"KMK" (space) message & send to 7575

عزت اور برابری کا سوال ہے بابا

کئی برس ہوئے بہاولپور اور رحیم یار خان میں ضلعی انتظامیہ کے زیرِ اہتمام مشاعروں کا اہتمام ہوا۔ بہاولپور کا ڈپٹی کمشنر ایک علم دوست شخص تھا اور خود بھی لکھنے لکھانے سے دلچسپی رکھتا تھا۔ ضلعی انتظامیہ کے زیراہتمام ہونے والے ان دونوں مشاعروں کو ایک عدد مشاعرہ لپیٹ دلوچہ گروپ نے تقریباً اغوا کر لیا۔ اغوا کرنے سے مراد ہے کہ انہوں نے اس کا انتظام و انصرام اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور سرکاری فنڈ سے اپنے دوستوں اور مربیوں کو نوازنے کے لیے عجیب و غریب ہتھکنڈے آزمانے شروع کر دیے۔ مشاعرے میں شاعروں کے لیے دو کیٹیگریز بنا دیں۔ ایک لوکل شعراء اور ایک مہمان شعراء کی کیٹیگری۔ لوکل سے مراد ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کے شعراء اور مہمان سے مراد لاہور اسلام آباد والے شعراء۔ اب ان دونوں کیٹیگریز کے لیے علیحدہ علیحدہ اعزازیے کا تعین کر دیا گیا۔ لاہور اور اسلام آباد والے شعراء کے لیے قطع نظر اس کی ادبی اور شاعرانہ حیثیت کے دس ہزار روپے اعزازیہ اور آمدورفت کا انتظام۔ اسلام آباد اور لاہور سے ملتان تک ہوائی جہاز کا ٹکٹ اور ملتان سے بہاولپور سرکاری گاڑیوں پر۔ ملتان والوں کے لیے علیحدہ پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ اعزازیہ تین ہزار روپے اور آمدورفت بذمہ شاعر۔ یعنی جیسے آنا چاہے خود اپنے خرچے پر آئے۔ مہمان شعراء والے اعزازیے اور آمدورفت کی سہولتوں سے لاہور کے نوآموز شعراء تک مستفید ہوئے اور مع خرچہ آمدورفت تین ہزار روپے کے فلیٹ ریٹ میں ملتان کے سینئر اور بزرگ شعراء لپیٹ دیے گئے۔ 
مجھے اس اعزازیے کا علم نہیں تھا۔ بھائو تائو میرا مزاج ہی نہیں۔ بہاولپور سے مشاعرے کا فون آیا۔ میں نے تاریخ دیکھی اور ہاں کردی۔ انہوں نے اعزازیے کا پوچھا‘ میں نے کہا جو باقی شاعر لیں گے وہی لیں گے۔ روایت یہی ہے کہ مشاعرے میں شعراء کا اعزازیہ برابر ہوتا ہے‘ ہاں سفر کا خرچہ اور آمدورفت کے معاملات ذرا مختلف ہیں۔ کرائے کی مد میں لاہور والوں کو لاہور سے آنے کا‘ اسلام آباد والوں کو اسلام آباد سے آنے کا اور ملتان والوں کو ملتان سے آنے کا خرچ ملنا چاہیے تھا؛ تاہم لاہور اور اسلام آباد والوں کو ملتان سے بہاولپور لے جاتے ہوئے ملتان والوں سے ناانصافی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ خیر بات ہو رہی تھی اعزازیے کی۔ میں نے کہا جو دیگر شعراء لیں گے اور منتظم نے ہاں کردی۔ ایسا ہی ایک فون رحیم یار خان سے آیا اور اسی طرح وہاں بات ہو گئی۔ میں مشاعرے والے دن اپنی گاڑی پر رحیم یار خان پہنچ گیا۔ پہلے مشاعرہ رحیم یار خان میں تھا اور اس کے بعد اگلے روز بہاولپور میں۔ جب میں رحیم یار خان کے فاران ہوٹل میں پہنچا تو پتہ چلا کہ یہاں شاعروں کی دو کیٹیگریز ہیں‘ تین ہزار روپے فلیٹ ریٹ والے اور دس ہزار جمع ہوائی ٹکٹ و انتظامِ سفر وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا کہ ہوائی ٹکٹ کی حد تک بات درست اور مناسب ہے کہ اسلام آباد والا سڑک پر رحیم یار خان پہنچتے پہنچتے نیم جان ہو چکا ہوگا۔ لاہور کا بھی معاملہ ایسا ہے مگر اعزازیے میں فرق کس لیے؟ اسلم انصاری لاہور کے ننانوے فیصد شعراء سے زیادہ سینئر‘ بہتر اور اعلیٰ شاعر ہیں۔ ان کو تین ہزار اور ان کے شاگردوں کے شاگرد شعراء کو دس ہزار روپے؟ میں نے مشاعرہ پڑھنے سے انکار کردیا۔ منتظمین سے میری یہ بات اس وقت ہوئی جب کھانا پلیٹوں میں ڈالا جا رہا تھا۔ میں نے پلیٹ میز پر رکھی اور واپس جا کر کمرے سے اپنا سامان اٹھا لیا۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ کھانا تو کھا لیا جائے‘ میں نے جواب دیا کہ یہ کھانا ان شاعروں کے لیے ہے جنہوں نے مشاعرہ پڑھنا ہے۔ جب میں نے مشاعرہ نہیں پڑھنا تو کھانا کیسے اور کس حساب میں کھایا جائے؟ میں سامان اٹھا کر اپنے مرحوم دوست عبدالمالک شاکر کے گھر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی رحیم یار خان کے ایس پی (غالباً ندیم بروکہ) نے مجھے تلاش کیا اور مشاعرہ پڑھنے کی درخواست کی‘ ساتھ ہی ہنس کر کہنے لگا کہ اگر آپ نہ آئے تو آپ کو بذریعہ پولیس اٹھوا لیا جائے گا۔ پھر کہنے لگے کہ جتنا اعزازیہ آپ کہیں گے آپ کو دیا جائے گا۔ میں نے کہا: بات مرضی کی نہیں اصول اور قاعدے کی ہے۔ سب شاعروں کا اعزازیہ برابر ہونا چاہیے‘ کمتر اور برتر کا تاثر نہ دیا جائے‘ خاص طور پر شہر کی بنیاد پر کمّی اور چودھری شاعروں کی تقسیم نہ کی جائے‘ لوگوں میں احساس کمتری اور ا حساس محرومی نہ پیدا کیا جائے‘ سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے بس یہی میرا مؤقف ہے اور یہی میرا سٹینڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعزازیہ برابر ہوگا۔ میں نے رحیم یار خان کا مشاعرہ پڑھا اور گھر آ گیا۔ بہاولپور میں دلوچہ پارٹی نے مشاعرہ دبوچا ہوا تھا‘ لہٰذا میں نے وہ مشاعرہ نہ پڑھا۔ ایک سال بعد یہی رویہ ڈیرہ غازیخان میں روا رکھا گیا۔ بہاولپور والے صاحب ڈیرہ غازیخان آ چکے تھے اور سابق طریق کار پر ہی چل رہے تھے۔ اس مشاعرے میں ملتان اور دیگر شہروں کے شاعروں کے درمیان مشاہرے کی تفریق پر پھر بدمزگی ہوگئی مگر بیوروکریسی کے دماغ سے اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب کے شعراء کے مابین برابری کا تصور نہ پہلے تھا نہ اب ہے۔ یہی حال صحافیوں والے معاملے میں ہے۔ 
مجھے لاہور‘ کراچی یا اسلام آباد کے صحافیوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ان سے تو کوئی اختلاف ہی نہیں کہ وہ اس معاملے میں نہ فریق ہیں نہ حریف۔ مسئلہ تو وہی حکمرانوں اور بیوروکریسی کا ہے جو تخت لاہور کے زیر سایہ جنوبی پنجاب کے ہر شخص سے مقدور بھر بُغض و عناد رکھتے ہیں ہے اور وقت آنے پر اپنے دوہرے معیاروں کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ بہاولپور میں سولر پارک کے افتتاح والے دن تو خیر پورے جنوبی پنجاب سے ایک بھی صحافی مدعو نہیں تھا۔ دو دن بعد مظفرگڑھ میں طیب اردوان ہسپتال کے افتتاح کے موقع پر ملتان کے صحافیوں کے ساتھ جو ہوا وہ ایک اور تازیانہ ہے۔ 
چھ مئی کو برادر عزیز کا فون آیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ ملتان سے تعلق چھوٹے بھائیوں جیسا ہے۔ کہنے لگا کہ کل آپ کو مظفرگڑھ میں طیب اردوان ہسپتال کی افتتاحی تقریب میں لے جانا ہے۔ میں نے کہا: تمہاری محبت کا شکریہ مگر ہمیں اپنی عزت بہرحال اس محبت سے زیادہ عزیز ہے۔ ہم بہت بڑے‘ اعلیٰ یا تگڑے صحافی نہ سہی مگر ''مُسلی‘‘ یا کمی بہرحال نہیں ہیں‘ اس لیے میری طرف سے معذرت۔ برادر عزیز میری طبیعت کو جانتا تھا۔ اس نے مزید بحث کر کے معاملے کو بدمزہ ہونے سے بچایا اور کہا کہ پھر بات ہوگی اور فون بند کردیا۔ اگلے روز ملتان سے دس بارہ صحافیوں کو ایک ''تھکڑ‘‘ سی بس پر مظفرگڑھ لے جایا گیا۔ یاد رہے کہ بہاولپور میں لاہور اور اسلام آباد سے آنے والے صحافیوں کو ایئرپورٹ سے سولر پارک لال سوہانرا لے جانے کے لیے سات ڈائیوو بسوں کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پانچ پر مہمان تھے اور دو عدد بطور سٹینڈ بائی ساتھ ساتھ خالی آئی تھیں۔ دوسری طرف لاہور سے سات آٹھ صحافیوں کو وزیراعلیٰ عرف خادم اعلیٰ اپنے ساتھ ہیلی کاپٹر پر لائے۔ 
ملتان والے صحافی حضرات لاہور والوں سے پہلے مظفرگڑھ پہنچ گئے۔ جب وہ پنڈال میں پہنچے تو پنڈال تقریباً بھر چکا تھا۔ صرف فرنٹ والی قطار میں آٹھ سیٹیں خالی تھیں۔ ملتان کے صحافی جب ان سیٹوں کی طرف بڑھے تو سکیورٹی والوں نے اپنی روایتی درشتی سے انہیں ان سیٹوں پر بیٹھنے سے روکا اور کہا کہ یہ لاہور والے صحافیوں کے لیے ہیں۔ حتیٰ کہ منتخب نمائندوں اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو ان سیٹوں پر بیٹھنے سے روک دیا گیا۔ ملتان سے مظفرگڑھ آنے والے صحافی جگہ کی تلاش میں اِدھر اُدھر متلاشی نظروں سے خالی کرسیوں کو دیکھتے رہے اور جہاں جگہ ملی بیٹھ گئے۔ کسی کو آخری قطار میں جگہ ملی اور کسی کو چھٹی قطار میں۔ کسی کو آٹھویں میں اور کسی کو آخری سے پہلی قطار میں۔ 
وزیراعلیٰ کی تقریر ختم ہونے سے دو تین منٹ پہلے لاہور کے صحافیوں کو اشارہ کیا گیا۔ وہ سٹیج کے پیچھے چلے گئے۔ وزیراعلیٰ تقریر ختم کر کے اسی طرف سدھار گئے۔ ان کے جاتے ہی سکیورٹی نے پیچھے جانے والا راستہ بند کردیا‘ حتیٰ کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ کو بھی ادھر داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ ملتان کے صحافیوں نے مظفرگڑھ کے الخیر ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا اور اپنی ''تھکڑ‘‘ سی بس پر سوار ہو کر ملتان آ گئے۔ تخت لاہور اور بیوروکریسی سے التماس ہے کہ ملتان کے صحافیوں کو بھلے چین‘ ترکی‘ سعودی عرب یا یورپ اپنے ساتھ نہ لے جائیں‘ لاہور نہ بلائیں‘ اسلام آباد مدعو نہ کریں مگر جنوبی پنجاب میں انہیں برابری اور عزت ہی دے دیں تو یہ محبت کرنے والے لوگ اسی میں خوش ہو جائیں گے۔ میں ایسے صحافیوں کو بھی جانتا ہوں جن کا نام اگر غیر ملکی دورے میں نہ ہو تو بھی وہ بیگ لے کر ایئرپورٹ آ جاتے ہیں اور دھکے سے سوار ہو جاتے ہیں۔ یہاں کوئی غیر ملکی دورے نہیں مانگتا۔ صرف عزت اور برابری مانگتا ہے۔ وہ بھی صرف اپنے علاقے میں۔ اپنے لیے اور اپنے لوگوں کے لیے۔ یہ سب کچھ ایک عرصے سے ہو رہا ہے اور اس کے ذمہ دار تخت لاہور اور لاہور میں بیٹھے ہوئے بابو ہیں؛ تاہم اس بار یہ ساری ذمہ داری ایک ایسے سرکاری افسر پر ہے جو بہت بڑی سیٹ پر بیٹھا جونیئر افسر ہے اور دوسرا ہمارا ایک پیارا دوست ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں