"KMK" (space) message & send to 7575

لاہور کا رکشہ ڈرائیور اور اٹھارہویں ترمیم

اب تو یہ عالم ہے کہ بہت سے معاملات پر لکھتے ہوئے باقاعدہ شرم آتی ہے‘ شرمندگی ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس موضوع پر مزید لکھنا محض ڈھٹائی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ دل میں خیال آتا ہے کہ اب مزید اس موضوع پر لکھنا وقت کا ضیاع کرنے اور اخبار کی جگہ برباد کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں؛ تاہم ایک خیال حوصلہ دیتا ہے کہ اس موضوع پر مزید لکھا جا سکتا ہے۔ وہ خیال ہے سرکار کی ڈھٹائی اور مستقل مزاجی کا۔ جب بھی کبھی کسی گھسے پٹے موضوع پر لکھنے کا ارادہ کرتے ہی دل میں گزشتہ لکھے گئے کالموں کی بے توقیری اور لاحاصلی کا خیال آیا تو اگلے ہی لمحے سرکار کی اس سے کہیں بڑھ کر جوابی ڈھٹائی‘ مستقل مزاجی اور ثابت قدمی نے ایک بار پھر لکھنے کا حوصلہ عطا کیا۔ خیال کیا کہ اگر اٹھارہ کروڑ کے نمائندگان پر مشتمل حکومت‘ عوامی مسائل سے آنکھیں چرانے کے سلسلے میں ڈھیٹ بن سکتی ہے تو آخر لکھاری حضرات عوامی بہبود اور بہتری کے لیے مستقل مزاجی سے کیوں دستبردار ہوں۔ اگر حکومت مسلسل کان لپیٹ سکتی ہے تو قلم بھلا کیوں مسلسل نہیں چل سکتا؟ بس یہی خیال حوصلہ دیتا ہے اور میں کاغذ قلم اٹھا لیتا ہوں۔ 
حکومت کا فریضہ کیا ہے؟ کیا حکومت کا فریضہ محض یہ ہے کہ عوام کے ٹیکسوں پر مزے کرے؟ حکمران عوام کی جیبوں سے نکالے گئے پیسوں پر غیر ملکی دورے کریں۔ اسمبلیوں میں وقت ضائع کریں۔ ہمہ وقت اپنے استحقاق کے چکر میں تحریکیں پیش کرتے رہیں۔ سارے سکیورٹی وسائل صرف اپنی سکیورٹی کے لیے مختص کر لیں۔ عوام کو خدا کے سہارے چھوڑ دیں۔ عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے ہمہ وقت وعدوں پر ٹرخائیں۔ وی آئی پی کلچر‘ بلیو پاسپورٹس اور پروٹوکول جن کا مطمحِ نظر ہو اور انہیں عوام کی جان‘ مال‘ عزت و آبرو‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ عدل و انصاف کی عدم فراہمی اور بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کی رتی برابر پروا نہ ہو۔ کیا حکومتوں کا یہی کام ہوتا ہے؟ جہاں تک اس عاجز نے دیکھا ہے ہمارے ہاں تو یہی حکومت ہے اور یہی حکومتی ذمہ داریاں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے یہ عاجز دنیا کے کچھ اور ممالک اور حکومتیں بھی دیکھ چکا ہے۔ اس بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہمارے ہاں کا سارا سسٹم حکومتی فرائض کے مطابق ہے تو دنیا کے دیگر ممالک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں اور اگر وہاں کا سسٹم حکومتیں چلا رہی ہیں تو پھر ہمارے ہاں حکومت نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ 
میں گزشتہ روز لاہور میں تھا۔ میاں صاحبان کی محبت کے مرکز میں۔ نزدیک ہی جانا تھا۔ عام حالات ہوتے تو میں پیدل چلا جاتا مگر وقت کم اور مقابلہ سخت والا معاملہ تھا۔ گنگارام ہسپتال کے قریب سے نیلا گنبد جانا تھا۔ رکشے والے سے کرایہ پوچھا‘ دو سو روپے سنائے گئے۔ یہ محض ڈیڑھ کلو میٹر فاصلہ تھا۔ گنگارام سے صفانوالہ چوک‘ اے جی آفس اور نیلا گنبد۔ رکشے والا تقریباً ایک سو تینتیس روپے فی کلو میٹر کے حساب سے کرایہ سنا رہا تھا۔ میں نے اتنی اونچی توقعات کے حامل سے بحث کو فضول جانا اور ساتھ کھڑے دوسرے رکشے کے ڈرائیور سے پوچھا‘ اس نے پہلے بے دھیانی میں ڈیڑھ سو کہا مگر پھر میرے ارادے کو بھانپتے ہوئے فوراً ہی سو روپے پر آ گیا۔ یہ سراسر لوٹ مار تھی مگر وہ اکیلا تو اس میں شریک نہیں تھا۔ حکمرانوں سے لے کر اس رکشہ ڈرائیور تک‘ سبھی اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے‘ بھلا کس کس سے جھگڑا ہو سکتا ہے۔ میں خاموشی سے رکشے میں بیٹھ گیا 
مگر یہ خاموشی یکطرفہ تھی۔ رکشہ چلتے ہی رکشہ ڈرائیور کی زبان چل پڑی۔ وہ مہنگائی‘ ایل پی جی کی قیمت‘ سی این جی کی چار ماہ کی بندش‘ مال روڈ پر پٹرول رکشے کے داخلے پر پابندی‘ ٹریفک پولیس کی لوٹ مار اور اسی قسم کے ان عوامی مسائل پر بول رہا تھا جن سے اُسے روز واسطہ پڑتا تھا۔ 
میں خاموش تھا۔ رکشے کی پھِٹ پھِٹ میں اس کی کچھ باتیں سنائی دیتی تھیں اور کچھ باتوں پر رکشے کا شور غالب آ جاتا تھا مگر مفہوم بہرحال پورا سمجھ آ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اسے راستے میں چند منٹ کے لیے ''نگارشات‘‘ پر روکوں۔ آصف صاحب سے سلام دُعا لوں‘ نئی کتابیں دیکھوں۔ اگر ہو تو معین نظامی کی کتاب ''طلسمات‘‘ کی دس بارہ جلدیں خریدوں اور انہیں برطانیہ اور امریکہ میں اپنے ادب دوست اور شاعر دوستوں کو بھجوائوں مگر عین اسی لمحے رکشے والا کہنے لگا۔ اسیں لاہوری پاگل دے پتر آں (ہم لاہوری پاگل کے بچے ہیں) ہر ویلے میاں میاں! کردے ساں (ہر وقت میاں! میاں! کرتے تھے) میاں صاحب... (اس کا کیا ترجمہ کیا جائے)۔ میں نے ممکنہ حد تک اس کی گفتگو کے آخری جملے کا مہذب ترجمہ کیا ہے‘ اصل لاہوری گفتگو بہرحال لکھی نہیں جا سکتی۔ وہ کہنے لگا بائو جی! اس ایل پی جی کو دیکھو۔ دو سو بیس روپے کلو مل رہی ہے۔ اس کا اصل ریٹ اس سے تقریباً آدھا ہے مگر چور بازاری ہو رہی ہے۔ سرعام گیس بلیک ہو رہی ہے۔ میاں شہبازشریف کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ غریب کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ گھر کا سلنڈر خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ رکشے میں ایل پی جی بھروا کر پیسے پورے نہیں ہوتے۔ سو سوا سو روپے کلو والی گیس دو سو بیس کی مل رہی ہے۔ کمپنیاں لوٹ مار کر رہی ہیں۔ عدالتیں‘ پولیس‘ ڈی سی او سب کو پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے مگر ہر کوئی خاموشی سے ہمیں یعنی غریب عوام کو لٹتا دیکھ رہے ہیں۔ کسی کو ہماری رتی برابر پروا نہیں۔ سب کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اسمبلی کے ممبروں کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اپنی جان کے علاوہ اور کسی کی پروا نہیں۔ مال بنانے کے علاوہ اور فرصت نہیں۔ گھر میں چولہا جلانا اور سڑک پر رکشہ چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ بائو جی! یہ حکومت کیا کر رہی ہے؟ حکومت کو عوام کی فکر کیوں نہیں؟ یہ ایل پی جی کا مسئلہ کنٹرول کرنا کس کا کام ہے؟ 
رکشے والے کی اس گفتگو کے دوران میں نگارشات رُکنا بھول گیا۔ معین نظامی کی کتاب بھی کہیں درمیان میں ہی رہ گئی۔ مجھے تھوڑا بہت یاد پڑتا تھا کہ ایل پی جی کے ریٹ واقعی اس سے بہت کم تھے جو رکشے والا بتا رہا تھا۔ کراچی میں یہ ریٹ تقریباً ایک سو پانچ چھ‘ لاہور میں ایک سو دس بارہ‘ کے پی کے میں ایک سو پندرہ اور شمالی علاقہ جات میں ایک سو بیس روپے کلو کے لگ بھگ تھے‘ یہ سرکاری کنٹرول ریٹ تھے۔ بارہ کلو کے لگ بھگ وزنی گھریلو سلنڈر کی قیمت لاہور میں تیرہ سو کے قریب بنتی ہے مگر ملتان وغیرہ میں دو ہزار سے زیادہ میں دستیاب ہے۔ ایل پی جی مافیا نے کوٹے الاٹ کروائے اور مسلسل نوٹ چھاپ رہا ہے۔ بڑے بڑے نام ہیں اور بڑے بڑے سیاستدان ہیں۔ ایک سے ایک ایماندار اور ایک سے ایک نیک نام۔ اوپر سے عالم یہ ہے کہ سب کو بڑی بڑی عدالتوں نے بریت کی چٹ عطا کردی۔ پرانے کوٹے اسی طرح چل رہے ہیں اور مرضی سے لوٹ مار ہو رہی ہے۔ کوئی نہیں جو پوچھے کہ کیا ہو رہا ہے۔ جب سردی گزر جائے گی‘ ضرورت کم ہو جائے گی۔ سپلائی زیادہ ہو جائے گی۔ قیمت کم ہو جائے گی تب بہت سوں کو ہوش آ جائے گا۔ قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی بنے گی۔ ممبران ٹی اے ڈی اے بل بنائیں گے۔ بڑی بحثیں ہوں گی۔ سفارشات مرتب ہوں گی اور آئندہ کے لیے اس کی روک تھام کی تجاویز دی جائیں گی جو اسمبلی کی فائلوں کے قبرستان میں دفن ہو جائیں گی۔ اگلے سال پھر اسی طرح لوٹ مار ہوگی۔ میں کسی رکشے پر بیٹھوں گا اور اسی کہانی کا اگلا پارٹ سنوں گا۔ گمان غالب ہے کہ اگلی بار میں یہ پارٹ ڈیڑھ سو روپے میں سنوں گا۔ مہنگائی کی رفتار کے حساب سے شاید اگلا پارٹ ڈیڑھ سو سے بھی مہنگا پڑے۔ 
نیلا گنبد پہنچ کر رکشے والے نے کرایہ لیتے ہوئے پوچھا۔ بائو جی! یہ سی این جی کہاں چلی گئی ہے؟ کراچی میں تو سنا ہے سی این جی سٹیشن کھلے ہوئے ہیں۔ وہاں تو ہفتے میں ایک دن بند ہوتے ہیں۔ یہاں پورے چار مہینے کے لیے بند کر دیئے گئے ہیں۔ میں نے کہا تم لوگ اٹھارہویں ترمیم کو دعائیں دو۔ کراچی کے سی این جی سٹیشن اسی ترمیم کی وجہ سے کھلے ہوئے ہیں اور اسی ترمیم نے تمہارے سی این جی سٹیشن بند کروائے ہیں؛ تاہم آپ لاہوریوں کو مبارک ہو کہ میاں صاحب بھی اسی اٹھارہویں ترمیم کے طفیل تیسری بار وزیراعظم بن گئے۔ رکشہ ڈرائیور نے گھور کے مجھے دیکھا۔ رکشے کو گیئر لگایا اور جاتے جاتے کہنے لگا۔ میاں صاحب! پھر سر کو جھٹک کر بولا۔ میرے کولوں ہن ہور سن دے او (اب مجھ سے کچھ اور سنتے ہو)۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں