"KMK" (space) message & send to 7575

شریف آدمی کا بھی کوئی حال نہیں

برسوں بعد ایسا ہوا ہے کہ انگلستان میں باقاعدہ آوارہ گردی ہورہی ہے۔ مشاعرے نہیں ہیں صرف دوستوں کے ساتھ گھوم رہا ہوں۔ طارق قریشی اور رانا ظفر ملتان سے آئے ہیں۔ بابر ، زرین گل اور اشرف یہاں سے ساتھ شامل ہوئے ہیں۔ میں ایک دن پہلے پی آئی اے کی پرواز سے مانچسٹر آیا تھا اور طارق وغیرہ اگلے روز ترک ایئرلائن کی فلائٹ سے مانچسٹر آئے ہیں۔ طارق اور ظفر کا اصرار تھا کہ میں ان کے ساتھ برطانیہ چلوں۔ مشاعروں کے ''سیزن‘‘ میں ساتھ آنے والا خاکسار سیر کرسکتا ہے لہٰذا ان سے طے پایا کہ صرف سیر کے لیے چلیں گے۔ میں نے امریکہ مشاعروں کے سلسلے میں جانا تھا لہٰذا یہ فیصلہ کیا کہ راستے میں برطانیہ رک جایا جائے اور ایک ہفتہ اکٹھا گزارا جائے سو میں امریکہ جاتے ہوئے مانچسٹر اتر گیا۔ اگلے روز دونوں مانچسٹر آگئے۔ انہیں میں اور بابر ایئرپورٹ سے آسٹن لے آئے۔ وقت کم اور مقابلہ سخت تھا۔ لہٰذا سامان رکھا اور بلیک پول روانہ ہوگئے۔
مغرب کے بعد بلیک پول پہنچے تو سارا شہر حسب روایت بند ہوچکا تھا۔ سڑکیں سنسان تھیں۔ ریسٹورنٹس اور ہوٹلوں کے علاوہ ہر قسم کی دکان تقریباً بند ہوچکی تھی۔ شہر میں ہُوکا عالم تھا مگر ساحل سمندر کے ساتھ چلتی ہوئی سڑک میلوں تک روشن تھی۔ اکا دکا کاریں اور کبھی کبھی ٹرام۔ سیدھی سڑک میلوں تک روشن تھی اور خالی تھی۔ روشنی بھی ایسی کہ بس دیکھنے لائق۔ ایک جیسے روشن دروازے ایک جیسے فاصلے پر ایستادہ تھے اور جگمگارہے تھے۔ دن کے وقت اس سڑک پر بگھیاں چلتی ہیں۔ صحت مند، موٹے تازے اور بلند قامت گھوڑوں والی بگھیاں ۔ ایک طرف امیوزمنٹ پارک ہے جس کا نام Pleasure Beach Parkہے۔ ہوا میں معلق رولر کوسٹرز کی لائنیں اور راستے۔ اتنے الجھے ہوئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک ایسا گنجلک سلسلہ کہ نظر میں نہیں سماتا۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی دوسری بلند ترین رولر کوسٹر '' پیپسی میکس ‘‘ یہاں ہے جو اوپر سے نیچے ساٹھ ڈگری سے بھی زیادہ عمودی ڈھلوان پر آتی ہے۔ کمزور دل والے تو دیکھ کر ہی حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ برسوں پہلے بچوں کے ساتھ دوبار اس پارک میں آیا تو بیٹیوں نے زبردستی اس رولر کوسٹر میں بٹھا دیا۔ بعد میں انہوں نے داد دی کہ میں نے یہ مرحلہ بڑے مزے سے طے کرلیا تھا۔ پارک بند ہوچکا تھا تاہم طارق وغیرہ نے ایسی کسی حماقت سے پیشگی انکار کردیا تھا۔ باہر سے پیپسی میکس اور دوسری رولر کوسٹرز کی لائنیں اور جھولے نظر آرہے تھے۔ لائنوں کی اس بھول بھلیوں کو دیکھ کر طارق نے کہا کہ ہم نے اسی لیے یہ پروگرام بنایا ہی نہیں تھا۔ بھلا کوئی شریف آدمی اس عمر میں ایسی واہیات چیزوں پر بیٹھ سکتا ہے؟ یہ کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا۔ میں نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔
رات کا کھانا ایک پاکستانی کے ریسٹورنٹ میں کھایا۔ رات گئے واپس آئے تو موسم اچانک سرد ہوچکا تھا۔ راستے میں بارش شروع ہوگئی اور درمیان میں پندرہ بیس منٹ تو ایسی زوردار ہوئی کہ وائپر بھی بے بس ہوگئے۔ طارق نے کہا کہ گاڑی روک لیتے ہیں مگر بابر نے گاڑی دبائے رکھی۔ اگلا دن زرین گل کے ساتھ تھا۔ میانوالی کا زرین گل میرا دوست ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اصرار کررہا ہے کہ میں اس کے پاس مانچسٹر ٹھہروں مگر میں ہر بار اس سے اگلے سال کا وعدہ کرکے بہلا دیتا ہوں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ بابر کہیں اور ٹھہرنے ہی نہیں دیتا۔ مانچسٹر سٹی کا گرائونڈ مانچسٹر یونائیٹڈ کا سٹیڈیم، چائنا ٹائون، آرنڈیل سنٹر، سٹی کونسل ہال اور سٹی سنٹر۔ پکاڈلی اور '' لندن آئی‘‘ کی طرز پر بنایا گیا بلند اور سربفلک جھولا جس پر بیٹھ کر پورے شہر کا نظارہ کیاجاتا ہے۔ اسی دوران زاہد ظفر آگیا۔ اب دوستو ںنے شاپنگ شروع کردی۔ رانا ظفر نے ایک کوٹ خریدنے کااعلان کیا تھا مگر دو کوٹ تو خریدے ہی تھے دو سوٹ بھی خرید لیے۔ خریداری کی اس بھیڑ چال میں سب دوستوں نے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ برطانیہ میں کسی قسم کی خریداری نہیں کرنی۔ آگے امریکہ جانا ہے لہٰذا وزن اٹھانے کا نہ تو کوئی ارادہ تھا اور نہ ہی جواز۔ مگر میں نے بھی بیٹی کے لیے تین جرسیاں خرید لیں۔ نہایت عمدہ جرسیاں پاکستان سے کہیں کم قیمت پر مل رہی تھیں۔ برادرم طارق حسن کو غائبانہ طور پر یاد کیا اور اپنے ارادے پر لعنت بھیجی۔ خریداری کے فوراً بعد اپنے ارادے کی دوبارہ تجدید کی۔ یہ ارادہ بھی محض تین دن چلا۔
گلاسگو میں شیخ اشرف ہمارا منتظر تھا۔ رانا ظفر کا کہنا تھا کہ اسے سردی نہیں لگتی۔ گلاسگو کے بکینن سٹریٹ والے بس اڈے سے باہر نکلتے ہوئے رانا ظفر نے دعوے کی تصحیح کی اور کہا کہ اسے سردی کم لگتی ہے۔ گھر پہنچتے تک اس نے بیان جاری کیا کہ یہاں کچھ سردی سی لگ رہی ہے۔ دو دن بعد ایڈنبرا میں کھلی چھت والی بس پر شہر کا چوتھائی چکر لگانے کے بعد اس اس نے اپنے سابق دعوے پر لعنت بھیجی اور چھت سے اتر کر نیچے بند حصے میں آگیا۔ گلاسگو میوزیم دیکھنے لائق ہے اور میں کئی بار دیکھ چکا ہوں۔ اکیلے ، بیٹیوں کے
ساتھ اور اب دوستوں کے ہمراہ ۔ اندر داخل ہوتے ہی حنوط شدہ ہاتھی سے پالا پڑتا ہے۔ یہ ہندوستانی ہاتھی ہے۔ برطانیہ میں سرکس میں کام کرتا تھا اور پورے ملک کے طول و عرض میں کئی عشرے بچوں کی توجہ کا مرکز رہا۔ آخری عمر میں مست ہوگیا اور پاگل پن کے زیر اثر انسانوں کے لیے خطرہ بن گیا تو اسے گولیاں مار کر ختم کردیاگیا۔ اس ہاتھی کا نام '' سرراجردی ایلیفنٹ‘‘ ہے۔ پینٹنگ، مجسمے ، قدیم محظوطے، اسلحہ ، تلواریں ، حنوط شدہ جانور، زرہ بکتر کی بے شمار اقسام ، آثار قدیمہ کے نمونے ، مصر کے نوادرات اور مہدی سوڈانی کا پرچم۔ سارا عجائب گھر دیکھنے کے لیے گھنٹوں درکار ہیں۔ آدھے دن میں یہ میوزیم دیکھا اور آدھے دن میں میوزیم آف ٹرانسپورٹ دیکھا۔ دنیا کے قدیم ترین سائیکل سے لے کر دنیا کے پہلے ریلوے انجن تک سب کچھ اس عجائب گھر میں موجود ہے۔ پہلے یہ میوزیم بھی گلاسگو میوزیم کے پاس ہی تھا مگر اب دریائے کلائیڈ کے کنارے نئی عمارت میں منتقل ہوگیا ہے۔ اس میوزیم کو 2013ء میں پورے یورپ کا بہترین میوزیم قرار دیاگیا۔
اگلے روز ایڈنبرا روانہ ہوئے۔ ایڈنبرا سے چند میل پہلے میری نظر ایک سائن بورڈ پر پڑی۔ بائیں طرف کا اشارہ تھا۔ ''فورتھ ریل برج چار میل ‘‘۔ میں نے اشرف کو کہا کہ پل کی طرف چلتے ہیں۔ اشرف نے آدھے میل کے بعد گاڑی پل والی سڑک پر موڑلی۔ ابھی بائیں مڑے ہی تھے کہ دیکھا آگے ٹریفک پھنسی ہوئی ہے۔ پاکستان تو تھا نہیں کہ ریورس لگا لیتے۔ اب نہ آگے کے تھے اور نہ پیچھے کے ۔ چار میل کا یہ فاصلہ پورے تین گھنٹوں میں طے ہوا۔ ایک راستہ اشرف کے گھر سے بھی سیدھا اس پل کے ساتھ موجود فورتھ روڈ برج کے اوپر سے گزر کر آتا ہے۔ فورتھ ریل برج ایک عجوبہ ہے۔ سمندر سے آنے والی کھاڑی کے اوپر یہ پُل اڑھائی میل لمبا ہے اور اس کے دو لمبے ترین معلق حصوں میں ہر ایک کی لمبائی سترہ سو فٹ سے زائد ہے۔ 1890ء میں مکمل ہونے والا یہ پل 1917ء میں کیوبک برج کے مکمل ہونے تک اپنی تعمیراتی نوعیت کے حساب سے دنیا کا سب سے لمبا پل تھا۔ اب بھی یہ دنیا کا دوسرا لمبا ترین سنگل سپین کا حامل ہے۔ اس پل سے روزانہ تقریباً دو سو ریل گاڑیاں گزرتی ہیں۔ ان تین گھنٹوں کے دوران اشرف ، طارق اور رانا ظفر مسلسل میری مذمت کرتے رہے۔ اسے نیکی برباد اور گناہ لازم والا معاملہ کہا جاسکتا ہے۔ مجھے کیا علم تھا کہ سڑک پر مرمت ہورہی ہے۔ میں تو چاہتا تھا کہ لگے ہاتھوں دوست اس عجوبے کو دیکھ لیں جو وہاں سے محض چار میل کے فاصلے پر تھا۔ سارا مسئلہ پل پر تھا۔ ریل والے پل پر نہیں بلکہ موٹر گاڑیوں والے پل پر۔ دونوں طرف میلوں لمبی قطاریں تھیں۔ واپسی پر پل کے نیچے سے گزر کر واپس پلٹے اور چند منٹ میں چار میل کا واپسی کا راستہ طے کرکے پندرہ بیس منٹ میں ایڈنبرا پہنچ گئے۔ رات گئے واپسی تک میرا ریکارڈ لگتا رہا کہ میں نے پھنسوایا تھا۔ واپسی پر اشرف کے بہنوئی نے اشرف کی بات سن کر حیرانی سے پوچھا کہ اسے نہیں پتا کہ پچھلے ایک ڈیڑھ ماہ سے فورتھ روڈ برج کی مرمت ہورہی ہے اور لوگ مجبوری کے علاوہ ادھر جاتے ہی نہیں ہیں۔ اب اشرف کے شرمند ہونے کی باری تھی مگر اصل قصور وار کی صرف چند منٹ مذمت ہوئی جب کہ ایک سال بعد اس طرف آنے والے کو مشورے کے جرم میں گھنٹوں سخت سست سننی پڑی۔ دراصل ہمارا قومی مزاج ہی ایسا ہے کہ اصل مجرم صاف چھوٹ جاتا ہے اور کمزور خواہ وہ بے گناہ ہی کیوں نہ ہو پھنس جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ہمارے ہاں شریف آدمی نیکی بھی کرے تو پھنس جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں