"KMK" (space) message & send to 7575

وسیب کے تاریخی اور ثقافتی ورثے کی بربادی

صحرا کی وسعت کا اندازہ گھر میں بیٹھ کر نہیں لگایا جا سکتا۔ اس وسعت کا اندازہ اور نظارہ صرف صحرا میں جا کر کیا جا سکتا ہے۔ تاحد نظر ریت‘ ٹیلے اور خودرو جھاڑ جھٹکار‘ دور دور تک ریت کا سمندر‘ چولستان بھی ایسا ہی منظر پیش کرتا ہے۔ یہ صحرا جسے روہی بھی کہا جاتا ہے شاعری میں جتنا خوبصورت اور دلکش نظر آتا ہے حقیقت میں اتنا ہی بے رحم اور بے درد ہے جیسا کہ ہر صحرا ہوتا ہے۔ اٹھائیس ہزار مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل یہ صحرا اپنے دامن میں ہزاروں برس پرانی تہذیب کے ساتھ ساتھ تاریخ کا بھی امین ہے۔ صحرائے چولستان میں کم از کم چارسو کے لگ بھگ آرکیالوجیکل اہمیت کی باقیات تھیں جو ماضی قریب میں ناقدری اور لاپروائی سے ریت میں مل کر ریت ہو چکی ہیں۔ چند آثار اگر باقی ہیں تو وہ اپنی سخت جانی اور مضبوطی کی وجہ سے ابھی تک کھڑے ہیں مگر کب تک؟ چند برس اور۔ اس کے بعد رہے سہے آثار بھی محض تاریخ بن کر رہ جائیں گے کہ حکومتی بے توجہی اور آثار قدیمہ کی حفاظت پر مامور اداروں کی لاپروائی اور نالائقی کے طفیل سب کچھ برباد ہوتا جا رہا ہے۔
صحرائے چولستان میں احمد پور شرقیہ سے قریب بیس پچیس کلومیٹر صحرا کی طرف سفر کریں تو دور سے ایک نہایت شاندار اور بلند و بالا فصیل کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ریت کے سمندر میں ایک جنگی بحری جہاز کی طرح نظر آنے والے یہ آثار قلعہ دراوڑ کے ہیں۔ چالیس برجوں پر مشتمل یہ چوکور قلعہ صدیوں سے صحرا کے درمیان اگر موجود ہے تو اس کی واحد وجہ اس کی مضبوطی اور بلندی ہے وگرنہ اب تک یہ ریت میں تبدیل ہو چکا ہوتا لیکن مسلسل عدم توجہی سے اب یہ آہستہ آہستہ ریت کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ مجھے دو بار یہ قلعہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے ۔پہلی بار سے دوسری بار کے دوران اس قلعہ کا حال اور خراب ہو چکا تھا۔ تیسری بار دیکھنے کا اتفاق ہوا تو خدا جانے اس کا کیا حال ہو چکا ہوگا۔
قلعہ دراوڑ کی تاریخ شاید کسی کو بھی معلوم نہیں۔ تاریخ دان اور محقق اس کے بارے میں مختلف آرا رکھتے ہیں مگر میرے خیال میں اس قلعے بارے یہ ساری تحقیق محض تاریخ کا پیٹ بھرنے کے مترادف ہے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ یہ قلعہ کم از کم پانچ ہزار سال پرانا ہے۔ اگر اس نظریے سے اتفاق نہ بھی کیا جائے تب بھی یہ بات تو طے ہے کہ قلعہ دراوڑ اس خطے کی زمین کے سینے پر موجود قدیم ترین قلعہ ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ قلعہ نویں صدی عیسوی میں رائے ججہ بھٹی نے جو راجپوتوں کی شاخ بھٹی کا سردار تھا‘ تعمیر کیا۔ راجستھان میں موجود راجپوت بھٹی قبیلے کے دیوراج نے نویں صدی عیسوی میں لودھرووا راجپوتوں سے لودراوا قبضہ چھین کر اپنا پایہ تخت بنایا اور جیسل میر سے پندرہ کلومیٹر شمال مغرب میں موجود یہ معروف تاریخی قصبہ 1156 عیسوی تک بھٹی قبیلے کا مرکز رہا تاوقتیکہ راول جیسل نے اپنایا یہ تخت جیسل میر کو بنا لیا۔ لودراوا شہر اس وقت کے مستعمل تجارتی روٹ پر واقع تھا اور صحرائے تھر کا نہایت اہم مقام تھا۔ اپنی تجارتی اور جغرافیائی اہمیت کے باعث لودراوا ہمیشہ حملہ آوروں کی زد میں رہا۔ محمود غزنوی نے بھی اس پر دو بار حملہ کیا۔ دوسرے حملے میں جو 1152میں ہوا شہر مکمل برباد ہو گیا ۔تب راول جیسل نے اپنے پایہ تخت کے لیے تری کوٹا پہاڑی پر نسبتاً محفوظ مقام پر جیسل میر نام سے شہر اور قلعہ تعمیر کروایا۔
اسی دوران صحرائے چولستان میں جو بھٹی سرداروں کے زیر قبضہ تھا حفاظتی نقطہ نظر سے کئی قلعے تعمیر کیے گئے۔ دراوڑ قلعہ راول دیوراج بھٹی کے نام سے مشہور ہوا اور اول اول یہ ڈیرہ راول کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ نام پہلے بگڑ کر دیرہ راور اور بعدازاں ڈیرہ وریا دراوڑ بن گیا۔ لکھنے میں اسے ڈیرہ ور اور مقامی طور پر پکارنے میں اس کا نام دراوڑ ہے۔ اس کے نام اور تاریخ بارے کئی مختلف آراء ہیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ یہ قلعہ دراصل ہزاروں سال پرانے قلعے کی بنیادوں پر کئی بار تعمیر کیا گیا۔ بہاولپور کے عباسیوں کے زیر قبضہ آنے سے قبل اسے بھاٹی یا بھاحیہ قوم کے سردار دیوراول نے تعمیر کیا جو بگڑ کر دراوڑ بن گیا تاہم ان تمام باتوں سے قطع نظر یہ بات طے ہے کہ یہ قلعہ قبل از ہڑپہ تاریخ سے دریائے ہاکڑہ کے کنارے کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔
جیسل میر کے حاکموں کو شکست دے کر 1733ء میں نواب محمد خان اول نے قلعہ دراوڑ پر قبضہ کر لیا اور اسے نئے سرے سے دوبارہ تعمیر کروایا۔ پندرہ سو کلومیٹر کی فصیل پر مشتمل چالیس برجوں والے پختہ اینٹوں کے اس قلعے کی دیواریں تیس سے بتیس میٹر بلند ہیں۔ یعنی قریب سو فٹ بلند‘ اس قلعے کو قریب جا کر دیکھیں تو ششدر رہ جائیں۔ گول گول ہیبت ناک برج جو سارا دن صحرا میں دھوپ کے ساتھ اپنا رنگ بدلتے ہیں۔ دیوار کے نیچے جائیں تو بالکل ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک بلندوبالا پہاڑ کے نیچے کھڑے ہوں۔ قلعے کے اندر کبھی تین منزلہ عمارتیں تھیں جو مٹی ہو چکی ہیں۔ دیوہیکل فصیل جو صحرا کی ریت کے سامنے صدیوں سے جمی کھڑی تھی‘ جگہ جگہ سے ٹوٹ رہی ہے۔ بلندوبالا قلعے کے فصیل کے اندر مٹی کی بھرائی کی گئی تھی ۔جگہ جگہ سے گرنے والی فصیل کے پیچھے سے یہ مٹی جھانک رہی ہے۔ 1965ء میں جنگ کے دوران قلعے پر کچھ دنوں کے لیے حفاظتی نقطہ نظر سے غالباً طیارہ شکن توپیں بھی لگائی گئی تھیں جن کے لیے اونچا برج بنایا گیا۔ درمیان میں موجود عمارتوں کی باقیات صاف کر کے پریڈ گرائونڈ بنا دیا گیا۔
محمد خان اول نے دراوڑ قلعہ پر 1733 ء میں قبضہ کیا۔ دوسرے نواب بہاول خان کے دور میں راول رائے سنگھ نے 1747 ء میں اس پر قبضہ کر لیا۔ تیسرے نواب کے دور میں اسے اس شرط پر واپس کیا گیا کہ اس کی نصف آمدنی اسے ادا کی جائے گی۔ بہاولپور کا علاقہ اور قلعہ دراوڑ 1788 ء میں تیمور نے فتح کر لیے تاہم چوتھے حکمران نواب بہاول دوم نے اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ سو فٹ بلند فصیلوں اور برجوں کے اوپری حصے میں سیاہ رنگ کی اینٹوں سے اقلیدسی ڈیزائن اس قلعے کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔ قلعے کے اندر ایک کنواں ہے ۔مرکزی دروازے کے ساتھ پانی کا ایک تالاب جسے مقامی زبان میں ''ٹوبہ‘‘ کہتے ہیں موجود ہے۔ اندر دو عدد پرانی توپیں ابھی تک موجود ہیں۔ قلعہ مسلسل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور آہستہ آہستہ ریت میں ملنا شروع ہو گیا ہے۔ اسد میرے ہمراہ تھا ۔قلعے کی خستہ حالی دیکھ کر بڑا دکھی ہوا‘ کہنے لگا اگر میرے پاس اتنے پیسے آ جائیں کہ میں یہ قلعہ خرید کر مرمت کروا سکوں تو میں اسے پہلے کی طرح شاندار بنا دوں۔ میں ہنس پڑا کہ ابھی بچے کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ کتنی بڑی بات کر رہا ہے تاہم یہ سوچ کر دکھی ہوا کہ ایک بچے کو بھی وسیب کے اس تاریخی ورثے کی بربادی کا احساس ہے مگر سرکار کو ایسی باتوں کی رتی برابر فکر نہیں۔
چولستان میں یعنی روہی میں اب تک صرف یہی قلعہ کسی حد تک برقرار ہے وگرنہ چولستان کے سینے پر بکھرے ہوئے کئی قلعے مٹی کے ساتھ مٹی ہو چکے ہیں۔ قلعہ اسلام گڑھ بھارت کی سرحد کے پاس دراوڑ سے قریب 150 کلومیٹر کے فاصلے پر راول بھیم سنگھ کا تعمیر کردہ چوکور شکل اور ڈھلوان دار دیواروں والا یہ قلعہ تقریباً مکمل برباد ہو کر ختم ہو چکا ہے۔ تھوڑے سے آثار بتاتے ہیں کہ کبھی یہاں قلعہ موجود تھا۔ نور محمد خان کا تعمیر کردہ قلعہ میرگڑھ ہر طرف سے بیانوے فٹ لمبائی پر مشتمل ہے اور پختہ اینٹوں سے بنایا گیا ہے۔ فورٹ عباس سے اکیس کلومیٹر کے فاصلے پر موجود اس قلعے کی دیواریں چالیس فٹ تک بلند ہیں۔ قلعہ خاصی حد تک تباہ ہو چکا ہے۔ سات برجوں والے اس قلعے کے گیٹ پر بڑی خوبصورت ایرانی نقاشی کا کام تھا‘ یہ قلعہ بھی عدم توجہی کے باعث مکمل تباہی کے کنارے پر ہے۔ میرگڑھ کے قلعے سے نو کلومیٹر کے فاصلے پر صحرا کے اندر ایک اور قلعہ ہے جام گڑھ‘ خوبصورت قلعہ جام گڑھ پختہ اینٹوں سے تعمیر کردہ ہے اور اسے جام خان معروفانی نے تعمیر کیا تھا۔ چوکور قلعے کی ہر دیوار ایک سو چودہ فٹ پر مشتمل ہے ۔تیس فٹ بلند دیواروں والے قلعے کے چاروں کونوں پر گول برج ہیں۔ ابھی تک یہ برج ریت سے لڑ رہے ہیں ‘تاہم دیواریں خستگی کی آخری حد پر ہیں اور جگہ جگہ سے معدوم ہو چکی ہیں۔ کچی اور پکی اینٹوں سے تعمیر کردہ موج گڑھ قلعہ بھی کھنڈر ہو چکا ہے۔ وسیع و عریض قلعے کا برا حال ہے اور اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
نواب محمد بہاول دوم کا 1783ء میں تعمیر کردہ قلعہ خان گڑھ قلعہ دراوڑ سے ستر کلومیٹر دور ہے ۔چولستان کے تمام قلعوں کی مانند یہ قلعہ بھی چوکور شکل میں ہے ۔اس کے برج اور دیواریں کچی اینٹوں سے بنی ہوئی ہیں جن کے اوپر پختہ اینٹیں لگی ہوئی تھیں۔ قلعے کا داخلی دروازہ پختہ ہے اور ابھی اپنی اصل صورت میں کسی حد تک موجود ہے جبکہ باقی قلعہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ یہی حال چولستان میں قلعہ چندگڑھ کا ہے۔ مٹی اور پختہ اینٹوں سے تعمیر کردہ یہ قلعہ چولستان کے دوسرے سرے پر واقع ہے اور دیگر چولستانی قلعوں کی مانند صحرا کا حصہ بننے کے عمل سے گزر رہا ہے۔ بالکل یہی حال قلعہ نواں کوٹ کا ہے اور یہی حال قلعہ بجنوٹ کا ہے۔ راجہ ونجھا بھائیہ کا تعمیر کردہ یہ قلعہ چوکور ہے اور چونے کے پتھر سے تعمیر کردہ ہے جو مقامی طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ اس قلعے کی دیوار اکیس فٹ بلند ہے جبکہ اس دیوار کے اوپر سات فٹ بلند کنگرے بھی ہیں جس سے قلعے کی دید قابل دید ہو جاتا تھا لیکن اب اس کے بھی مرکزی دروازے کے علاوہ ہر چیز برباد ہو چکی ہے۔ 
یہ صرف وسیب میں روہی کے اندر آثار قدیمہ اور تاریخی عمارات کا حال تھا۔ حکومت کی عدم دلچسپی اور عدم توجہی سے جنوبی پنجاب کے سارے آثار قدیمہ تباہ و برباد ہو چکے ہیں اور جو کچھ بچا ہے وہ تباہی کے کنارے پر ہے اور مستقبل میں ان کے رہے سہے آثار بھی صرف تاریخ کی کتابوں میں ہونگے۔ اُچ شریف میں پانچ مزارات ایسے ہیں جو اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیم یونیسکو کی ورلڈ ہیرٹیج سائٹ لسٹ پر ہیں۔ ان میں سے بی بی جیوندی کا مقبرہ اپنی خوبصورتی کے اعتبار سے ناقابل بیان ہے۔ نیلی ٹائلوں سے مزین ایرانی فن تعمیر کا یہ نمونہ ایرانی شہزادے دلشاد نے جو خراسان کا حاکم تھا تعمیر کروایا۔ 1817ء کے سیلاب میں آدھا مقبرہ تباہ ہو گیا۔ اب یہ آدھا مقبرہ موجود ہے اور آہستہ آہستہ اپنا حسن کھو رہا ہے لیکن صرف اسی پر کیا موقوف؟ یہ تو اُچ میں ہے ۔ملتان شہر اور اس کے اردگرد تاریخی عمارات اپنا حسن تو ایک طرف اپنی سلامتی کے بارے میں سوال کرتی ہیں کہ کیا مہذب اقوام اپنے تاریخی ورثے سے ایسا سلوک کرتی ہیں؟ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں