"KMK" (space) message & send to 7575

باغی‘ داغی اور نعرہ بازوں کی تاریخ… (2)

ملتان باغیوں کا بھی شہر ہے اور باغیوں کے خلاف مورچہ بند گدی نشینوں کا بھی۔ اب سب کی تفصیل کیا لکھوں۔ پہلے بھی لکھ چکا ہوں۔ ملتان کے قریشی‘ گردیزی‘ گیلانی اور دیگر چھوٹی بڑی گدیوں کے وارث‘ سبھی انگریزوں کے کاسہ لیس اور انگریزوں کے باغیوں کا قلع قمع اور سرکوبی کرنے والوں میں بدرجہ اتم موجود تھے؛ تاہم سب سے بہتر انداز میں ان باغیوں کا سدباب جناب مخدوم شاہ محمود قریشی نے کیا اور اس کا بہترین عوضانہ بھی وصول کیا۔ 
1857ء میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کا آغاز دس مئی کو میرٹھ چھائونی سے ہوا اور پورے برصغیر میں پھیل گئی۔ ملتان میں بغاوت کی شروعات پلٹن نمبر 62‘ پلٹن نمبر 69 نے کیں۔ ہملٹن کمشنر ملتان اور کرنل ہکس کمان افسر تھا۔ دس جون کو دونوں پلٹنوں سے ہتھیار رکھوانے کا عمل مکمل ہو گیا لیکن دونوں پلٹنوں کے فوجیوں کو چھائونی میں ہی محصور رکھا گیا۔ اس دوران بغاوت کی سازش کا جرم ثابت ہونے پر پلٹن نمبر 69 کے ایک ہندوستانی افسر کو مع دس سپاہیوں کے توپ سے اڑا دیا گیا۔ پلٹنوں کو توڑ کر ان کے سپاہیوں کو ہر روز بیس بیس کی تعداد میں چھائونی سے نکالا جانے لگا تاکہ وہ اکٹھے ہو کر بغاوت نہ کردیں۔ اسی دوران یہ بات عام ہو گئی کہ ان بیس بیس سپاہیوں کو چھائونی سے نکلنے کے بعد ہلاک کردیا جائے گا۔ اس پر بغاوت ایک دم پھوٹ پڑی۔ قریب بارہ سو آدمیوں نے بغاوت کی جن میں سے تین سو کے لگ بھگ تو ملتان چھائونی میں ہی مارے گئے۔ بقیہ نو سو کے قریب باغی اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ 
چار سو کے قریب باغی شجاعباد کی طرف نکل گئے۔ ان کو دریا کے ٹاپو میں مخدوم درگاہ شیر شاہ اور تحصیلدار شجاعباد نے گھیر کر مار دیا۔ بچے کھچے باغیوں کو دریائے چناب اور ستلج کے اتصال پر لیفٹیننٹ نوا گیٹ نے جا پکڑا اور سبھی مارے گئے۔ ایک گروہ ملتان شہر کی جانب چل پڑا۔ ملتان شہر کی جانب پیشقدمی کرنے والے باغیوں کو شہر اور چھائونی کے درمیان واقع پل شوالہ پر روکنا مقصود تھا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اس موقع پر اپنی جمعیت سمیت کمشنر ملتان مسٹر ہملٹن کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ شہر اور چھائونی کے درمیان واقع اس پل کی حفاظت مخدوم شاہ محمود قریشی کے سپرد کردی گئی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اس سے قبل بھی سرکار عالیہ انگلشیہ کے لیے نمایاں خدمات انجام دے چکا تھا۔ کمشنر ملتان کو ہر طرح کے حالات و واقعات سے آگاہی دینے کے علاوہ غلام مصطفی خاکوانی کے رسالے کے لیے بیس سوار فراہم کیے تاکہ باغیوں کی سرکوبی کی جا سکے۔ اسی دوران مخدوم شاہ محمود قریشی خود بھی پچیس سواروں کے ہمراہ کرنل ہملٹن کی سربراہی میں باغیوں سے برسرپیکار رہا۔ 
پل کی حفاظت کے دوران اس کے تمام مریدوں نے سرکار عالیہ کا ساتھ دیا اور کسی نے بھی ''باغیوں اور مفسدوں‘‘ کا ساتھ نہ دیا۔ پل شوالہ کے معرکہ میں جان دینے والے باغیوں کی کل تعداد کی تفصیل تو نہیں ملتی مگر ان کی تعداد خاصی تھی۔ ان خدمات کے عوض مخدوم شاہ محمود قریشی کو مبلغ تین ہزار روپے بطور انعام عطا ہوئے۔ یاد رہے کہ 1857ء میں ملتان کے مخدوموں کو فی باغی ہلاک کرنے پر مبلغ بیس روپے یا ایک مربع اراضی عطا ہوئی۔ اس سے بیس روپے اور ایک مربع اراضی کی قیمت کی باہمی نسبت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مخدوم صاحب کو اس سے قبل انگریز سرکار سے جو وظیفہ ملتا تھا‘ اس کے معاوضہ میں مبلغ 1780 روپے سالانہ کی جاگیر عطا ہوئی اور آٹھ چاہات جن کی سالانہ جمع مبلغ پانچ سو پچاس روپے تھی بطور معافی دوام عطا ہوئے۔ 1860ء میں وائسرائے ہند کی لاہور آمد پر مخدوم شاہ محمود قریشی کی ذات خاص 
کے لیے ایک باغ جس کی آمدنی ایک سو پچاس روپے سالانہ تھی‘ عطا کیا گیا۔ اس باغ کا نام بیگی والا باغ تھا۔ 1869ء میں مخدوم شاہ محمود قریشی کا انتقال ہوا تو ڈپٹی کمشنر نے ملتان میں تعطیل عام کا اعلان کیا۔ مرحوم کے سوگ میں بطور اعزاز مقامی عدالتیں بند کردی گئیں۔ مخدوم شاہ محمود کے جانشین مخدوم شیخ بہاول بخش کی دستاربندی ڈپٹی کمشنر بہادر نے اپنے دست مبارک سے کی اور ایک شاہانہ خلعت عطا کر کے درگاہوں کا سجادہ نشین مقرر کیا۔ 
مخدوم بہاول بخش کے نام اس کے والد کی خاص نو مواضعات کی جاگیر اور باغ بدستور جاری رکھا گیا اور نہر واقع میلسی کی چرائی کی آمدنی سے بھی کچھ فیصدی اس کا حق مقرر کیا۔ نیز موضع سیرتھ واقع تحصیل میلسی کے مالیہ کا چوتھائی حصہ بھی اس خاندان کے لیے علی الدوام عطیہ کے معین ہو گیا۔ دربار لاہور منعقدہ 1880ء کے موقع پر مخدوم بہاول بخش کو جنگ افغانستان میں بار برداری کے اونٹ جمع کرنے میں مدد اور بذات خود اس جنگ میں شامل ہونے کی درخواست کرنے پر خلعت عطا کی گئی۔ مخدوم بہاول بخش کو 1877ء میں آنریری مجسٹریٹ بنایا گیا اور چند سال تک میونسپلٹی کا ممبر بھی رہا۔ بہاول بخش پراونشل درباری بھی تھا۔ مخدوم بہاول بخش 1896ء میں فوت ہوا۔ اس کا بیٹا مخدوم شیخ محمد شاہ اس کی وفات سے قبل ہی فوت ہو چکا تھا۔ 
مخدوم بہاول بخش کی جگہ اس کا بھائی مخدوم شیخ حسن بخش حضرت بہائوالدین زکریا اور رکن الدین عالم کی درگاہوں کا گدی نشین مقرر ہوا۔ مخدوم شیخ حسن بخش 1896ء میں آنریری مجسٹریٹ مقرر ہوا اور 1905ء میں اسے خان بہادر کا خطاب عطا کیا گیا۔ یہ پراونشل درباری بھی رہا۔ مخدوم شیخ حسن بخش 1921ء میں وفات پا گیا اور اس کا بیٹا مخدوم مرید حسین اس کا جانشین مقرر ہوا۔ مخدوم مرید حسین کو نہ صرف پراونشل درباری مقرر کیا گیا بلکہ آنریری مجسٹریٹ بدرجہ اول اختیارات‘ آنریری ایکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بھی مقرر کیا اور عدالت ہائے دیوانی میں حاضری سے مستثنیٰ اور معافی دار کیا گیا۔ بعدازاں اسے نواب کا خطاب بطور ذاتی عطا کیا۔ کچھ عرصہ بعد اسے مخدوم سید راجن بخش شاہ گیلانی کی وفات سے خالی ہونے والی لیجسلیٹو اسمبلی کی ممبری کے لیے منتخب کر لیا گیا۔ 
مخدوم شاہ محمود کا چھوٹا بھائی شیخ پیر شاہ بھی پراونشل درباری تھا اور ملتان میونسپلٹی کا اعزازی سیکرٹری رہا۔ میلسی کے تین مواضعات کی جاگیر اس کے نام تھی۔ اس کا بیٹا شیخ ریاض حسین اپنے باپ کی وفات کے بعد پراونشل درباری بنا دیا گیا۔ 1897ء میں اسے ٹوچی فیلڈ فورس میں آنریری اسسٹنٹ پولیٹیکل افسر مقرر کیا گیا۔ اسے تمغہ برائے خدمات سرکار عالیہ انگلشیہ کے ساتھ تلوار بھی عطا کی گئی۔ 1892ء میں اسے آنریری مجسٹریٹ بنایا اور 1907ء میں اسے خان بہادر کا خطاب دیا گیا۔ جنگ عظیم کے دوران چندہ دینے اور رنگروٹ بھرتی کرنے کے عوض اسے سی آئی ای کا خطاب دیا گیا اور نواب بنا دیا گیا۔ 
نواب مرید حسین کا چھوٹا بھائی شیخ احمد کبیر ڈسٹرکٹ بورڈ کا ممبر نامزد ہوا۔ اس نے اپنا سارا زور اور اثرو رسوخ تحریکات عدم تعاون و سول نافرمانی کے خلاف صرف کیا۔ نواب مرید حسین کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مخدوم سجاد قریشی دونوں درباروں کا گدی نشین مقرر ہوا۔ مخدوم سجاد حسین 1946ء تک پکا یونینسٹ تھا؛ تاہم 1947ء میں ہوا کا رخ دیکھ کر مسلم لیگ میں شامل ہو گیا۔ 1962ء اور 1965ء میں مخدوم سجاد حسین ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا۔ 1970ء کا الیکشن ہارا اور 1977ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کا ممبر منتخب ہوا؛ تاہم جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ایک بار پھر سیاسی وابستگی تبدیل کی اور جنرل ضیاء الحق کی مجلس شوریٰ کا ممبر بننے میں کامیاب ہو گیا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد سینیٹ کارکن اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ بنا۔ 1985ء سے 1988ء تک گورنر پنجاب رہا۔ 1998ء میں وفات پائی۔ مخدوم شاہ محمود قریشی کو درباروں کا گدی نشین بنا دیا گیا۔ شاہ محمود قریشی گدی نشین اور سیاستدان کے علاوہ کاشتکاروں کی تنظیم ''فارمرز ایسوسی ایشن پاکستان‘‘ کا چیئرمین بھی ہے اور ایک مثالی کاشتکار بھی۔ اسے یہ تخصیص اس زمین کے طفیل ملی ہوئی ہے جو اس کے آبائو اجداد کو باغیوں کی سرکوبی کرنے‘ ان کی ''منجی ٹھوکنے‘‘ اور ''منج کوٹنے‘‘ کے طفیل ایک مربع فی باغی کی گردن زدنی کے حساب سے عطا ہوئی تھی۔ گدی کے اصل وارث غوث پور قریشیاں میں خوارو خستہ ہیں اور لے پالکوں کی اولاد موج میلا کر رہی ہے۔ باغیوں کے خلاف اتنی شاندار اور تابناک تاریخ رکھنے والے ہی کسی شخص کو باغیوں کے خلاف نعرے لگانے کا حق حاصل تھا اور مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنا یہ حق کراچی میں ادا کر کے خود پر باغیوں کے خلاف واجب قرض ادا کر دیا ہے؛ تاہم یہ عاجز معذرت خواہ ہے کہ وہ دو قسطوں پر مشتمل اس تحریر میں ملتان کے باغی کشوں پر کماحقہ نہیں لکھ سکا کہ باغی شکن مخدوموں کے کارنامے کالم کی تنگی داماں میں سما نہیں سکتے۔ فی الحال معذرت قبول کیجیے۔ اللہ نے توفیق دی تو انشاء اللہ کبھی یہ قرض بھی ادا کردوں گا۔ (ختم) 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں