"KMK" (space) message & send to 7575

یہاں خوش گمانی بھی ایک جرم ہے!

ہم استنبول کے جس علاقے میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ سلطان احمد اور ترک زبان میں سلطان احمت ہے۔ ترک ''د‘‘ کو ''ت‘‘ پڑھتے ہیں۔ انگریزی حرف ''C‘‘ کو ''ک‘‘ یا ''س‘‘ سے پڑھنے کے بجائے ''ج‘‘ کی آواز سے پڑھتے ہیں۔ ہم اپنے ہوٹل کا نام انٹرنیٹ پر Cem Sultan پڑھ کر اسے سم سلطان پکارتے رہے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ اس کا نام جم سلطان ہے۔ اسی طرح دیگر الفاظ کا حال ہے۔ عربی رسم الخط ختم ہو چکا ہے مگر تمام پرانی عمارتوں پر سب کچھ ابھی تک عربی میں جوں کا توں موجود ہے۔ اتاترک کے بعد ترکی کا رسم الخط انگریزی ہے لیکن انگریزی حروف کے ساتھ اوپر نیچے کافی سارے شوشے فالتو لگے ہوئے ہیں جو مختلف صوتی اظہار کے لیے ہیں۔ انگریزی حرف سی اور ایس کے نیچے مروڑی تو اس کثرت سے لگائی دیکھی کہ مزا آ گیا۔ ترک بنیادی طور پر ہنس مکھ‘ باتونی اور کافی حد تک لپاڑیے ہیں۔ خریدوفروخت میں بھائو تائو کے حوالے سے اپنے پٹھان بھائیوں جیسے ہیں۔ ایک تجربے کے بعد بھائو تائو کے معاملے میں میں نے فیصلہ کر لیا کہ ان کے ساتھ اسی طرح تکرار کرنی ہے جس طرح پٹھان پھیری والے سے کرنی ہے۔ 
بیس پچیس سال پرانی بات ہے‘ تب ہم عثمان آباد میں رہتے تھے۔ اتوار کا دن تھا۔ دروازہ بجا۔ گھنٹی موجود تھی مگر کسی نے آہنی گیٹ زور سے بجایا۔ اتوار کی وجہ سے تھوڑا تاخیر سے اٹھے تھے اور ابھی ناشتے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ دروازہ بج اٹھا۔ باہر جا کر دیکھا تو دو پٹھان کھڑے تھے۔ ایک نے کندھے پر قالین اٹھا رکھے تھے اور دوسرے نے ایک گٹھڑی کندھے سے لٹکائی ہوئی تھی اور دو بڑے ڈبے سر پر اٹھائے ہوئے تھے۔ کہنے لگے‘ صیب! قالین خریدے گا؟ میں نے کہا‘ خان صاحب مجھے قالین نہیں چاہیے۔ پھر کہنے لگا‘ پوڈ پیکٹری (فوڈ فیکٹری) لے گا؟ میں نے جواب دیا کہ گھر میں موجود ہے۔ پوچھنے لگا نیشنل کا اصلی جاپانی استری چاہیے؟ میں نے انکار میں سر ہلا دیا۔ اسی اثنا میں پیچھے میری اہلیہ آن کھڑی ہوئی اور کہنے لگی‘ یہ سرخ قالین اچھا ہے۔ لے لیتے ہیں۔ اتنا کہنے کی دیر تھی کہ خان چھوٹے دروازے سے اندر آ گیا اور سارا صحن عبور کر کے برآمدے میں آ کر اس نے دونوں قالین زمین پر رکھ دیے۔ مان نہ مان میں تیرا مہمان‘ والا معاملہ تھا۔ ابھی میں نے اپنا کوئی جواب یا ردعمل بھی نہیں دیا تھا اور پٹھان نے میری اہلیہ کی بات سنتے ہی اپنی دکان لگا لی۔ 
اسی دوران میری والدہ مرحومہ بھی دروازے کے پیچھے بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں‘ فرزانہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ قالین اچھا ہے‘ لے لو۔ اب تو خان بالکل ہی پکا ہو گیا اور کہنے لگا۔ صیب آٹھ ہزار روپے کا ایک قالین۔ تمہارے واسطے ہے۔ اس کا قیمت دس ہزار روپے سے زیادہ ہے مگر صبح صبح تم پہلا گاہک ہے۔ تمہارے واسطے خاص رعایت ہے اور آٹھ ہزار روپے کا ایک قالین۔ اگر دونوں خریدو تو سارا چودہ ہزار روپے کا۔ میری والدہ دروازے کے پیچھے سے کہنے لگیں۔ خالد اگر دونوں دس ہزار میں دے تو لے لو۔ میں نے کہا ماں جی! مروا نہ دیں۔ آپ بس چپ کر کے خریدو فروخت اور بھائو تائو دیکھیں۔ میں نے اول تو خریدنا ہی نہیں اور اگر خریدا تو فی قالین ہزار روپے سے ایک پیسہ زیادہ نہیں دوں گا۔ پٹھان نے جونہی میری بات سنی‘ قالین اٹھانے لگ گیا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں قالین لینے سے زیادہ پٹھان کو ٹرخانے کے موڈ میں تھا مگر میری والدہ اور اہلیہ دونوں ہی قالین کی خریداری کے بارے میں کافی سنجیدہ تھیں لیکن اب خاموش تماشائی بن گئی تھیں۔ 
پٹھان قالین اٹھا کر جانے لگا تو میری اہلیہ نے کچھ کہنے کا ارادہ کیا مگر میں نے اسے غیر محسوس انداز میں اشارہ کیا کہ وہ خاموش رہے۔ میں اندر کی طرف چل پڑا اور پٹھان باہر دروازے کی طرف۔ ابھی میں تین چار قدم ہی چلا تھا کہ پیچھے سے پٹھان کی آواز آئی۔ صیب! ابھی صبح صبح نہ کرنا اچھا نہیں۔ ٹھیک ٹھیک قیمت بتائو اور دونوں قالین لے لو۔ میں ایک قالین لینے پر راضی نہیں تھا وہ دونوں بیچنے پر آ گیا تھا۔ کہنے لگا اب میں اس کو کہاں اٹھا کر سارا دن پھروں گا؟ بس تم لے لو اور دونوں کا آٹھ ہزار دے دو۔ میں نے کہا خان! میں نے قالین نہیں لینا۔ یہ عورتیں تو ہر چیز خریدنے کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ ان کی بات کو چھوڑو۔ کہیں اور جا کر یہ قالین بیچو‘ میں تو ان کو خریدتا نہیں۔ خان کہنے لگا صیب! ناراضگی چھوڑو۔ صبح صبح کا ٹیم ہے۔ دونوں قالین پانچ ہزار روپے کا لے لو۔ بس اب پیسے نکالو۔ میں نے کہا‘ خان اپنا اور میرا دونوں کا وقت بچائو۔ سامان اٹھائو اور کہیں اور کوشش کرو‘ ادھر تو تمہارا قالین آج نہیں بکتا۔ خان کہنے لگا‘ اچھا چار ہزار روپے میں دونوں خریدے گا؟ میں نے نہایت مختصر جواب دیا۔ نہیں۔ میری والدہ اور اہلیہ دونوں قالین خریدنے کے لیے بے چین ہو رہی تھیں۔ میری والدہ نے اندر سے کچھ کہنے کی کوشش کی مگر میری اہلیہ نے ان کا ہاتھ دبا کر خاموش رہنے کا کہا۔ پٹھان نے پھر قالین اٹھا لیے اور جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ 
میں اب واپس جانے کے بجائے وہیں کھڑا رہا۔ پٹھان نے قالین اٹھائے اور پھر واپس زور سے دوبارہ فرش پر پھینک دیے اور کہنے لگا۔ ابی ام ان کو ایدر ای بیچے گا۔ میرے بولنے سے قبل ہی میری اہلیہ کہنے لگی‘ سولہ سو روپے کا ایک قالین دے دو۔ خان کہنے لگا دونوں خریدو گے تو فی قالین سولہ سو روپے کا دے گا۔ ابھی دونوں قالین بتیس سو روپے کا دے گا۔ میں نے خان کو بتیس سو روپے دیے اور دونوں قالین خرید لیے۔ ایک قالین میں نے اپنی ہمشیرہ کو دے دیا‘ ایک ابھی تک اوپر والے لائونج کے درمیان میں پڑا ہے۔ بعد میں میری والدہ اور اہلیہ کئی دن تک لطف لیتی رہیں کہ کیسی مزیدار خریداری تھی۔ میری والدہ کئی روز تک ہنستی رہیں کہ میں دونوں قالینوں کا دس ہزار روپے لگاتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ میں نے قیمت کافی کم بتائی ہے مگر یہ تو حساب ہی دوسرا نکلا۔ میری والدہ نے اس سے پہلے زندگی میں کسی پٹھان سے نہ تو بھائو تائو کیا تھا اور نہ ہی ہوتا دیکھا تھا۔ اس سے پہلے میری بیٹی چین گئی تو وہاں کے بازاروں میں بھی یہی حال تھا۔ آٹھ سو یوآن کا پرس اس نے ستر یوآن میں خریدا۔ اب ترکی میں بھی یہی حال تھا۔ 
گرینڈ بازار دیکھنے کی چیز ہے۔ ایک پرانے سے دروازے سے اندر داخل ہوں تو اندر رنگوں کا بازار سجا ہوا ہے۔ چھوٹی چھوٹی تنگ گلیاں اور پیچ در پیچ راستے۔ اندر ہی اندر ایک اور دنیا آباد ہے۔ سارا بازار چھتا ہوا ہے۔ کہیں کہیں سے کھلا۔ محراب در محراب ایک طویل سلسلہ ہے۔ ہینڈی کرافٹس کی ان گنت دکانیں۔ ترک سلطانوں کے چھوٹے چھوٹے مجسمے‘ اونٹ کی ہڈی سے بنی ہوئی چیزیں‘ مجسمے‘ سگار‘ ڈبیاں اور مختلف اشکال کے سر۔ پیتل کے ظروف‘ چراغ‘ سجاوٹی اشیاء اور زیور۔ گلدان‘ ٹائلیں اور موزائک۔ سب سے دلکش چیز آرائشی روشنیاں اور شینڈلرز۔ رنگ برنگے اور انتہائی خوبصورت۔ ایک جگہ ایک نہایت خوبصورت آٹھ گلوب نما معلق شیڈز پر مشتمل شینڈلر دیکھ کر میری بیٹی رک گئی۔ دکاندار پھرتی سے اٹھا اور اس سے پوچھنے لگا۔ کون سا پسند آیا؟ میری بیٹی نے فیروزی رنگ کے شینڈلر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا اس کی کیا قیمت ہے؟ وہ کہنے لگا چھ ہزار ترک لیرا۔ میری بیٹی نے میری طرف دیکھا اور پوچھنے لگی کہ کتنے پاکستانی روپے بنے؟ میں نے کہا تقریباً دو لاکھ تیس ہزار روپے۔ میری بیٹی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ کہنے لگی یہ تو بہت مہنگا ہے۔ دکاندار کو اردو تو سمجھ نہیں آ رہی تھی مگر اپنے تجربے سے ساری گفتگو کا مفہوم سمجھ رہا تھا۔ میری بیٹی سے کہنے لگا۔ پاکستانی ہو؟ میری بیٹی نے کہا‘ ہاں پاکستانی ہوں۔ دکاندار کہنے لگا‘ چلو تمہارے لیے چار ہزار لیرا یعنی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ روپے۔ میری بیٹی نے بات بناتے ہوئے کہا‘ ہم اسے ساتھ کیسے لے جا سکتے ہیں؟ ہم تو یہاں سے انگلینڈ جا رہے ہیں۔ دکاندار کہنے لگا: آپ پتہ بتائیں ہم وہاں بھیج دیں گے۔ میری بیٹی آگے جانے لگی تو وہ کہنے لگا۔ اچھا آپ بتائیں کیا دیں گی؟ اسد کہنے لگا۔ نہ بتانا۔ یہ اس پر راضی ہو گیا تو خریدنا پڑے گا۔ دکاندار نے ہنس کر اس کی طرف دیکھا اور انگریزی میں کہنے لگا۔ بچہ بڑا ہوشیار ہے۔ 
لاہور میٹرو کے معاملات‘ صفائی کے ٹھیکے اور دوسرے کاروبار‘ کس بھائو چل رہے ہیں؟ کوئی لگ بھگ کی سٹوری سناتا ہے تو کوئی حصہ داری کی۔ اصل حقیقت کیا ہے کسی کو پتہ نہیں۔ مجھے گمان ہے کہ معاملات صاف شفاف ہیں مگر میرے اس گمان پر شوکت گجر مجھے ایسے ایسے طعنے مارتا ہے کہ لکھے نہیں جا سکتے۔ بندہ کہاں جائے؟ حالات اتنے خراب ہیں کہ خوش گمانی بھی ایک جرم بن گئی ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں