"KMK" (space) message & send to 7575

نیویارک کے متوالے سے ایک بدمزہ گفتگو

دھرنے کی عملی ناکامی اور اس کے عمومی طریقہ کار سے اختلاف کے باوجود ایک حقیقت ہے کہ امریکہ میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ تو ہوا ہوگا کمی ہرگز نہیں ہوئی۔ میامی کے مشاعرے میں ایک شاعر نے ''گو نواز گو‘‘ کے نعرے پر مشتمل ایک طویل نظم سنائی۔ انتہائی بے وزن اور ''بے مضمون‘‘ ہونے کے باوجود لوگوں نے شاعر اور شاعری کو صرف نظم کے عنوان کے باعث برداشت کیا۔ یہ ''گو نواز گو‘‘ سے لوگوں کی محبت کے باعث ممکن ہو پایا۔ 
نیویارک کے مشاعرے میں کوٹ ادو سے تعلق رکھنے والے رانا سے ملاقات ہوئی۔ گزشتہ تھوڑے عرصے میں امریکہ میں میاں نوازشریف کے متوالوں میں خاصی کمی ہوئی ہے اور اچھے خاصے مستند متوالے بھی یا تو عمران خان کے سپورٹر بن گئے ہیں یا توبہ تائب ہو گئے ہیں۔ رانا پہلے بھی میاں صاحب کا متوالا تھا اور اب بھی اسی پیمانے کا متوالا ہے بلکہ جیسے جیسے عمران خان کی امریکہ میں حمایت میں اضافہ ہوا ہے‘ رانا اسی حساب سے زوردار متوالا بنتا گیا ہے۔ مشاعرے سے پہلے اِدھر اُدھر کی گفتگو ہوتی رہی جو بالآخر حسب معمول پاکستان کی سیاست پر آ گئی۔ پہلے رانا خود ہی کہتا رہا کہ ادبی گفتگو کرتے ہیں‘ سیاست میں کیا رکھا ہے؟ نِری بکواس ہے اور فضول ترین موضوع ہے‘ اس پر وقت ضائع کرنا نری حماقت ہے؛ تاہم تھوڑی دیر بعد ہی ازخود سیاست کے موضوع پر آ گیا۔ میں نے اسے یاد بھی دلایا کہ سیاست نری بکواس ہے اور فضول ترین موضوع ہے۔ اس پر وقت ضائع کرنا صرف حماقت ہی نہیں روئے ارض کی عظیم ترین حماقت ہے مگر رانا سیاسی گفتگو‘ بلکہ سیاسی جنگ و جدل پر تلا ہوا تھا اور جب کوئی نجیب الطرفین رانا کسی بات پر تلا ہو تو اسے روکنے کی کوشش کرنا سیاست پر گفتگو کرنے سے بھی کہیں بڑی حماقت ہے۔ لہٰذا سیاسی اکھاڑا کھل گیا اور اردگرد والے دوست بھی اس میں کود پڑے۔ 
مجھے رانا کے‘ سیاست پر گفتگو سے منع کرنے کے بعد‘ ازخود اصرار کرنے سے پیرس کا جاوید آ گیا۔ سات آٹھ سال پرانی بات ہے۔ میں پیرس میں قیصر کے ساتھ پیدل گھوم رہا تھا کہ اچانک قیصر میرا ہاتھ پکڑ کر ایک بیٹھک نما ریستوران میں داخل ہو گیا۔ پورا پاکستانی ماحول تھا اور ہر میز پر چائے اور سیاسی گفتگو چل رہی تھی۔ کائونٹر پر ایک خوش باش پاکستانی کھڑا تھا۔ کائونٹر کے ساتھ دیوار پر ایک سفید کاغذ چسپاں تھا اور اس پر کالے رنگ کے مارکر سے لکھا ہوا ''یہاں سیاسی گفتگو کرنا سخت منع ہے‘‘۔ سارے ریستوران میں سیاسی گفتگو کے علاوہ کم از کم میرے کان میں تو کوئی اور آواز نہیں آ رہی تھی۔ میں اور قیصر ایک میز پر بیٹھ گئے۔ مجھے دیکھتے ہی کائونٹر کے پیچھے کھڑا ہوا شخص لپک کر ہماری میز پر آیا اور مجھے بڑے تپاک سے ملا۔ یہ اس ریستوران کا مالک جاوید تھا۔ لاہوری پنجابی‘ کھلا ڈلا اور زبردستی فرینک ہو جانے والا جاوید۔ ساتھ والی کرسی پر بیٹھتے ہی اس نے میزوں کے درمیان گھومتے ہوئے ایک نوجوان کو اشارہ کیا اور کہا کہ دو چائے لے آئے۔ میں نے کہا کہ میں چائے نہیں پیتا۔ جاوید کہنے لگا مگر چائے کے بغیر سیاسی گفتگو کا مزہ ہی نہیں آئے گا۔ میں نے کہا‘ وہ سامنے والا بورڈ کس نے لگایا ہے کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا سخت منع ہے؟ جاوید کہنے لگا۔ لئو جی! یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ میں اس ہوٹل کا مالک ہوں۔ میں نے ہی لگایا ہے۔ میرے علاوہ اور کون لگا سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ اس بورڈ کے ہوتے ہوئے بھلا ہوٹل کے مالک 
سے‘ جس نے یہ بورڈ لگایا ہے سیاسی گفتگو کیسے ہو سکتی ہے؟ جاوید کہنے لگا۔ لئو جی! یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ سارے ہوٹل میں سیاسی گفتگو ہو رہی ہے‘ اس ٹیبل کا کیا قصور ہے؟ میں نے کہا کہ ہماری نوجوانی کے زمانے میں بسوں میں لکھا ہوتا تھا کہ دو میں سے ایک کام چھوڑ دے۔ ڈرائیوری یا غفلت۔ اب تم یوں کرو کہ دو میں ایک کام کرو یا یہ بورڈ اتار دو یا سیاسی گفتگو بند کردو۔ جاوید ہنسنے لگ گیا۔ پھر کہنے لگا۔ لئو جی! یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے؟ بورڈ تو صرف اور صرف اس لیے لگایا ہے کہ لوگوں کو اکسایا جائے اور سیاسی گفتگو پر آمادہ کیا جائے۔ یہ بورڈ کوئی روکنے کے لیے تھوڑا لگایا ہے یہ تو یاددہانی کے لیے لگایا ہے۔ اس کے بعد ایسا زوردار سیاسی دنگل ہوا کہ خدا کی پناہ۔ 
یہی حال نیویارک میں ہوا۔ رانا سے میچ پڑ گیا۔ متوالا رانا کہنے لگا: پاکستان کی تاریخ میں ایوب خان کے بعد جتنا ترقیاتی کام میاں نوازشریف کے زمانے میں ہوا ہے‘ اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ میں خاموش رہا۔ میں دراصل صرف شغل دیکھنے کا موڈ بنائے بیٹھا تھا اور براہ راست دنگے میں شامل ہونے کے بجائے محض تماشائی بننا چاہتا تھا مگر رانا نے باقاعدہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ آپ میری بات کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ میں تائو کھا گیا اور رانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔ میاں صاحب کے کس دور میں یہ محیرالعقول واقعہ پیش آیا تھا۔ پہلے‘ دوسرے یا اس والے تیسرے دور میں؟ رانا تھوڑا سٹپٹایا اور کہنے لگا‘ تینوں دور ملا کر۔ میں نے کہا‘ موٹروے کے علاوہ کوئی کارنامہ گنوائو؟ کہنے لگا‘ بے شمار‘ کوئی ایک ہو تو بتائوں۔ میں نے کہا‘ زیادہ نہیں صرف تین کارنامے گنوا دو۔ کہنے لگا‘ کوئی کام کرنے ہی نہیں دیا گیا۔ کبھی دو سال اور کبھی اڑھائی سال بعد فارغ کردیا گیا۔ اب صرف پندرہ ماہ بعد ہی سازشیں شروع ہو گئی ہیں‘ بھلا کام کیا کیا جا سکتا ہے؟ میں نے پوچھا پھر وہ دعویٰ کہ ایوب کے بعد میاں صاحب نے سب سے زیادہ ترقیاتی کام کروائے ہیں اور ملکی ترقی میں حصہ ڈالا ہے کہاں گیا؟ رانا کہنے لگا‘ جتنا وقت ملا ہے اس حساب سے بے تحاشا ترقی ہوئی ہے۔ میں نے کہا‘ رانا آپ کوٹ ادو سے ہیں‘ یعنی جنوبی پنجاب سے‘ وہاں کا سب سے بڑا شہر ملتان ہے‘ وہاں کیا ترقی کی ہے میاں صاحب نے؟ رانا کہنے لگا‘ آپ کو بتایا تو ہے کہ وقت ہی نہیں ملا۔ میں نے کہا‘ رانا اب وقت کی سنو‘ مرکز کو فی الحال بھول جائو‘ صرف پنجاب کی بات کرتے ہیں۔ پنجاب میں میاں صاحبان نے سترہ سال حکومت کی ہے۔ میاں نوازشریف نے بطور وزیراعلیٰ 1985ء سے 1990ء تک۔ پھر غلام حیدر وائیں نے 1990ء سے 1993ء تک۔ پھر 1997ء سے لے کر 1999ء تک اور 2008ء سے آج 2014ء تک میاں شہبازشریف نے کل سترہ سال حکومت کی۔ درمیان میں منظور وٹو‘ سردار عارف نکئی اور پرویز الٰہی وغیرہ نے بارہ سال حکومت کی۔ سترہ سال میں میاں صاحبان نے ملتان کے لیے کیا کیا؟ صرف پانچ سالوں میں پرویزالٰہی نے ملتان میں کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ بنایا‘ برن سنٹر بنایا‘ ڈینٹل کالج بنایا‘ چلڈرن کمپلیکس بنایا‘ انڈسٹریل اسٹیٹ کا فیز II بنایا‘ جوڈیشل کمپلیکس کا منصوبہ شروع کیا‘ صوبے میں 1122 بنایا‘ 15 بنایا‘ ہائی وے پٹرولنگ شروع کروائی‘ سٹی ٹریفک پولیس بنائی۔ صرف پانچ سال میں۔ انہوں نے سترہ سال میں کیا کیا؟ ملتان کا شیش محل کلب اور پولیس کلب گرا کر وہاں کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ کو وسعت دینی تھی۔ پانچ سال ہو گئے ہیں نہ دونوں کلب رہے اور نہ ہی کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں وسعت ہوئی۔ وہاں ایک میدان ہے جہاں سامنے والے چار ستارہ ہوٹل کی گاڑیاں پارک ہوتی ہیں۔ یوسف رضا گیلانی نے بھلے پیسے بنائے‘ کمیشن کھایا مگر ملتان میں سڑکیں بنائیں‘ شہر کھلا کیا‘ فلائی اوور بنائے‘ سترہ سال میں میاں صاحبان نے جنوبی پنجاب کے لیے‘ ملتان کے لیے کیا کیا ہے؟ شیرہ شاہ سوری نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں وہ کچھ کیا جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں سترہ سال ملے اور کام دھیلے کا نہیں ہوا۔ رانا نے ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے پوچھا کہ کیا میاں صاحبان نے کچھ بھی ٹھیک نہیں کیا؟ ساتھ بیٹھا ہوا ایک ستم ظریف کہنے لگا‘ نہیں کچھ بھی ٹھیک سے نہیں کیا‘ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں کیا‘ حتیٰ کہ بال بھی طریقے سے نہیں لگوائے‘ بڑے بھائی نے کالے بال لگوا لیے ہیں اور چھوٹے نے سفید۔ کم از کم یہ کام تو ڈھنگ سے کیا جا سکتا تھا مگر اس ایک کام میں بھی دو غلطیاں کیں۔ سٹیج سے مشاعرے کے شروع ہونے کا اعلان ہوا۔ رانا کہنے لگا بدمزہ گفتگو بند کرو‘ میری جان چھوڑو مشاعرہ پڑھو۔ میں نے کہا‘ رانا صاحب کوئی اور حکم ہو تو بتائو۔ آج ہم صرف تعمیل کریں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں