"KMK" (space) message & send to 7575

انجمن امداد باہمی کے رنگ میں بھنگ

یہ عجیب اتفاق ہے کہ کالم کے حوالے سے اٹھائے گئے مسائل کے حل کیلئے اسلام آباد اور لاہور کے حکمرانوں کا ردعمل بالکل مختلف ہے ۔مرکزی اور صوبائی حکومت کا رویہ ایک دوسرے کے بالکل الٹ ہے ۔اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو کسی کالم کی‘کسی مسئلے کی‘کسی مشکل کے حل کی رتی برابر پروا نہیں ہوتی جبکہ اس کے مقابلے میں لاہوری حکمرانوں کا ردعمل کم از کم اسلام آباد کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔معاف کیجئے گا میں تھوڑا غلط لکھ گیا ہوں۔لاہوری حکمرانوں کا ردعمل اسلام آباد کے مقابلے میں مختلف تھا۔یعنی اب معاملہ تقریباً برابری پر جا رہا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ جب پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت تھی تب بھی اس کا رسپانس شوکت عزیز وغیرہ کی نسبت بہت ہی بہتر تھا۔یعنی تب بھی پنجاب حکومت تنقید پر‘تحریر پر یا نشاندہی پر کچھ نہ کچھ ردعمل کا بلکہ عملی طور پر کچھ کرنے کا ثبوت دیتی تھی ۔پھر میاں شہباز شریف آ گئے۔ان کا معاملہ اگر ایک طرف پرویز الٰہی سے نسبتاً بہتر تھا تو دوسری طرف سید یوسف رضا گیلانی کا معاملہ شوکت عزیز اینڈ کمپنی سے کہیں زیادہ خراب تھا۔گیلانی صاحب کی ترجیحات ہی بالکل مختلف تھیں۔وہ تنقید کو ہنس کر برداشت کرتے تھے اور بس۔ان کا معاملہ ''ٹھنڈ پروگرام‘‘ پر مبنی تھا۔آپ جو چاہیں لکھیں‘ کہیں ‘ سنائیں انہیں کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔سارا خاندان دیہاڑی دار مزدور کی طرح شبانہ روز''محنت‘‘ پر لگا ہوا تھا اور اس کے علاوہ انہیں نہ کسی چیز کی فکر تھی اور نہ پروا۔ اللہ انہیں خوش رکھے۔وہ سر نیچا کیے اپنے میں مشغول رہے اور اپنے معاملات کی حد تک خاصے کامیاب رہے۔
میاں شہباز شریف کا معاملہ کافی ہی نہیں بہت مختلف تھا۔میں ذاتی طور پر شاہد ہوں کہ کئی معاملات پر ان کا رسپانس توقع سے بھی زیادہ فوری تھا۔سوائے صوبہ جنوبی پنجاب کے‘باقی معاملات میں ان کی پھرتیاں قابل دید تھیں۔ان کے طریقہ ہائے حکمرانی سے ڈیڑھ سو اختلافات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ میاں شہباز شریف تک بات پہنچتی تو اس پر کچھ نہ کچھ ''ہل جل‘‘ ضرور ہوتی تھی۔میں ان کے طرز حکمرانی اور انتظامی امور کو حل کرنے کے لیے ان کے طریقہ کار سے کبھی متفق نہیں رہا مگر خواہ ''شارٹ ٹرم‘‘ ہی سہی مگر کچھ نہ کچھ دیکھنے میں ضرور آتا تھا مگر اب معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔اب پنجاب حکومت کی طرف سے بھی کسی تنقید‘تجویز ‘تحریر یا نشاندہی پر رسپانس کی نوعیت خاصی خراب ہے اور اس کی بنیادی وجہ شاید یہ ہے کہ اب پنجاب کے معاملات میاں شہباز شریف کے بجائے بچہ پارٹی کے ہاتھ میں آ گئے ہیں لہٰذا وہ پنجاب کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہیں جو بلاول پیپلز پارٹی کے ساتھ کر رہا ہے مگر یہ مثال شاید اس لیے کچھ زیادہ مناسب نہیں کہ پنجاب کا معاملہ صوبے کی اجتماعی صورتحال کا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کا معاملہ کسی سیاسی پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے اور فی الوقت اس کے متاثرین یا جیالے ہیں یا پھر خود چھوٹے بڑے زرداری صاحبان۔ پنجاب کے معاملے میں آٹھ کروڑ متاثرین ہیں۔آٹھ کروڑ عوام کو بہرحال بچہ پارٹی پر نہیں چھوڑا جا سکتا مگر یہی ہو رہا ہے۔
2010ء میں سیلاب آیا تو محکمہ آبپاشی کے بہت سے کمزور معاملات سامنے آئے۔ جسٹس منصور علی شاہ کمیشن کی سفارشات آئیں مگر عملی طور پر کوئی بہتری نہ آئی۔ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ سیلاب زدگان اور متاثرین کی بحالی‘ آباد کاری اور نقصانات کے ازالے کے لیے خاصی تگ و دو دیکھنے میں آئی؛ تاہم اس بار معاملات خاصے ناگفتہ بہ رہے ہیں۔ابھی تک سیلاب متاثرین مالی امداد کے لیے دھکے کھا رہے ہیں۔ملتان کی حد تک انتظامیہ اپنے تئیں بہترین کوشش کر رہی ہے مگر مالی معاملات کا بہائو اوپر سے نیچے آتا ہے اور یہ بہائو ہی خراب ہے۔محض دو سو گز چوڑا ہیڈ محمد والا روڈ کا شگاف تین ماہ بعد پر ہونا شروع ہوا ہے اور حسب توقع اسی طرح پر ہو رہا ہے جیسا کہ اس عاجز کو شک تھا۔
ملتان ایئر پورٹ پر ''خادم اعلیٰ‘‘ سے ملاقات ہوئی تو صرف اسی معاملے پر گفتگو ہوئی۔سیکرٹری آبپاشی پنجاب بھی وہیں موجود تھے اور وزیراعلیٰ نے انہیں بھی گفتگو میں شریک کرتے ہوئے بلکہ مخاطب کرتے کہا کہ وہ یہ باتیں نوٹ کریں۔ میری بنیادی تجویزیہ تھی کہ اس سڑک پر‘ جو ملتان سے مظفر گڑھ ‘لیہ‘ میانوالی‘ خوشاب ‘ بھکر ‘ ڈیرہ اسمٰعیل خان کے لیے تقریباً پچاس ساٹھ کلو میٹر شارٹ ہے‘ دریائے چناب کے پل سے پہلے ایک مستقل بریچنگ ایریا بنایا گیا ہے اور اس بار پہلی مرتبہ سڑک یہاں سے بارود کے ذریعے اڑا کر پانی کو گزارا گیا اور آئندہ بھی سیلاب کی صورت میں اسی جگہ سے یہ سڑک ڈائنامائٹ کے ذریعے اڑائی جایا کرے گی۔یہ جگہ دریا کی اصل گزرگاہ ہے اور پانی زیادہ ہونے کی صورت میں اسی طرف دبائو ڈالے گا۔یہاں ایک پل بنا دیا جائے جس میں دروازے لگا دیے جائیں اور سیلاب کی صورت میں سڑک کو اڑانے کے اور راستہ بند کرنے کے بجائے یہ دروازے کھول دیے جائیں۔ہاں اگر صورتحال بہت ہی غیر معمولی ہو جیسا کہ 2010ء میں سندھ میں پانی آیا تھا تو اور بات ہے وگرنہ اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کیا جا سکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے سیکرٹری آبپاشی کو کہا کہ وہ تجویز کی روشنی میں اس معاملے کو دیکھیں۔گزشتہ تین ماہ سے علاقے کے لوگ مسلسل ذلیل و خوار ہو رہے تھے اور یہ دو سو گز چوڑا شگاف راستے کی دیوار بناہوا تھا۔ لوگ کشتیوں کے ذریعے یہ جگہ طے کرتے تھے اب تین ماہ بعد مٹی ڈالنے کا عمل ہو گیا ہے۔ اگر اس شگاف کو مٹی ڈال کر ہی بند کرنا تھا تو یہ سادہ کام تین ماہ پہلے بھی شروع ہو سکتا تھا۔ملتان کے ایک بڑے انتظامی افسر سے چند روز پہلے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کام کے لیے رقم آ گئی ہے اور شگاف پُر کیا جا رہا ہے ۔میں نے پوچھا کہ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کیا کیا گیا ہے؟جواب ملا فی الحال تو اسی پرانے طریقے سے معاملہ چلے گا یعنی مٹی ڈال کر شگاف بند کریں گے ‘ اور سڑک بنائیں گے اور ٹریفک گزار دیں گے۔ میں نے پوچھا اگر آئندہ سیلاب آیا تو کیا کریں گے؟ جواب ملا اسی جگہ سے دوبارہ سڑک اڑا دیں گے اور پانی گزار دیں گے۔میں نے پوچھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ آئندہ بھی سیلاب کی صورت میں یہ جگہ کم از کم چار ماہ بند رہے گی۔ جواب ملا میں کیا کہہ سکتا ہوں؟۔
میں نے پوچھا اور وہ پل اور دروازوںوالی تجویزکا کیا بنا؟۔ جواب ملا کہ اس پر یہ جواب آیا ہے کہ اس جگہ پر متبادل انتظام کرنے کے لیے سٹڈی کی صورت میں تقریباً آٹھ ماہ درکار ہیں تاکہ اس معاملے پر کاغذی کارروائی کی جا سکے اور نقشے وغیرہ بنائے جا سکیں۔میں نے پوچھا کیا یہ پل بنانا ایٹم بم بنانے کے مترادف ہے یا یہ تھر کول والا معاملہ ہے؟ کیا یہ کوئی راکٹ سائنس ہے؟ یہ طے کر لیں کہ پل بنانا ہے اور اس کے بعد یہ بات سب کو پتہ ہے کہ پل کیسے بنتا ہے؟ یہ کوئی دنیا کا انوکھا یا عجوبہ پل تو بنانا نہیں کہ اس کے لیے ریسرچ ہو گی اور دنیا میں پہلی بار کسی نئے ڈیزائن کے پل کا نقشہ بنے گا۔سیدھا سا معاملہ ہے مگر اصل خرابی نیت کی ہے اور ہر بار سڑک اڑانے اور پھر بنانے میں جو کھانچہ فٹ ہو سکتا تھا وہ مستقل حل کی صورت میں فٹ نہیں ہو سکتا۔شنید ہے کہ سات کروڑ روپے سے یہ شگاف بند ہو گا جو اگلے سیلاب میں ''مجبوراً‘‘ دوبارہ توڑ دیا جائے گا۔ یہ ٹھیکیداروں اور آبپاشی کے افسران کے لیے ایک ویلفیئر پروجیکٹ ہے جو گزشتہ سڑسٹھ سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ ‘انجمن امدادباہمی کے روشن اصول کے تحت چل رہا ہے۔کسی کالم نگار کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ بھائی چارے کے اصول کے تحت چلنے والے منفعت بخش کاروبار کے رنگ میں بھنگ ڈالے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں