"KMK" (space) message & send to 7575

پاکستان کا جمہوری نظام اور حالیہ انتخابات

عمران خان کے مطالبہ کردہ چار حلقوں میں سے تین حلقوں کا الیکشن کالعدم قرار پا چکا ہے۔ ان تین حلقوں میں سے ایک کا معرکہ اختتام پذیر بھی ہو چکا ہے۔ یہ حلقہ این اے 122 تھا۔ اس پر جتنے چاہیں خیالوں کے گھوڑے دوڑائے جائیں یا دلائل کا طومار باندھا جائے یہ بات طے ہے کہ مسلم لیگ یہ الیکشن گوکہ جیت گئی ہے مگر وہ جیت کر بھی ہاری ہے۔ پرویز رشید اور ان کی قبیل کے رضا کار وفادار جو چاہیں کہیں‘ انہیں کہنے سے کون روک سکتا ہے؟ اگر کوئی شخص یہ ماننے پر تیار نہ ہو کہ مسلم لیگ ن حلقہ این اے 122میں ''جیت کر ہاری ہے‘‘ تو پھر وہ یہ بات تسلیم کرے کہ مسلم لیگ ن حلقہ این اے 122 میں ''ہار کر جیتی ہے‘‘ ہار اس کی اخلاقی تھی اور جیت! اس کی جیت کا تعلق صرف الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن تک ہے‘ جس کے باعث سردار ایاز صادق دوبارہ اسمبلی پہنچ گئے ہیں اور دوبارہ سپیکر بھی بن جائیں گے مگر جیت محض اسمبلی پہنچنے کا نام نہیں۔ اقتدار کا سورج چاروں طرف چمکتا ہو، سرکاری و سائل کی تمام تر اقسام میسر ہوں‘ پٹوار سرکار ہاتھ باندھے کھڑی ہو، ضلعی انتظامیہ حکم کی غلام ہو۔ تحریص اور لالچ ہر گھر کے دروازے پر دستک دے رہی ہو‘ بھلا وہاں ضمنی انتخاب میں اڑھائی ہزار ووٹوں سے جیتنا بھی کوئی جیتنا ہے۔؟
مسلم لیگ ن الیکشن کے میکنیزم سے صرف آگاہ ہی نہیں‘ اس کے بہت سے مرکزی پرزوں کی موجد بھی ہے۔ یہ مرکزی پرزے وہ ہیں جو کارخانے سے آنے والی گاڑی میں تو نہیں لگے ہوتے مگر بعد ازاں گاڑی میں لگا کر اس کی کارکردگی کو دو چند کر دیا جاتا ہے۔ ایسی گاڑیاں ریلی وغیرہ میں بھگائی جائیں تو ان طفیلی پرزوں کے طفیل اچھی بھلی جینوئن گاڑیوں کو پیچھے چھوڑ جاتی ہیں۔ مجھے ایک بار اسی قسم کے طفیلی پرزوں میں سے ایک کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ ایک ڈیڑھ فٹ کی تار تھی جس کے دونوں طرف کلپ نما جمپر لگے ہوئے تھے اور درمیان میں ڈیڑھ دو انچ کا الیکٹرانک چپ لگا ہوا تھا۔ یہ سپیڈ بوسٹر ٹائپ چیز تھی۔ جب تک پورا انجن نہ کھولا جائے اس کو تلاش کرنا ناممکن تھا، مگر اس کے طفیل گاڑی کو دوسری عام ''شریفانہ گاڑیوں‘‘ پر ایسی فوقیت حاصل تھی جس کا بادی النظر میں اندازہ لگانا نا ممکن تھا۔ مسلم لیگ ن نے ان کالعدم کردہ تینوں حلقوں میں سے نسبتاً محفوظ حلقے میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور باقی والے دو حلقوں میں عدالت کی کرسی کے پیچھے پناہ لے لی۔ اب ایک معرکہ درپیش ہے۔
یہ نو اکتوبر کی بات ہے۔ حلقہ این اے 122 کے الیکشن میں دو دن باقی بچے تھے۔ میں اسلام آباد جا رہا تھا۔ راستے میں بھیرہ انٹرچینج پر رک گیا۔ عصر کا وقت نکل رہا تھا۔ میں سیدھا مسجد چلا گیا۔ مسجد کے دروازے پر برادرم حفیظ اللہ نیازی سے ملاقات ہوگئی۔ حفیظ اللہ نیازی پیدائشی طور پر سیاسی نابغہ ہے اور ''Inbuilt‘‘ سیاسی سوجھ بوجھ کا مالک ہے۔مجلسی آدمی ہے اور دوستوں کا وسیع حلقہ رکھتا ہے۔ ان میں ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔ ایک سے ایک مختلف اور جدا۔ وہاں بھی اس کے ساتھ چار پانچ لوگ تھے۔ ان میں سے میں کسی سے بھی واقف نہیں تھا۔ نماز کے بعد ہم چائے کافی پینے کے لیے بیٹھ گئے۔ دو دن بعد لاہور کا الیکشن تھا۔ بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ حفیظ اللہ خان نیازی موجود ہو، لاہور میں مسلم لیگ کے مقابلے پر عمران خان کا امیدوار موجود ہو، سیاست کی گفتگو چل رہی ہو اور لاہور کا حلقہ این اے 122 زیر بحث نہ آتا۔ بحث کا آغاز ہی وہیں سے ہوا۔ تھوڑی دیر بعد ہی گرما گرمی وہاں پہنچ گئی‘ جہاں جولائی میں ملتان کا درجۂ حرارت پہنچتا ہے۔
اسی دوران مجھے اندازہ ہو گیا کہ حفیظ اللہ کے ساتھ موجود لوگوں میں دو تین بڑے اونچی ٹائپ کے متوالے ہیں اور اوپر سے لاہوری بھی ہیں یعنی ایک پنجابی محاورے کے مطابق ''ایک تو سانپ، اوپر سے اڑنے والا‘‘۔ تھوڑی دیر میں معاملہ اندازوں سے آگے نکل کر باقاعدہ نتیجے پر پہنچ گیا، یعنی فریقین نے حلقہ این اے 122 کا نتیجہ سنانا شروع کر دیا کہ یہ نتیجہ ہو گا۔ انداز و بیان میں قطعیت آ گئی اور بات ''میرا خیال ہے‘‘ سے آگے چلی گئی۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ ایاز صادق پچاس ہزار ووٹ سے جیتے گا۔ میری رگ پھڑک اٹھی۔ میں نے کہا‘ آپ اس پر مجھ سے شرط لگاتے ہیں؟ وہ صاحب! جن سے میری کوئی گزشتہ ملاقات یا جان پہچان نہ تھی‘ تھوڑے سے متامل ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ وہ صاحب تھوڑا شش و پنج میں ہیں تو ان کو مزید تحریک دلانے کے لئے کہا‘ اس پر دس اور ایک کی شرط لگا لیتے ہیں۔ یعنی اگر ایاز صادق پچاس ہزار ووٹوں سے جیتے تو میں آپ کو لگائی گئی شرط کا دس گنا دوں گا اور اگر باہمی فرق پچاس ہزار سے کم ہوا تو آپ مجھے شرط کی اصل رقم ہی دیں گے۔ ان صاحب نے اتنی رجھانے والی آفر سنی تو فٹ راضی ہو گئے تا ہم تھوڑا محتاط رہتے ہوئے فوراً ہی پچاس کے بجائے چالیس ہزار پر آ گئے۔ میں نے کہا ‘یہ بھی قبول ہے۔ پھر میں نے حفیظ اللہ خان نیازی کو کہا کہ آپ ضامن ہیں‘ میں ان صاحب کو نہیں جانتا‘ آپ گارنٹی دیتے ہیں؟۔ حفیظ اللہ خان نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے لگا‘ میں ضامن ہوں۔ اتنی دیر میں قریب ہی بیٹھے ہوئے دوسرے صاحب شرط لگانے والے ان صاحب سے کہنے لگے‘ بٹ صاحب! آپ خوامخواہ صرف خالد صاحب کے اعتماد کی وجہ سے گھبرا گئے ہیں ورنہ پچاس ہزار بھی ٹھیک تھا۔ میں نے کہا‘ آپ پچاس ہزار پر لگا لیں۔ پچاس ہزار کی Slot خالی ہے۔ وہ صاحب خود بھی گھبرا گئے اور کہنے لگے‘ چلیں پینتالیس ہزار پر میں بھی شرط لگاتا ہوں۔ میں نے حفیظ اللہ خان کی طرف دیکھا۔ حفیظ خان دوبارہ ہنسا اور کہنے لگا‘ میں اس کا بھی ضامن ہوں۔ پھر حفیظ اللہ خان کہنے لگا‘ اب شرطیں تو لگ گئی ہیں‘ خالد آپ کا کیا خیال ہے کون جیتے گا۔ میں نے کہا‘ سردار ایاز صادق۔ حفیظ اللہ نے پھر پوچھا اور تمہارے حساب سے فرق کیا ہو گا؟ میں نے کہا آسمان ادھر سے ادھر ہو جائے فرق پانچ ہزار کے اندر اندر ہو گا۔ پانچ ہزار سے ایک ووٹ زیادہ نہیں ہو گا۔ یہ میں احتیاطاً کہہ رہا ہوں‘ وگرنہ فرق اڑھائی تین ہزار کا ہو گا۔
گیارہ اکتوبر کو رات میں نے حفیظ اللہ خان کو فون کر کے پوچھا کہ وہ شرط والے کہاں ہیں؟ حفیظ اللہ خان نے اپنے مخصوص انداز میں فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ اتنے زور سے کہ میرے کان جھنجھنا اٹھے۔ گمان ہے کہ اگر میں کوشش کرتا تو لاہور میں لگایا گیا یہ قہقہہ بغیر فون کے ملتان میں سنا جا سکتا تھا۔ کہنے لگا‘ دونوں کو قربان کے بکروں کی طرح باندھ کر پیش کرونگا اور شرط کی رقم وصول کر کے دوں گا۔ واضح رہے کہ شرط کی رقم دس روپے تھی۔ تہمینہ دولتانہ سے بھی اسی رقم کی شرط لگی تھی مگر کئی سال سے مسلسل یاد دہانیوں اور کوششوں کے باوجود ابھی تک وصولی نہیں ہو سکی۔ اس کے بعد میں نے سیاسی معاملات پر دس روپے سے زیادہ کی شرط لگانے سے ویسے ہی توبہ کر لی ہے۔ پھر حفیظ اللہ کہنے لگا‘ شرط جیتنے سے ہٹ کر تمہارا اندازہ حیران کن تھا۔ میں جزوی طور پر تو تم سے متفق تھا مگر اڑھائی تین ہزار والے فرق سے مجھے تھوڑا اختلاف تھا مگر تمہارا اندازہ اتنا درست نکلے گا؟ مجھے اس کاقطعاً یقین نہ تھا۔
ابھی میں امریکہ میں ہوں۔ مجھے پتا نہیں کہ حلقہ این اے 154 لودھراں میں الیکشن کی کیا تاریخ طے ہوتی ہے اور صورتحال کیا ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ الیکشن حلقہ این اے 122 سے زیادہ سخت ہو گا۔ سخت سے مراد زیادہ مسلم لیگ ن کے لیے اور پی ٹی آئی کے لیے بھی لیکن نسبتاً کم کم اس لیے کہ پی ٹی آئی اس حلقہ سے پہلے ہار چکی ہے اور جیتنے والا آزاد امیدوار صدیق خان بلوچ مسلم لیگ ن میں شامل ہو چکا ہے۔ اس لحاظ سے یہ سیٹ اب مسلم لیگ ن کی ہے۔ اس سیٹ پر زوردار الیکشن صرف متوقع ہی نہیں لازم ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے جہانگیر خان ترین امیدوار ہے۔ یہاں بھی گمان غالب ہے کہ الیکشن میں پندرہ لاکھ خرچ کرنے کی قانونی حد کے پہلے روز سے بھی کئی روز پہلے پرخچے اڑ جائیں گے اور الیکشن کمیشن منہ دیکھتا رہ جائے گا جیسا کہ حلقہ این اے 122 میں ہوا ہے۔
ستلج کے ساتھ کچے کا علاقہ چھوڑ کر جہاں صدیق بلوچ یعنی اس کے بیٹے عمیر بلوچ کو برتری حاصل ہے‘ لودھراں اور دنیاپور کی بیشتر یونین کونسلوں میں پی ٹی آئی کو برتری حاصل ہے۔ اب مقابلہ دیہاتی علاقوں کے ووٹوں پر آن پڑا ہے۔ اگر پی ٹی آئی دیہاتی حلقوں میں سے برابر ووٹ بھی لے لے یا برابر کے قریب آ جائے تو جہانگیر ترین کی جیت کے امکان روشن ہیں۔ پی ٹی آئی کی عوامی حمایت، نوجوانوں کا جذبہ اور سب سے بڑھ کر جہانگیر ترین کی دولت گزشتہ الیکشن کے نتائج کو بدل بھی سکتی ہے۔ جہانگیر ترین کے پاس اور کوئی خوبی ہو یا نہ ہو وہ پیسے کے زور پر الیکشن لڑنے کا خاصا تجربہ رکھتا ہے اور پاکستانی الیکشن میں اب پیسے کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان جیسے روز افزوں گراوٹ پر مائل معاشرے میں موجودہ پارلیمانی نظام ِجمہوریت کے ہوتے ہوئے اس میں کسی بہتری کے امکانات کم ہی نہیں بلکہ باقاعدہ معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔
جہانگیر ترین، علیم خان، اعظم سواتی وغیرہ تو محض علامتی کردار ہیں۔ اصل مسئلہ ہمارے جمہوری نظام اور سوشل فیبرک کا ہے جو مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے مگر ہم اس کو تبدیل کرنے کے بجائے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے دن گزار رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں