سارے معاملات درست کر لیں گے‘‘۔ میں نے پوچھا‘ کیا یہ زورآوروں کا ڈیزائن کردہ ڈرامہ ہے؟ چودھری کہنے لگا ''نوکمنٹس! بس اتنا بتا رہا ہوں کہ اب معاملات اتنے بھی خراب نہیں کہ قابو سے باہر ہوں اور نہ ہی کوئی فریق اتنا طاقتور ہے کہ ہر چیز مکمل اپنی مرضی سے کرنے پر آ جائے‘‘۔ میں نے پوچھا‘ کون سے فریق؟ کہنے لگا ''چودہ اگست والے متحارب فریق‘‘۔ میں نے پوچھا‘ زور آور بھی فریق ہیں؟ کہنے لگا ''نہیں‘‘۔ میں نے پوچھا‘ کیا وہ ریفری ہیں؟ چودھری کہنے لگا ''نہیں! وہ صرف ریفری نہیں اور بھی بہت کچھ ہیں۔ لیکن تم مجھ سے وہ باتیں کیوں پوچھ رہے ہو جن کا مجھے خود علم نہیں ہے۔ میں تو صرف تُکے مار رہا ہوں۔ البتہ مجھے یہ پتہ ہے کہ اب عمران خان کے پاس فرار کا راستہ نہیں ہے۔ وہ اپنے سارے راستے بند کر چکا ہے۔ اب آخری امید یہی ہے کہ کوئی باعزت راستہ نکل آئے۔ دونوں کے لیے۔ لیکن اس کے لیے دل بڑا کرنا پڑے گا۔ عمران کو بھی اور میاں صاحب کو بھی۔ عمران تو اس نوبت پر تنگ آ کر آیا ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر۔ ہر دروازہ کھٹکھٹا کر واپس لوٹا ہے۔ حکومت نے اس کے لیے کوئی اور راستہ ہی نہیں چھوڑا کہ وہ سڑکوں پر نہ آئے۔ یہ تو تنگ آمد بہ جنگ آمد والا معاملہ ہے۔ اوپر سے حکومتی وزراء نے معاملہ مزید خراب کردیا ہے۔ پرویز رشید‘ خواجہ سعد رفیق‘ خواجہ آصف اور اب تازہ تازہ میدانِ لاف گزاف میں آنے والا رانا مشہود۔ ان سب نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے بجائے گرم کیا ہے۔ پانی ڈالنے کے بجائے تیل ڈالا ہے اور معاملات کو حل کرنے کے بجائے محاذ آرائی کی طرف دھکیلا ہے۔ اگر یہ چار لوگ نہ ہوتے تو عمران کو ہینڈل کرنا بڑا آسان تھا۔ ابھی کل پرسوں رانا مشہود نے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہا ہے۔ ان لوگوں نے پیپلز پارٹی کے گزشتہ پانچ برسوں سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ لیکن یہ مسلم لیگ کا قصور نہیں۔ ان کے لیڈر نے خود دس سالہ جلاوطنی سے کچھ نہیں سیکھا۔ اب جوں جوں چودہ اگست قریب آ رہی ہے میاں صاحب کو ''تریلیاں‘‘ آنی شروع ہو گئی ہیں۔ اب بے چارے اعجازالحق کی بھی لاٹری نکل آئی ہے۔ بقول شیخ رشید جب میاں صاحب کا پیٹ پھٹنے پہ آتا ہے تو وہ خیرات بانٹنے پہ آتے ہیں۔ بات چار حلقوں سے چلی تھی اور اب پورے سسٹم پر آ گئی ہے۔ بھٹو صاحب نے بھی تقریباً اکیس حلقوں کی دھاندلی پر ساری جمہوری بساط لپٹوا لی تھی۔ لیکن اب واحد پلس پوائنٹ یہ ہے کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرنا تو ایک طرف‘ دیکھنا بھی نہیں چاہتی مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملک برباد ہوتا رہے اور وہ محض تماشائی کے طور پر کھڑی رہے گی۔ باقی تم خود سمجھدار ہو۔ تھوڑے کو بہت جانو۔ اللہ خیر کرے گا۔ فی الحال تو یہ سارا معاملہ مریض اور مسیحا جیسا ہی نظر آ رہا ہے مگر اس کا حل نکل آئے گا‘‘۔ میں نے پوچھا اگر کوئی حل نہ نکلا تو پھر؟ چودھری نے کہا پھر نقصان عمران کا ہوگا۔ حکمران اپنی ساری حماقتوں کے باوجود نسبتاً محفوظ کنارے پر کھڑے ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں