"KMK" (space) message & send to 7575

فرق حکمرانوں کی نیت میں ہے

امریکہ میں نہ تو سب اچھا ہے اور نہ ہی سب کچھ خراب۔ امریکی ترقی صرف اور صرف خرابیوں کے زور پر نہیں چل رہی۔ موجودہ صورتحال میں امریکی زوال کی پیشین گوئی کرنے والوں کے لیے بہرحال کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ فی الوقت ایسی کوئی بات نظر نہیں آ رہی جو امریکہ کے فوری زوال کی نشاندہی کرتی ہو۔ معیشت میں اگر خرابی ہے تو وہ عالمی سطح پر ہے۔ دو چار ملکوں کو چھوڑ کر امریکی معیشت میں گراوٹ کی شرح نسبتاً کم ہے۔ لیکن اس میں بھی سرمایہ دارانہ نظام نے اپنا راستہ نکال لیا ہے۔ امریکی سرمائے سے جہاں چین جیسی صنعتی طاقت فائدہ اٹھا رہی ہے وہیں امریکہ‘ چین کی سستی افرادی قوت سے کام لے کر اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ایک معروف موبائل فون کمپنی کا سارا کام چین میں ہو رہا ہے اور اس کی قیمت ڈالروں میں امریکہ کو مل رہی ہے۔ اگر یہی فون چین کے نام سے مارکیٹ میں آئے تو اس کی قیمت دو سو ڈالر بھی نہ ہو مگر امریکی برانڈ کے نام سے مارکیٹ میں اسی فون کی قیمت آٹھ سو ڈالر سے زائد ہے۔ مزدوری چین کی‘ نفع امریکہ کا۔ یہی حال دیگر چیزوں کا ہے۔ فی الوقت امریکہ دنیا بھر کا تیل استعمال کر رہا ہے۔ عراق سے سستا تیل‘ کویت سے درآمد شدہ تیل اور جنوبی امریکہ کا تیل۔ امریکی معیشت میں امریکہ کا اپنا تیل بھی استعمال ہو رہا ہے مگر اُس کے تیل کے ذخائر کا بیشتر حصہ ابھی غیر استعمال شدہ پڑا ہے۔ اوکلاہاما میں تیل ہے۔ کیلی فورنیا سے کافی عرصے سے تیل نکل رہا ہے۔ ٹیکساس تیل سے بھرا پڑا ہے اور الاسکا کا تیل بھی ابھی زمین میں محفوظ ہے۔ ابھی امریکہ دوسروں کے تیل سے کام چلا رہا ہے۔ جب باقی دنیا تیل کی کمی کا شکار ہوگی تب امریکی اپنا تیل نکالیں گے اور خود استعمال کریں گے‘ باقی دنیا امریکیوں کا منہ دیکھے گی (یہ امریکی پلاننگ ہے‘ غیب میں کیا ہے؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے)۔ 
امریکہ دھونس دھاندلی سے پوری دنیا پر پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ امریکہ میں ایک وسیع نظام اس امریکی استعمار کی نگرانی بھی کر رہا ہے اور اس کی پلاننگ بھی۔ حکومتوں کی تبدیلی کا اس سارے سسٹم پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی آئے کوئی جائے۔ یہ طے شدہ نظام انیس بیس کے فرق سے رواں رہتا ہے۔ چاہے بش ہو چاہے اوباما۔ چاہے کلنٹن ہو‘ چاہے ریگن۔ امریکہ کے بارے میں امریکی پالیسیاں بالکل مختلف ہیں اور باقی دنیا کے بارے میں بالکل مختلف۔ امریکیوں کے لیے انسانی حقوق کا معیار اور ہے باقی دنیا کے لیے انسانی حقوق کا معیار بالکل ہی دوسرا ہے۔ امریکیوں کی زندگی کی قیمت اور ہے جبکہ افغانیوں‘ عراقیوں اور دیگر اقوام کی قیمت اور ہے۔ مسلمانوں کی جان کی قیمت مختلف ہے اور غیر مسلموں کی جان کی قیمت مختلف۔ اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کی جان کی قیمت میں تو اتنا فرق ہے کہ مٹی اور سونے کی قیمتوں کے باہمی فرق سے بھی زیادہ۔ 
امریکی حکومتی مشینری اور تھنک ٹینک اپنا اپنا کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے عوام مزے میں ہیں۔ جمہوری دنیا کا سب سے طاقتور صدر صبح اٹھ کر پینٹاگون کی بریفنگ لیتا ہے۔ سی آئی اے کے چیف یا اس کے دفتر سے آئی رپورٹیں دیکھتا ہے۔ سی آئی اے چیف یا اس کے نمائندے کی بریفنگ لیتا ہے۔ مختلف سکیورٹی ایجنسیوں کے افسران سے ملتا ہے۔ وزارت دفاع کی بریفنگ لیتا ہے۔ وزارت خارجہ کی بریفنگ لیتا ہے۔ ہوم لینڈ سکیورٹی کے نمائندے کو سنتا ہے۔ وہاں کوئی بریکنگ نیوز نہیں چلتی۔ سی آئی چیف سے صدر کی ملاقات نہ تو کوئی خبر ہے اور نہ ہی کسی اچنبھے کی بات۔ نہ تو کوئی خبر بنتی ہے اور نہ ہی اس پر تبصرے ہوتے ہیں۔ یہ ایک روٹین کی بات ہے۔ پینٹاگون کی بریفنگ اور دفاعی نمائندوں سے ملاقاتیں‘ یہ سب سسٹم کا حصہ ہیں۔ روزمرہ کے معمولات ہیں۔ صدر امریکہ ہمارے حکمرانوں کی طرح ''عقل کل‘‘ کا مالک نہیں ہوتا۔ ملک کا نظام اور پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے بھی ایک پورا نظام ہے جو صدر کو ہر بات سے آگاہ رکھتا اور مشورے دیتا ہے۔ امریکی صدر تمام تر آئینی اختیارات رکھنے کے باوجود بہرحال اپنے انہی اداروں پر بھروسہ کرتا ہے جنہیں یہ کام سونپا گیا ہے۔ بظاہر طاقتور کہلانے والا صدر اکثر فیصلے خود کرتا نظر آتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ وہی کچھ کرتا ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں‘ کان‘ زبان حتیٰ کہ دماغ تک پینٹاگون‘ سی آئی اے‘ ایف بی آئی‘ وزارت خارجہ‘ داخلہ اور دفاع وغیرہ ہی ہیں۔ وہاں صدر کی خفیہ اداروں کے سربراہوں سے ملاقات نہ تو کوئی بریکنگ نیوز ہے اور نہ ہی کوئی مشکوک بات۔ یہ صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہمارے ہاں آج تک کوئی میکنزم ہی نہیں بنایا گیا۔ وزیراعظم کی آرمی چیف سے ملاقات ایک خبر ہے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقات بریکنگ نیوز ہے۔ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کی بریفنگ وقت کا ضیاع ہے اور ہمارے حکمران اس پر اپنا وقت ہی ضائع نہیں کرتے۔ 
ہمارا ایک دوست ایک وزیراعظم کے ساتھ غیر ملکی دورے پر گیا واپسی پر اس نے جو قصے سنائے‘ سن کر رونے کو دل چاہتا تھا۔ وزیراعظم کو اپنے سوٹ کی فکر تھی۔ اپنی انگریزی پر ناز تھا اور سابقہ دورے میں اپنی کارکردگی کی ڈینگیں مارنے سے فرصت نہیں مل رہی تھی جو بقول اسی دوست کے نہایت ناکام دورہ تھا اور اس وزیراعظم کی کارکردگی کے لیے دوست نے جو لفظ استعمال کیا وہ چونکہ کچھ زیادہ پارلیمانی نہیں لہٰذا میں وہ لفظ استعمال نہیں کر رہا۔ 
ساری امریکی پالیسیاں صرف اور صرف امریکہ کو مرکز مان کر بنائی جاتی ہیں۔ پوری دنیا عموماً اور ہم جیسے تیسری دنیا کے متاثرین ملک ان پالیسیوں کے باعث امریکی جبر و قہر کا شکار ہیں اور ہمہ وقت اس پر تبرا کرتے ہیں۔ لیکن یہ ساری پالیسیاں امریکیوں کے مفاد اور تحفظ کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہیں۔ امریکی حکومت کے نزدیک ساری خدائی ایک طرف ایک امریکی ایک طرف۔ یہی حال امریکہ کے اندر حکومتی نمائندوں کا ہے۔ اگر آپ ڈاکیے کو تھپڑ مار دیں تو کوئی عدالت آپ کی ضمانت نہیں لیتی اور کئی سال کی سزا معمولی بات ہے۔ کسی سکیورٹی ادارے کا کوئی اہلکار قتل ہو جائے تو ساری حکومت ہاتھ دھو کر قاتل کے پیچھے لگ جاتی ہے اور جب تک اس کا قاتل تلاش کر کے قانون کے کٹہرے میں نہ لا کھڑا کرے چین نہیں آتا۔ ہمارے ہاں جان ویسے ہی کافی سستی ہے اور سرکاری ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے جان بحق ہونے والوں کی تو خیر جان اتنی ارزاں ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ کراچی میں آپریشن کرنے والے کئی پولیس اہلکار ایک ایک کر کے قتل ہوئے۔ نہ کسی کا قاتل پکڑا گیا اور نہ کسی کو سزا ہوئی۔ ایک صحافی کے قتل کیس کے گواہ سرکاری اہلکار قتل ہو گئے کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ لیاری آپریشن کے دوران درجن بھر پولیس افسران اور اہلکار جاں بحق ہوئے۔ کسی کے خون ناحق کا کوئی پرسان حال نہ ہوا۔ ساری دنیا کے لیے شیطان امریکہ اپنے شہریوں کے لیے فرشتہ ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے کوئی راشی اور لٹیرا افسر سارا دن دفتر میں سائلوں سے لوٹ مار کرنے کے بعد رات گھر آئے اور ساری رقم گھر والوں کی جھولی میں ڈال دے۔ 
کاش ہمارے حکمران بھی پاکستان اور عوام سے اتنے ہی مخلص ہوں جتنے امریکی حکمران امریکہ اور امریکیوں کے لیے ہیں۔ ہم امریکی پالیسیوں کو اپنے تناظر میں دیکھتے ہیں اور امریکہ کو گالیاں دیتے ہیں لیکن اگر ہم امریکی پالیسیوں کو امریکیوں کے تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلے کہ حکمران اپنے ملک اور عوام سے کس قدر مخلص ہیں۔ کاش ہمارے حکمران امریکی امداد کے بجائے امریکی ذہنیت مستعار لیتے۔ کاش ہمارے حکمران امریکی ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے پاکستان کے بارے میں بھی اسی طرح سوچتے جس طرح امریکی حکمران سوچتے ہیں تو ملک کا نقشہ بدل گیا ہوتا۔ ہمارے ہاں وسائل کی نہیں نیک نیتی کی کمی ہے۔ عوام اور ملک کی بہتری نہیں صرف ذاتی بہتری ہی اولین مقصود ہے۔ ہمارے حکمران اس مقصد میں سو فیصد کامیاب ہیں۔ امریکی حکمران ساری دنیا کے لیے قابل نفرت ہو سکتے ہیں مگر اپنے ملک اور عوام کے لیے فرشتہ ہیں جبکہ ہمارے حکمران ساری دنیا کے لیے قابل قبول ہو سکتے ہیں مگر اپنے ملک اور عوام کے لیے کبھی بھی کسی عذاب سے کم نہیں رہے۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں