"KMK" (space) message & send to 7575

ترکی میں میرے اور میاں صاحبان کے معاملات کی یکسانیت

وہی پرانی کہانی اور وہی گھسا پٹا بہانہ۔ سفر مسلسل۔ ملتان سے اسلام آباد‘ اسلام آباد سے استنبول اور اب لندن میں ہوں۔ رات لندن پہنچا۔ صبح ہی صبح یہاں برطانیہ کے وقت کے مطابق ساڑھے آٹھ بجے ملک خالد کا فون آ گیا۔ اللہ خوش رکھے ملک خالد کو۔ یہاں آ کر بھی اس کی روٹین نہیں بدلی ۔ میری ملتان سے روانگی ہوئی تو ملک خالد کو استنبول آئے چار دن ہو گئے تھے ۔ میں استنبول پہنچا تو ملک خالد اس سے ایک روز پہلے لندن آ گیا اور اب میں لندن پہنچا ہوں تو یہاں بھی صبح کی مصروفیات کا آغاز ملک خالد کے فون سے ہوا ہے۔ اسے پتہ تھا کہ میں پاکستان سے گزشتہ ہفتے کا نکلا ہوا ہوں لہٰذا اس نے خلاف معمول پاکستان کی سیاست بارے کوئی بات نہ کی۔ ویسے بھی یہ طے ہے کہ اس کے پاس جانا ہے لہٰذا جو گھمسان کا رن پڑنا ہے وہ ابھی ایک آدھ دن کے لیے ملتوی کیا جا چکا ہے۔
ملتان سے چلتے وقت استنبول کا درجہ حرارت چیک کیا تو موسم خوشگوار تھا۔ استنبول اترے تو موسم مناسب تھا مگر دوپہر کو باہر نکلے تو گرم تھا۔ ہم ملتان والوں کا مقدر ہی خراب ہے۔ جہاں جاتے ہیں اپنا موسم ہمراہ لے جاتے ہیں۔ ہمیں اپنے موسم سے‘ اپنی گرمی سے اتنی محبت ہے کہ اگر موسم خوشگوار ہو جائے تو پریشانی سی لگ جاتی ہے۔ شفیق نے کیلیفورنیا جا کر لا س اینجلس میں ڈیرہ لگا لیا ہے۔ وجہ دریافت کی تو کہنے لگا یہاں بڑے مزے ہیں۔ موسم تقریباً ملتان جیسا ہے۔ سارا گھر سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ ہے۔ میں نے کہا کہ اگر ملتان کے موسم کے مزے لینے ہیں تو پھریہ کیا مصیبت ہے۔؟ سارا گھر ایئر کنڈیشنڈ کروا کر ڈرامہ کیوں کر رہے ہو۔ کہنے لگا: بچے یہاں کی پیداوار ہیں‘ ملتان کی نہیں‘ وہ ملتان کے موسم کو کیا جانیں؟ کبھی پاکستان جائیں تو گرمی میں برا حال ہو جاتا ہے اوپر سے لوڈشیڈنگ ۔ پھر مجھے اپنے کمرے میں لے گیااور کہنے لگا: ساری عمر ملتان میں گزاری ہے‘ بھلا سردی سے ہمارے 
تعلقات کس طرح خوشگوار ہو سکتے ہیں؟ ایئر کنڈیشنڈ میں کہاں مزہ آ سکتا ہے؟ سارا گھر سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ ہے۔ درجہ حرارت خوشگوار سے بھی کہیں زیادہ ٹھنڈا ہے لیکن میرے کمرے میں ایک علیحدہ تھرموسٹیٹ (درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے والا) ہے۔ میرے کمرے کا درجہ حرارت سارے گھر سے مختلف ہے۔ سارے گھر میں درجہ حرارت اسّی درجے فارن ہائٹ ہے یعنی ستائیس سنٹی گریڈ ۔ آپ ملتان سے میری محبت کا اور کیا ثبوت چاہتے ہیں؟۔
استنبول میں درجہ حرارت ملتان جیسا تو خیر ہرگز نہیں تھا مگر ویسا بھی نہیں تھا جیسا امید باندھی تھی۔ میری بیٹی کہنے لگی ہمارے ساتھ تو وہی ہوا ہے جو سکردو میں ہوا تھا۔ ملتان سے میں اور میرے برادر نسبتی کی فیملی اسلام آباد آئی اور وہاں سے ہم بائیس گھنٹے کے سفر کے بعد استور پہنچے۔ دو دن وہاں رہے۔ ایک دن راما جھیل پر گزارا۔ تریشنگ گئے وہاں سے چلم چوکی اور پھر ڈیوسائی۔ گھنٹوں میں ڈیوسائی کا میدان عبور کیا۔ درمیان میں سوشر جھیل پر موسم اور منظر سے لطف اندوز ہوئے۔ ستپارہ جھیل سے ہوتے ہوئے سکردو پہنچے تو برا حال ہو گیا۔ تھکاوٹ سے نہیں بلکہ گرمی سے۔بچوں کا خیال تھا کہ سکردو میں اگر برف نہ بھی پڑ رہی ہوئی تو کم از کم ٹھنڈ ضرور ہوگی۔ گرم کپڑے ساتھ رکھے تھے۔ استور‘ راما اور ڈیوسائی تک معاملہ ان کی مرضی کے کسی حد تک مطابق رہا مگر سکردو میں باقاعدہ گرمی تھی۔ طویل سفر‘ جو علی الصبح شروع ہوا تھا اور بیشتر سڑک کچی ہونے کے باعث خاصا غیر آرام دہ بھی تھا ‘نے بچوں کو تھکا دیا اور اوپر سے سکردو پہنچتے ہی گرمی نے آ لیا۔ پسینے سے نچڑی ہوئی فاطمہ نے اپنی ماں سے پوچھا۔ ماما! ہم کہاں پہنچ گئے ہیں؟ خدیجہ کا بھی گرمی سے 
برا حال تھا۔ جل کر بولی ‘بیٹا ہم ملتان پہنچ گئے ہیں۔ وہ تو خیر ہوئی کہ بچے شنگریلا پہنچ کر خوش ہو گئے وگرنہ میرا اور کامران کا جینا حرام ہو جاتا۔
انعم کہنے لگی نیٹ پر چیک کیا تھا تو درجہ حرارت ٹھیک تھا اب کیا ہو گیا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میرے ساتھ اکثر یہی ہوا ہے کہ گرمی سے بچنے کے لیے کہیں گئے ۔ وہاں اچھی بھلی گرمی تھی۔ پتہ چلا کہ قریب پچاس سال بعد اتنی گرمی پڑی ہے۔ فرانس میں اس گرمی کی لہر سے تب تقریباً پانچ ہزار بزرگ اس دنیا سے اگلی دنیا نقل مکانی کر گئے تھے۔ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ گرمی تھی مگر جس گرمی کو چھوڑ کر آئے تھے اس کے مقابلے میں موسم خاصا خوشگوار تھا۔ سارا دن پیدل گھومتے تھے۔ صبح تقریباً دس بجے استنبول پہنچ گئے۔ سامان وصول کرنے‘ امیگریشن کے معاملا ت نبٹانے اور ہوٹل کی ٹیکسی والوں کو تلاش کرنے میں ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ تقریباً ایک گھنٹہ ہوٹل تک پہنچنے میں لگا۔ ہم ساڑھے بارہ بجے ہوٹل میں تھے۔ ہوٹل کی لوکیشن دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ دو چار ماہ پہلے طارق قریشی استنبول آیا تھا اور اس ہوٹل میں ٹھہرا تھا۔ اس سے پتہ لیا اور انٹرنیٹ پر جا کر بکنگ کر لی۔ سب کچھ دیکھے بغیر سنی سنائی پر تھا مگر شاندار نکلا۔ ہوٹل سلطان احمد مسجد سے اور آیا صوفیہ سے بمشکل تین منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ ہوٹل سے نکلے ۔بائیں طرف دوسری گلی میں داخل ہوئے ۔ وہاں سے سو قدم چل کر باہر پہنچے تو بائیں طرف مسجد سلطان احمد یعنی نیلی مسجد تھی اور دائیں ہاتھ سامنے آیا صوفیہ اور اس کے بالکل ساتھ والی سڑک پر سو گز آگے دائیں طرف توپ کالی محل اور عجائب گھر‘ جہاں حضرت محمد ﷺ کی تلواریں‘ چھڑی مبارک‘ حضرت دائود ؑ ‘ حضرت یوسف ؑ اور حضرت یحییٰؑ کی تلواریں‘ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ‘ حضرت عمر فاروق ؓ‘ حضرت عثمان غنی ؓ‘ حضرت علی المرتضیٰ ؓ ‘ حضرت عثمان ؓ ‘کا قرآن مجید جو وہ بوقت شہادت تلاوت فرما رہے تھے۔ حضوراکرم ﷺ کے موئے مبارک اور دیگر کئی مقدس اشیاء‘ خانہ کعبہ کی چابیاں‘ حجاز مقدس پر سلطنت عثمانیہ کی حکمرانی کے طفیل یہ ساری چیزیں محفوظ رہ گئیں اور آج ہم جیسے خوش قسمت ان چیزوں کو دیکھنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں وگرنہ کچھ بھی محفوظ نہ رہتا۔
دوپہر تقریباً ساڑھے بارہ بجے ہوٹل پہنچے‘۔کمرہ لیتے‘ سامان رکھتے اور منہ ہاتھ دھوتے ایک بج گیا۔ کھڑکی کھولی‘ سامنے باسفورس تھا ۔ اسد اور انعم سے پوچھا کہ اب سونا ہے اور اٹھ کر شہر جانا ہے یا ابھی چلنا ہے؟ دونوں بولے ابھی چلتے ہیں‘ لیکن شہر کے بجائے سمندر کی طرف چلتے ہیں۔ ہوٹل سے باسفورس بلکہ اگر بالکل درست جغرافیائی مقام کی بات کریں تو مرمرہ‘ ہوٹل سے بمشکل پانچ منٹ کے پیدل فاصلے پر تھا۔ ہم پانچ سات منٹ بعد مرمرہ پر تھے۔ یہ مرمرہ کا پرسکون کنارہ تھا مگر پھر بھی خاصی چہل پہل تھی۔ سمندر سے پکڑی ہوئی چھوٹی چھوٹی تلی ہوئی تازہ مچھلیوں کے برگر والے ٹھیلے پر خاصا رش تھا۔ ساتھ ہی تربوز کی دھڑا دھڑ فروخت جاری تھی۔ اتنے میں ایک ترک ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں مجھے باسفورس کی سیر پر روانہ ہونے والے کروز کے لیے پھنسانے کی تگ و دو میں لگ گیا۔ کہنے لگا کہ ڈیڑھ بجے فیری چلے گی اس پر سیر کے لیے چلیں۔ میں نے پوچھا کتنے میں چلو گے؟ کہنے لگا پچیس یورو فی سواری لگیں گے‘ ساتھ ہی ہاتھ میں پکڑا ہوا بروشر دکھا کر کہنے لگا کہ اس پر تیس یورو لکھے ہوئے ہیں مگر میں آپ سے پچیس یورو فی سواری یعنی کل پچھہتر یورو لوں گا۔ میں نے دیکھا دونوں بچے پتھروں سے نیچے جا کرسمندر میں پائوں ڈالے بیٹھے تھے۔ مجھے ان کی فکر لگ گئی۔ میں ادھر جانے لگا تو وہ بولا چلیں پچیس نہ سہی بیس یورو دے دیں۔ کل ساٹھ یورو۔ مجھے نیچے سمندر میں پائوں ڈالے بیٹھے دونوں بچوںکی فکر تھی۔ میں نے سنی ان سنی کر دی اور نیچے کی طرف جانے لگا۔ وہ کہنے لگا چلیں کل پچاس یورودے دیں ۔ تب تک میں نیچے جا چکا تھا۔ وہ مایوس ہو کر واپس چلا گیا۔ میں بچوں کو لے کر اوپر آیا تو سامنے گھاٹ پر ایک فیری آ کر لگ گئی۔ یہ وہی فیری تھی جس کے ٹکٹ وہ بیچ رہا تھا۔ سواریاں تھوڑی کم تھیں اوروہ مزید ڈسکائونٹ پر اتر آیا تھا۔ جب میں واپس آیا تو وہ پینتالیس یورو کی آفر لے کر آ گیا۔ میرا ارادہ تھا کہ کل باسفورس کے ٹورپر نکلیں لیکن پھر سوچا کہ کل کا کام آج ہی کر لیا جائے۔ تاہم میں پوری طرح یکسو بھی نہیں تھا اس لیے سوچا کہ اسے ایسا ریٹ دوں کہ اگر انکار کر دے تو جان چھوٹ جائے اور اگر ہاں کر دے تو مزے ہو جائیں۔ میں نے کہا تین لوگوں کے لیے تیس یورو قبول ہیں؟ اس نے ایک لمحہ سوچا پھر بولا چلیں تیس یورو ہی دے دیں۔ میں نے اسے تیس یورو پکڑائے اور فیری پر سوار ہو گئے۔
یہ تجربہ بڑاکام آیا۔ پتہ چل گیا کہ ترکی میں بھائو تائو کرنا فائدہ مند ہوتا ہے اور بھائو تائو کے بغیر کام نہیں چلے گا۔ اگلے چار دن اسی تجربے کے باعث بڑے اچھے گزرے اور تقریباً ہر کام آدھے پیسوں میں ہو گیا۔ پاکستانی حکومت کے یعنی میاں صاحبان کے معاملات بھی ترکی کے ساتھ بڑے اچھے جا رہے ہیں۔ مجھے گمان ہے کہ وہ بھی شاید اسی فارمولے کے تحت کام چلا رہے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں