"KMK" (space) message & send to 7575

ایک بہادر اور بے وقوف قوم کا قصہ

ہم پاکستانی انفرادی اور اجتماعی، دونوں حوالوں سے بہادر اور بے وقوف واقع ہوئے ہیں۔ سمجھ داروں کا فرمان ہے کہ بہادری اور بے وقوفی کے درمیان ایک ضعیف سی حد فاصل ہوتی ہے۔ الحمدللہ کہ ہم اس ضعیف سی چیز کا مکمل قلع قمع کر چکے ہیں اور اب ہمارے ہاں ان دونوں چیزوں کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں بچا۔ تا ہم انفرادی طور پر بہادری اور بے وقوفی کو ایک چیز قرار دینے کے بعد میرے دل میں ایک خوف سا جاگزین ہوا ہے کہ کہیں اسے یار لوگ اپنی اپنی سوچ کے مطابق میری جانب سے کسی علامتی حوالے سے کسی میاں صاحب یا خان صاحب پر طنز سمجھ کر قابل گردن زدن ہی قرار نہ دے دیں کہ ہم کرپشن کو تو جمہوریت کی بقا سے وابستہ کر کے برداشت کر لیتے ہیں مگر اختلاف رائے کو جمہوریت کا ازلی اور اصلی دشمن سمجھتے ہیں اور ایسے شخص کو جمہوریت کش قرار دے کر راندہ ٔدرگاہ قرار دیتے ہوئے امان کے دائرے سے خارج کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایمان اور امان کا دائرہ روز بروز سکڑتا جا رہا ہے۔ ہم لوگوں کو اس دائرے میں دا خل کرنے سے کہیں زیادہ نکالنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
صورتحال اس حد تک خراب ہے کہ اختلاف رائے کے حا مل شخص کو اندرون ملک تو ایک طرف بیرون ملک بھی اختلاف رائے کی آف شور کمپنی بنا کر گالیوں کے ٹیکس سے بچنے کی سہولت حاصل نہیں۔ البتہ عام ٹیکس چوری کرنے پر اس قسم کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ بات بہادری اور بے وقوفی کی ہو رہی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔
ہم بہادر اور بے وقوف ہیں۔ تاہم ہم اپنی بہادری کی وجہ سے بے وقوف نہیں بلکہ بے قوفی کی وجہ سے بہادر ہیں۔ ہماری ساری دلیری ہماری بے وقوفی کی مرہون منت ہے۔ ہم اقبال کے شعر کی تقریباً مکمل تفسیر ہیں ؎
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے مجوِ تماشائے لب بام ابھی
تفسیر کے ساتھ میں نے جو تقریباً لکھا ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہم آتش نمرود میں عشق کے باعث نہیں بلکہ اپنی حماقت کے باعث کودتے ہیں اور اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ بالکل سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی صابو کی طرح جس نے اپنے پڑوسی لالے سے شرط لگالی تھی۔
شام کو محلے کے چائے خانے میں بیٹھے سردار بلدیوسنگھ کی نظر ٹی وی پر پڑی جہاں خبریں چل رہی تھیں اور ممبئی کی ایک عمارت کی دسویں منزل پر کھڑا ہوا ایک شخص احتجاجاً خودکشی کی دھمکی دے رہا تھا۔ سردار بلدیو سنگھ نے ساتھ بیٹھے ہوئے اپنے ہمسائے لالہ رام چند کو دیکھ کر کہا یہ چھلانک نہیں لگائے گا۔ رام چند کہنے لگا کہ ہر صورت میں لگائے گا۔ اسی بحث کے دوران بلدیو سنگھ نے گرمی کھا کر سو روپے کی شرط لگالی کہ عمارت پر کھڑا شخص چھلانک نہیں لگائے گا ۔ دو منٹ بعد اس شخص نے دسویں منزل سے چھلانک لگائی اور نیچے گر کر مر گیا۔ سردار بلدیو سنگھ نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور لالہ رام چند کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ لؤ لالہ جی! سو روپیہ لے لو۔ آپ شرط جیت گئے۔ لالہ رام چند نے نوٹ ہاتھ میں پکڑ کر کہا۔ بلدیو سنگھ جی! میں نے آپ سے تھوڑا دھوکہ کیا ہے۔ دراصل میں یہ خبر گھنٹہ پہلے والے بلیٹن میں سن بھی چکا ہوں اور دیکھ بھی چکا ہوں کہ اس شخص نے خود کشی کر لی تھی۔ آپ یہ نوٹ واپس لے لیں۔ سردار بلدیو سنگھ کہنے لگا۔ لؤ جی! اس میں دھوکے کی کیا بات ہے؟۔ میں نے بھی یہ خبر خود سنی تھی اور اس شخص کو چھلانگ لگا کر مرتے دیکھا ۔میرا خیال تھا کہ شاید اس بار یہ بے وقوف ایسا نہیں کرے گا۔ لالہ رام چند نے سو روپے کا نوٹ اپنی جیب میں ڈال لیا۔ یہ شرط ہارنے کی نہیں حماقت کی سزا کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔
ہم بہادر ہیں کہ رونے والی باتوں پر ہنستے ہیں اور بے وقوف ہیں کہ ہنسنے والی باتوں پر روتے ہیں۔ دراصل ہمیں علم ہی نہیں کہ کہاں ہنسنا ہے اور کہاں رونا ہے؟۔ کس سے کیا پوچھنا ہے اور کیا نہیں پوچھنا۔ جن باتوں پر قومیں احتجاج کرتی ہیں ہم جشن مناتے ہیں۔ جس بات پر لوگ اپنے لیڈروں کا گریبان پکڑتے ہیں ہم ان باتوں پر اپنے لیڈروں کے پاؤں پکڑتے ہیں۔ جن باتوں پر لوگ حکمرانوں پر جوتے برساتے ہیں ہم پھول برساتے ہیں اور جس چیز پر رونا چاہیئے اس سے لطف لیتے ہیں۔
حکومت وقت کے ہر بحران کی ٹوپی کے نیچے سے مولانا فضل الرحمان اپنے مفاد کا کبوتر برآمد کر لیتے ہیں۔ میں نے چند روز پیشتر 
اپنے کالم میں جملہ لکھ کر ثبوت کے طور پر لکھا کہ موجودہ پانامہ لیکس کے بحران میں حکومت کو پھنسا دیکھ کر مولانا فضل الرحمان نے اپنے اٹھارہ گریڈ کے افسر چھوٹے بھائی ضیاء الرحمان کو جو خوشاب میں ڈی سی او تھا۔ بیسویں گریڈ میں کمشنر افغان مہاجرین لگوا لیا ہے۔ مولانا اور ان کے برادر خورد کی لاٹری کے نکلنے پر غور کرنے کے بجائے مولانا فضل الرحمان کے ایک مداح نے مجھے ای میل لکھ ماری۔ ساری ای میل کیا لکھوں؟۔ موصوف نے فرمایا کہ آپ کا کالم روزنامہ دنیا میں پڑھا تو پہلی دفعہ سمجھ آئی کہ کفار مکہ آپؐ کو شاعر کیوں کہتے تھے۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ شاعر حضرات محبت و نفرت کے معاملے میں سچ کا دامن ہمیشہ چھوڑ کر مبالغے سے کام لیتے ہیں (انہوں نے مبالغے کے بجائے مغالطے کا لفظ استعمال کیا تھا) جس طرح آپ نے مولانا کے چھوٹے بھائی ضیاء الرحمان کے سلسلہ میں کیا۔ شاید یہ بھی اتفاق تھا کہ آپ کو یہ بھی نہ معلوم ہو سکا کہ ضیاء الرحمان 2/3 سال پہلے بھی کمشنر افغان مہاجر ین کی حیثیت سے فرائض سر انجام دے چکے ہیں۔ اس سیٹ پر یہ ان کی دوسری بار تقرری ہے۔ لیکن کالم نگار یا اینکر پرسن اس کو تو پیسے اسی کام کے ملتے ہیں۔ جتنی کسی کی پگڑی اچھالو، اتنی مقبولیت زیادہ۔ جتنی مقبولیت زیادہ اتنا رقم میں اضافہ۔ پھر انہوں نے مجھے دنیا کی بے ثباتی یاد دلائی۔ اللہ کے ہاں حاضری کا خوف دلایا اور الزام لگانے پر جزا و سزا کی نشاندہی کی۔ جواباً میں نے انہیں لکھا کہ ''آپ نے مولانا فضل الرحمان کے چھوٹے بھائی ضیاء الرحمان کی اٹھارہویں گریڈ میں ہوتے ہوئے بیسویں گر یڈ کی پوسٹ پر دوسری بار 
تعیناتی کو اس کے درست ہونے کی دلیل کے طور پر بیان کیا ہے حالانکہ یہ دوسری بار خرابی کی دلیل ہے۔ جواباً ان موصوف نے ایک اور دلچسپ سوال جڑ دیا کہ لاہور کا ڈی سی او بیسویں گریڈ کا ہے اور خوشاب میں اٹھارہ گریڈ کا۔ یہ کس طرح ہے؟۔ جواباً میں نے لکھا کہ سوال واقعی بڑا مزیدار ہے مگر مناسب ہے کہ یہ سوال آپ مجھ عاجز کے بجائے مولانا فضل الرحمان سے پوچھیں کہ انہوں نے اٹھارہویں گریڈ والا اپنا بھائی چھوٹا خوشاب میں ڈی سی او کیسے لگوایا؟ میں بھلا اس سوال کا جواب کیونکر دے سکتا ہوں؟۔ جس نے یہ جادوگری دکھائی ہے وہی بتا سکتا ہے۔ پھر ان صاحب کا جواب نہیں آیا تا ہم مجھے یقین ہے کہ موصوف نے یہ سوال بہرحال مولانا فضل الرحمان سے نہیں کیا ہو گا۔ عقیدت مند ایسے سوال مرشدوں سے نہیں مجھ جیسے گستاخوں سے پوچھتے ہیں۔ پانی ہمیشہ نچلی طرف آتا ہے۔
اب اس پانامہ لیکس پر دیکھیں۔ احتجاج کے بجائے لطیفے آ رہے ہیں۔ اور لطیفے بھی ایک سے بڑھ کر ایک۔ ادھر کمیشن بنا ہے اور ادھر اس کے لطیفے آ گئے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب مٹھائی کی دوکان پر گئے اور ایک کلو برفی مانگی۔ پیک ہو کر آئی تو کہنے لگے ''نہیں یہ رہنے دو اس کی جگہ ایک کلو قلاقند دے دو‘‘۔ قلاقند آئی تو کہا ''نہیں اس کی جگہ لڈو دے دو‘‘۔ لڈو آئے تو کہنے لگے ''لڈو رہنے دو، اور ن کی جگہ پرچم چم دے دو‘‘۔ چم چم آئی تو بولے ''نہیں اس کی جگہ بالوشاہی دے دو‘‘۔ دوکاندار بادل نخواستہ بالوشاہی لے آیا۔ ان صاحب نے بالوشاہی کا ڈبہ اٹھایا اور چل دیئے ۔دوکاندار بوالا۔ ''صاحب! پیسے تو دیتے جائیں‘‘۔ صاحب حیرانی سے بولے۔ کس بات کے پیسے؟۔ دوکاندار نے کہا مٹھائی کے اور کس کے۔ صاحب نے پوچھا کس مٹھائی کے؟۔ دوکاندار بولا جو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ بات بڑھ کر توتکار تک آ گئی۔ آخر صاحب نے دوکان کے باہر کمیشن بنا لیا۔ اخبار اور ٹی وی وغیرہ کے نمائندے آ گئے۔ دوکاندار سے پوچھا گیا ''مسئلہ کیا ہے‘‘۔ دوکاندار نے کہا کہ ان صاحب نے بالوشاہی لی ہے اور اس کے پیسے نہیں دے رہے۔ صاحب بولے بالوشاہی تو میں نے چم چم واپس کر کے لی تھی۔ اچھا تو پھر چم چم کے پیسے دے دیں۔ وہ تو میں نے لڈو کی جگہ لی تھی۔ پھر لڈو کے پیسے؟۔ وہ تو قلاقلند کی جگہ لی تھی۔ اچھا صاحب آپ قلاقند کے پیسے دے دیں۔ وہ تو لی ہی برفی کی جگہ تھی۔ تو برفی کے پیسے؟۔ ارے بھائی پاگل ہو گئے ہو؟۔ میری تلاشی لے لو۔ اگر میرے پاس سے برفی نکل آئی تو میں مجرم ورنہ مٹھائی والا جھوٹا۔
تلاشی لی گئی۔ برفی ہوتی تو نکلتی۔ دوکاندار چلایا ارے ان صاحب نے برفی تو لی ہی نہیں تھی بلکہ اسے واپس کر کے قلاقند لے لی تھی۔ وہ صاحب بولے آپ خود سن لیں۔ اب کہہ رہا ہے کہ میں نے برفی لی ہی نہیں تھی۔ جب لی ہی نہیں تو کس بات کے پیسے؟۔ جھوٹا الزام لگاتے ہو شریفوں پر۔ یہ کہہ کر وہ صاحب بڑے آرام سے اٹھے اور بالوشاہی کا ڈبہ بغل میں دبا کر باعزت رخصت ہو گئے عوام، میڈیا اور کمیشن منہ دیکھتا رہ گیا۔
ایک اور لطیفہ۔ ایک دفعہ ایک شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گاڑی پر جا رہا تھا۔ گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں تھی۔ پولیس نے ناکے پر گاڑی روکی اور کاغذات طلب کرنے پر ان صاحب نے کہا کہ گاڑی تو میری ہے ہی نہیں۔ بچوں کی ہے۔ پہلا بچہ بولا یہ گاڑی ہماری نہیں ہم نے کرایے پر لی ہوئی ہے۔ دوسرا بچہ بولا انکل الحمدللہ یہ گاڑی ہماری اپنی ہے اور میری بہن اس کی مالکن ہے۔ اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی بہن بولی۔ نہیں انکل میں نے تو کبھی سائیکل نہیں خریدی یہ گاڑی تو بہت بڑی چیز ہے۔ ساتھ بیٹھی بیگم صاحبہ بولیں یہ میرے میاں کی گاڑی ہے اور ان کی محنت کی کمائی ہے۔ پولیس والا چکرا کر رہ گیا۔ ہاتھ جوڑکر بولا کہ مہربانی فرما کر اس گاڑی کے کاغذات دکھا دیں سارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ وہ صاحب کہنے لگے آپ ہم پر بلا وجہ شک کر رہے ہیں۔ ہم تو بڑے شریف اور سفید پوش لوگ ہیں۔ آپ عدالت میں جائیں اور ثابت کریں کہ یہ گاڑی چوری کی ہے۔ عدالت اگر اس گاڑی کے کاغذات تلاش کر سکتی ہے تو کر لے۔ ہم تو نہیں دکھائیں گے۔
حکمرانوں، سیاستدانوں، بیوروکریٹوں، جرنیلوں اور سرمایہ داروں کے اربوں ڈالر باہر پڑے ہیں اور عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔ لیکن بہادری کا یہ عالم ہے کہ کسی کا گریبان پکڑنے کے بجائے اپنے اپنے چور کے دفاع کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ جن کو پیسے کا حساب لینا چاہیئے وہ پیسہ لوٹنے والوں کی حفاظت کے لیے اپنی جان قربان کرنے پر تیار ہیں۔ میں تبھی کہہ رہا تھا کہ ہم انفرادی اور اجتماعی، دونوں حوالوں سے بہادر اور بے وقوف واقع ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں