"KMK" (space) message & send to 7575

خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں

پورا ملک ہی عجیب و غریب نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ انتہا پسندی اپنی تمام تر صورتوں میں کارفرما ہے۔ ایک طرف انتہا پسند ہیں تو دوسری طرف بھی انتہا پسند۔ واپس پلٹنے والوں کو‘ رجوع کرنے والوں کو اور تصحیح کرنے والوں کو بھی کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ لبرل انتہا پسند واپس آنے والوں کو دوبارہ پرانے راستے پر دھکیلنا چاہتے ہیں۔ اپنی اصلاح کرنے والوں کو بھی کوئی معاف کرنے کو تیار نہیں۔ اور حکومت! حکومت کچھ کرنا نہیں چاہتی۔ ہاں اس سے کروا لیا جائے تو یہ اور بات ہے۔ مثلاً مجرموں کی پھانسی کا معاملہ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے یورپ کی خوشنودی کی خاطر پھانسیوں کا معاملہ لٹکایا مگر گزشتہ اٹھارہ مہینوں کے دوران میاں نوازشریف صاحب نے اس پر کیا پیش رفت کی؟ 2008ء سے یہ معاملہ لٹکا ہوا تھا۔ 
گزشتہ چھ سال سے یہ معاملہ لٹکا ہوا تھا۔ شہداء اور مقتولین کے وارث‘ گواہ‘ استغاثہ‘ تفتیشی ادارے اور سارے کا سارا نظامِ عدل‘ بربادی کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ سارے نظامِ عدل کا مورال تباہ ہو رہا تھا اور دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہو رہے تھے۔ اس صورتحال میں کوئی شخص رسک لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ گواہ گواہی پر تیار نہیں تھے اور تفتیشی ادارے دلجمعی سے تفتیش پر تیار نہیں تھے۔ استغاثہ‘ کیس تیار کرنے پر راضی نہیں تھا اور مقتولین کے ورثاء رنج و الم کا شکار تھے۔ جزا اور سزا کا سارا تصور تباہ ہو چکا تھا۔ ظالموں کے حوصلے مزید بلند ہو رہے تھے۔ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا دائرہ کار صرف اور صرف فوجی آپریشن تک محدود ہو چکا تھا اور ملک کا نظام عدل بے یقینی کی بند گلی میں کھڑا تھا اور دہشت گرد جیلوں کے اندر سے اپنا نظام چلانے کی طرف تیزی سے گامزن تھے۔ دہشت گردی کے خلاف ڈائریکٹ آپریشن کے علاوہ دیگر سارے راستے آہستہ آہستہ بند ہونے کی طرف جا رہے تھے۔ یہ صرف سول حکومت کی کمزوری کے باعث ہو رہا تھا۔ جب پہلی سزائوں پر عملدرآمد کا حوصلہ ختم ہو جائے تو آہستہ آہستہ سارے نظام عدل کی ہیئت بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ حالات اسی سمت جا رہے تھے جیسے دو تین عشرے قبل لاطینی امریکہ میں تھے‘ جہاں ڈرگ لارڈز نے سارا نظام عدل اور جیلوں کو اپنے کنٹرول میں کر لیا تھا۔ یہاں صورتحال شاید اتنی خراب نہیں تھی مگر اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ ابھی قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کے خلاف ہتھیار ڈالنے کے بجائے ہتھیار اٹھانے پر تیار بھی تھے اور یکسو بھی۔ البتہ سول حکمرانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ وہ گومگو کے عالم میں تھے۔ انفرادی طور پر اپنی ذاتی سلامتی کے خواہاں اور بطور حکمران تجارتی اور معاشی فوائد کے حصول کے آرزو مند۔ 
اس ساری کیفیت کو بالآخر ایک نہایت ہی المناک واقعے نے یکسر تبدیل کردیا۔ سانحہ پشاور۔ کسی نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ یہ پاکستان کا نائن الیون ہے۔ اس سانحے نے بہت کچھ تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے لوگوں کو بھی جو اب تک ہر بات کی تاویل بھی دیتے تھے اور جواز بھی تراشتے تھے۔ مگر اب صورتحال مختلف ہے۔ اب صاحبِ اولاد اور صاحبِ ایمان ایک صف میں کھڑے ہیں۔ لیکن یہاں عجب نفسیاتی مسئلہ ہے کہ اگر کسی لمحے‘ کسی سانحے کے طفیل ہی سہی‘ قوم کسی ایک چیز پر یکسو ہونے لگتی ہے تو درمیان میں کوئی ایسا شوشہ‘ کوئی ایسی ''شتونگڑی‘‘ چھوڑدی جاتی ہے کہ اتفاق رائے میں اختلافی بحث گھسیڑ دی جاتی ہے۔ جو لوگ کچھ عرصہ پہلے تک‘ طالبان کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے تھے‘ ان کی کارروائیوں کو کسی جواز کے پیش نظر درست یا کم از کم ''جوابی کارروائی‘‘ کا درجہ دے کر انہیں بری کرتے تھے‘ ان کے نظریات سے اتفاق کرتے تھے یا ان کے موقف کو جزوی ہی سہی مگر کسی حد تک ٹھیک سمجھتے تھے‘ آج بالکل مختلف زاویے پر سوچ رہے ہیں۔ آج وہ تبدیل شدہ نقطہ نظر کے قائل ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ان کے برسوں پرانے بیانات‘ سوچ اور خیالات کو وجہ تنقید بنا کر ان پر اعتراضات کی بارش کرنا ایک اور انتہا پسندی کی علامت ہے۔ اتفاق رائے اگر دیر سے بھی ہو‘ ہر صورت ایک خوش کن عمل ہے اور اسے ماضی کے حوالوں سے دوبارہ اس جانب نہیں دھکیلنا چاہیے جس سے ہم ایک بڑے سانحے کے باعث بمشکل نکلے۔ 
شاہ جی نے شک کا اظہار کیا ہے کہ پھانسیوں کا معاملہ بھی آخرکار سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو جائے گا اور یہ مسئلہ تھوڑے ہی عرصے بعد اختلافی ہو جائے گا۔ میں نے ان کے شک کی وجہ دریافت کی تو وہ کہنے لگے کہ جب پھانسیوں کے لیے صرف عدالتی حکم کے مطابق سزائے موت کے بجائے مختلف کیٹیگریز بنا دی جائیں اور مجرموں کو مختلف پیمانوں سے ناپا جائے تو سارا معاملہ خرابی کی طرف جانا شروع ہو جائے گا۔ اصولی طور پر پھانسیاں اسی ترتیب سے لگنی چاہئیں جس ترتیب سے ان قاتلوں اور دہشت گردوں کی آخری اپیلیں مسترد ہوئی ہیں۔ یہ جو پانچ سو 
سے زیادہ سزائے موت کے مجرم ہیں اور جن کی آخری اپیلیں یعنی رحم کی اپیلیں تک مسترد ہو چکی ہیں ان کو بلاامتیاز اور بلاتخصیص پھانسی دینی چاہیے۔ قاتل صرف اور صرف قاتل ہوتا ہے۔ خواہ وہ پرویز مشرف پر حملے کا مجرم ہو یا اللہ دتہ کا قاتل ہو۔ خواہ وہ جی ایچ کیو پر حملے کا مجرم ہو یا اللہ بخش کو قتل کرنے والا۔ خواہ وہ پریڈ گرائونڈ پر حملے کا سفاک مجرم ہو یا وہ لیاری کا ٹارگٹ کلر۔ پھانسیوں میں تخصیص اور امتیاز پہلے اس سارے عمل کی شفافیت پر سوال چھوڑے گا اور پھر اس سارے عمل کو سبوتاژ کردے گا۔ سب مقتولین کے ورثاء اپنے اپنے پیاروں کے قتل ناحق پر قاتلوں کی سزا کے منتظر ہیں۔ اگر یہ معاملہ بلاامتیاز چلے گا تو نہ صرف یہ کہ اس سے اس سارے عمل پر کوئی انگلی نہیں اٹھے گی بلکہ اس سارے سلسلے میں کہیں کوئی رکاوٹ بھی نہیں آئے گی مگر دوسری صورت میں شاید ایسا نہ ہو۔ اگر اس سارے معاملے میں ترجیحی اور تاخیری پالیسی بنائی گئی تو بے شمار قانونی رکاوٹیں اس سارے عمل کو سبوتاژ کر کے رکھ دیں گی۔ 
پشاور میں جو ہوا وہ بھولنے والا واقعہ نہیں مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر کمزور یادداشت کے حامل اور چار دن بعد کسی بھی واقعے کو بھول جانے پر قادر ہیں۔ ابھی یہ واقعہ تازہ ہے اور اسی دوران ہی اگر اپنی ترجیحات طے کر لی جائیں تو ممکن ہے ان پر عمل ہو جائے بصورت دیگر اگر وقت گزر گیا تو ہم پھر اسی پرانی روٹین کے مطابق ٹھنڈ پروگرام کے تحت زندگی گزارنے پر آ جائیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دہشت گردی اور ظلم و بربریت کو روکنے کی غرض سے نظام عدل کو اوور ہال کریں۔ انگریز کے سو سالہ پرانے قانون کو آج کے تناظر میں اپ ڈیٹ کریں۔ ہم یہاں وہی پرانا انگریز کا قانون چلا رہے ہیں جبکہ انگریز اس قانون کو کبھی کا فارغ کر چکا ہے۔ ہم ابھی تک وہی پرانا اور متروک نظام چلائے جا رہے ہیں جو آج کے تقاضوں سے نہ تو ہم آہنگ ہے اور نہ ہی اس کا حل۔ امریکہ کی آبادی چھتیس کروڑ سے زائد ہے اور وہاں سپریم کورٹ کے کل ججوں کی تعداد بشمول چیف جسٹس نو ہے اور وہاں زیر التوا کیسوں کی تعداد پاکستان سے شاید دسواں حصہ بھی نہیں۔ ادھر یہ عالم ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی تعداد سپریم کورٹ میں بشمول چیف جسٹس سولہ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چھ‘ لاہور ہائی کورٹ میں ستاون‘ سندھ ہائی کورٹ میں اکتیس‘ پشاور ہائی کورٹ میں انیس اور بلوچستان کے چھ جج ہیں۔ پاکستان میں وکلاء کی کل تعداد کا تو مجھے علم نہیں مگر صرف ملتان میں ڈسٹرکٹ بار کے ممبران کی تعداد چار ہزار سے زائد اور لاہور ہائی کورٹ ملتان بنچ کے ممبران کی تعداد آٹھ ہزار سے زائد ہے۔ اور عالم یہ ہے کہ لاکھوں سائلوں کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ سارا نظام عدل دھکا سٹارٹ گاڑی کی طرح صرف دھکے سے چل رہا ہے۔ لوگ انصاف کے انتظار میں قبروں میں چلے گئے ہیں مگر انصاف ہے کہ ملنے کا نام نہیں لے رہا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انصاف کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ عدل و انصاف کا جلد حصول بھی ممکن بنایا جائے کہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ انصاف میں تاخیر‘ انصاف نہ دینے کے مترادف ہے۔ قانون کو آسان اور سادہ بنایا جائے اور اس طرح کہ اپیل در اپیل کا سلسلہ ختم ہو اور انصاف ایسا سہل اور تیز رفتار ہو کہ قدم قدم پر حکم امتناعی کے سپیڈ بریکر نہ ہوں۔ کم از کم مجھے اپنی زندگی میں تو ایسا ہوتا نظر نہیں آتا مگر آواز اٹھانے اور خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں