"KMK" (space) message & send to 7575

پچاسی ارب تو ہیں مگر پندرہ کروڑ نہیں ہیں

بجٹ کے بارے میں اگر اللہ تعالیٰ ہمیں سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو جیسی سمجھ بوجھ عطا کر دے تو معاملہ بالکل ٹھیک ہو جائے مگر ہم اتنے خوش قسمت کہاں کہ سردار بلدیو سنگھ کی ہمسری کر سکیں۔ بجٹ میں پٹرول کی قیمتیں بڑھنے پر کسی نے سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو سے پوچھا کہ سردار جی پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے آپ پر کیا فرق پڑا ہے؟ اور آپ اس مہنگائی کے بارے میں کیا کہیں گے جو ڈیزل پٹرول وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے پیدا ہوئی ہے؟ سردار بلدیو سنگھ نے ایک منٹ توقف کیا اور پھر کہنے لگا: واہے گرو کی کرپا سے اپنے پر تو اس بجٹ کا یا پٹرول کی قیمت بڑھنے کا رتی برابر اثر نہیں ہوا۔ لوگ ایویں خواہ مخواہ رولا ڈال رہے ہیں۔ سانوں دیکھو! آپاں پہلے وی اک ہزار روپے دا پٹرول اپنی گڈی میں ڈلواتے تھے اور اب قیمتیں بڑھنے کے بعد یعنی ہزار روپے کا ہی پٹرول ڈلواتے ہیں۔ بھلا آپ خود بتائو‘ ہماری صحت پر کیا فرق پڑا ہے؟ جو بے وقوف لٹروں کے حساب سے پٹرول ڈلواتے تھے ان کی باں باں ہو رہی ہے۔ ساڈی جیب پر تو ٹکے کا فرق نہیں پڑا۔ بندے کو اپنا حساب سیدھا رکھنا چاہیے۔ اگر میں بھی باقی احمقوں کی طرح لٹروں میں پٹرول ڈلواتا تو میری بھی ''چیکیں‘‘ نکل جاتیں مگر میں تو پہلے دن سے ہی ہر واری اپنی گڈی میں کٹھا ہزار روپے کا پٹرول ڈلوا لیتا ہوں۔ مجھے تو قیمت بڑھنے یا کم ہونے کا کبھی بھی فرق نہیں پڑا۔ سوال کرنے والے نے پوچھا ''سردار جی! آپ نے مہینے کا حساب کر کے دیکھا ہے؟ سردار بلدیو سنگھ کہنے لگا‘ آپ مجھے نویں چکر میں نہ ڈالیں‘ مہینے کا کوئی اک خرچہ ہو تو بندہ حساب کرے۔ اب سارا دن مہینے کی طرح بہی کھاتے کھول کر بیٹھا رہوں؟ کم تہاڈا پئو کرے گا؟ سدھا سا حساب ہے ہر واری اک ہزار روپے کا پٹرول۔ واہے گرو دا خالصہ تے واہے گرو دی پھتح۔
بجٹ نے ہمیشہ ہی ہمیں (ہمیں سے مراد یہ عاجز ہی ہے آپ اس سے کوئی اور مطلب نہ نکالیں) کنفیوژ اور تنگ و پریشان ہی کیا ہے۔ ''ایمانداری‘‘ کی بات ہے کہ نہ تو زندگی میں کبھی پوری بجٹ تقریر سننے کا موقع ملا ہے اور نہ ہی کبھی پورے بجٹ مسودے کو پڑھا ہے کہ اس میں اتنا الجھائو اور گورکھ دھندا ہوتا ہے کہ بندے کا دماغ پلپلا ہو جاتا ہے۔ آخری چارہ یہ ہوتا ہے کہ سمجھدار لوگوں کے تبصرے اور تجزیے پڑھ کر اندازہ لگایا جائے کہ بجٹ عوام دوست ہے یا عوام دشمن۔ لیکن یہ سارے تجزیے اور تبصرے بالکل بیکار ثابت ہوتے ہیں کہ تجزیہ کار بجٹ کو مدنظر رکھ کر تجزیہ نہیں کرتا بلکہ اپنی سیاسی وفاداری کو مدنظر رکھ کر تجزیہ کرتا ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک فریق کے نزدیک یہ ایک ایسا مثالی اور تاریخی بجٹ ہوتا ہے جس سے عوام کی تقدیر بدل جائے گی اور ملک سے غربت اور مہنگائی کا اس طرح خاتمہ ہو جائے کہ اس کی مثال ماضی میں تو ملنا ممکن ہی نہیں بلکہ مستقبل میں بھی ایسے کسی معجزے کی توقع رکھنا عبث ہے۔ مخالفین کے نزدیک یہ ایک تاریخی اور مثالی عوام دشمن بجٹ ہوتا ہے جس کی مثال بھی ماضی میں ملنا ممکن نہیں اور مستقبل میں ایسے بدبخت بجٹ کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اب آپ بتائیںمجھ جیسا کم عقل اور دوسروں کے تجربے کا محتاج شخص کیا فیصلہ کرے؟ یہ تو خدائے بزرگ و برتر کا کرم ہے کہ ہمارے ہر سال کے بجٹ میں ایک چیز سدا سے مشترک ہے کہ ہر نیا بجٹ گزشتہ بجٹ سے زیادہ خراب‘ خسارے والا اور عوام دشمن ہوتا ہے اور اگر اس میں کوئی کمی رہ جائے یا یہ امکان پیدا ہونے کی توقع پیدا ہو کہ بجٹ گزشتہ والے بجٹ سے بہتر ہے تو ہر حکمران اپنی اس غلطی پر خالی شرمندہ ہونے کے بجائے (حالانکہ وہ کبھی خالی شرمندہ بھی نہیں ہوتے) اس کا عملی حل نکالتے ہیں اور درمیان میں دو تین بار چھوٹے چھوٹے بجٹ لا کر اپنی اس غلطی کا ازالہ کر دیتے ہیں۔
مجھے نہیں پتہ کہ یہ بجٹ حقیقتاً کیسا ہے؟ وجوہات وہی ہیں‘ نون لیگیے کہتے ہیں کہ بجٹ عوام دوست اور شاندار ہے جبکہ باقی ساری خدائی کچھ اور کہہ رہی ہے جو لیگیوں کے دعووں کے بالکل برعکس ہے اس لیے میں حسب معمول کنفیوژ اور پریشان ہوں اور مجھے واقعتاً سمجھ نہیں آ رہی کہ بجٹ میں کیا ہے مگر مجھے ایک دو چیزیں بہرحال بڑی اچھی طرح سمجھ آ گئی ہیں کہ حکومتی ترجیحات کیا ہیں؟
پنجاب کے بجٹ میں اورنج ٹرین کے لیے پچاسی ارب روپے رکھے گئے ہیں جبکہ ملتان کے کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کے لیے محض چند کروڑ روپے ۔ اس سے کم از کم مجھے ضرور پتہ چل گیا ہے کہ حکومت کے نزدیک پورے جنوبی پنجاب میں دل کے امراض میں مبتلا غریب عوام اور اورنج لائن ٹرین کے درمیان توجہ کی کیا نسبت ہے۔ نشتر میڈیکل کالج و ہسپتال میں اینڈوسکوپی کی مشین اور دیگر متفرق مشینری کے لیے پندرہ کروڑ کی ڈیمانڈ ایک دو سال سے ملتان اور لاہور کے درمیان ذلیل و خوار ہو رہی ہے اور اس ذلت و خواری کا براہ راست اثر اس علاقہ کے مریضوں پر پڑ رہا ہے‘ نتیجتاً وہ بھی برسوں سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ ان مریضوں کا کوئی پرسان حال نہیں اور وہ ہسپتال سے باہر پرائیویٹ لٹیروں سے لٹ رہے ہیں۔ وہی ٹیسٹ جو نشتر ہسپتال کے اینڈوسکوپی ڈیپارٹمنٹ میں مبلغ نو سو روپے میں ہو رہا ہے وہ نشتر ہسپتال کے سامنے سڑک کے پار پانچ سے چھ ہزار روپے میں ہو تا ہے۔ ERCP کا جو ٹیسٹ نشتر ہسپتال میں پندرہ سو روپے میں ہو رہا ہے وہ مارکیٹ میں پچاس ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے میں ہو رہا ہے۔ ہسپتال میں گزشتہ دو عشروں سے کوئی نئی مشینیں نہیں آئیں اور پرانی مشینیں اس حد تک آئوٹ آف ڈیٹ ہو چکی ہیں کہ وہ مسلسل کام نہیں کرتیں۔ آئے روز کوئی نہ کوئی خرابی پیدا ہو جاتی ہے اوپر سے مسئلہ یہ ہے کہ اب ان کے سپیئر پارٹس بھی نہیں ملتے۔ کمپنیوں نے وہ ماڈل بنانے ہی بند کر دیئے ہیں جو جنوبی پنجاب کے اس واحد Tertiary Care ہسپتال میں خستہ حالی سے اپنے آخری دن پورے کر رہے ہیں۔
میرے پاس اس سلسلے میں دو میلز آئی ہیں خدا جانے وہ کس کس کے پاس پہنچی ہیں اور ممکن ہے کہیں لکھی بھی جا چکی ہوں۔ کم از کم میری نظر سے نہیں گذریں۔ اس کے راوی کوئی عمر قدوسی صاحب ہیں۔ وہ حسنین قدوسی کے محلے دار ہیں۔ بہت متقی‘ خود بھی ابھی جوان ہیں اور بیٹا بائیس برس کا جوان۔ ماں کے ہاتھ کا کھانا کھایا‘ سر درد تھا دوا لی اور سو گیا۔ فجر مسجد میں پڑھنے والا گھرانہ‘ بیٹا نماز کے لیے نہ اٹھا تو باپ نے اٹھایا اور قریب ہی چوبرجی چوک میں ایک ہسپتال لے گئے۔ انہوں نے کہا ہمارے بس کا نہیں۔ کارڈیالوجی ہسپتال لے گئے۔ انہوں نے کہا دل کا معاملہ نہیں‘ دماغ کا لگتا ہے۔ سروسز ہسپتال لے گئے۔ وہاں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض‘ انہوں نے کہا انتہائی نگہداشت کا مریض ہے ہمارے پاس فی الوقت بستر خالی نہیں‘ گنگا رام ہسپتال لے جائیں۔ باپ کیا کرتا؟ مجبور محض‘ گنگارام چلا آیا۔ بیٹا مٹھی سے گرتی ریت کی طرح ہاتھ سے نکل رہا تھا اور باپ دیوانہ وار لاہور کی سڑکوں پر اسے لیے لیے پھر رہا تھا۔ میاں شہبازشریف کی بنائی ہوئی کھلی اور شفاف سڑکیں اسے بازو کھولے راستہ دے رہی تھیں۔
گنگا رام والوں نے کہا ہماری تو مشینیں ہی خراب ہیں۔ بیٹے کو اٹھایا اور برلب نہر ایک مشہور پرائیویٹ ہسپتال میں لے آیا۔ انہوں نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ بچے کو داخل کیا اور باپ سے کہا کہ علاج سے پہلے ایک لاکھ روپے جمع کروا دو۔ وہ شاید پندرہویں سکیل میں واپڈا میں ملازمت کرتے ہیں۔ خیر ایک لاکھ روپے جمع کروا دیے۔ اگلے روز انہوں نے کہا کہ ہمارا روز کا بل ساٹھ ہزار روپے بنے گا اور معاملہ لمبا لگتا ہے۔ باپ نے جوان بچے کو اٹھایا جو دو روز سے بے ہوش تھا۔ جناح ہسپتال لے آیا۔ وہاں کی کہانی اس سے بھی عجیب ہے۔ دو دن رہے۔ میرا بھتیجا حسنین قدوسی جو ساتھ رہا تھا قصہ سنا رہا تھا اور میری آنکھیں بھیگ رہی تھیں۔ صرف اتنا سنیے کہ دو روز میں سینئر ڈاکٹر صرف ایک بار آیا۔ تیسرے روز باپ نے جوان بیٹے کو اٹھایا ''کہ چل بیٹا گھر چلیں‘‘ کہ وہ سکون کی نیند سو چکا تھا۔ اس کا ہر درد مٹ چکا تھا۔ سانس اور روح کے سارے جھگڑے ختم ہو چکے تھے۔
اور ہاں! اگر کوئی کہے کہ لاہور میں کوئی بھی ہسپتال ہے تو میں کہوں گا کہ تم جھوٹے انسان ہو۔ اگر کوئی بھی ہوتا تو اس بچے کو نہ ملتا؟ جو ''شان دار‘‘ اور سگنل فری سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا۔ ہاں! پل اور سڑکیں بہت شاندار ہیں۔
ایک اور مراسلہ ہے جو شفاعت علی نے راولپنڈی سے وزیراعلی کو ارسال کیا ہے خدا جانے وہ مراسلہ وزیراعلی تک پہنچنے کے کس مرحلے پر ہے تاہم آپ اسے پڑھ لیں۔ 
ہمارے پڑوس میں (شالے والی گلی نمبر 8 نزد عسکری الیون راولپنڈی) حاجی صابر صاحب کو ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں ایک گولی لگ گئی اور DHQ راولپنڈی راجہ بازار لے آئے۔ پہلے خون کا بندوبست کرنے کو کہا گیا اور پھر آپریشن ہوا۔ پھر آپریشن کے بعد کہا گیا کہ اب انہیں وینٹی لیٹر والے کسی ہسپتال لے جائیں۔ مجھے اس وقت حیرانی ہوئی کہ پورے ضلع میں ایک DHQ ہوتا ہے وہاں بھی وینٹی لیٹر نہیں تو کہاں ہونا چاہیے؟ پھر ہم انہیں ایک معروف انٹرنیشنل ہسپتال لے گئے جہاں چھ دن وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد زندگی کی بازی ہار گئے۔ ہسپتال والوں نے پانچ لاکھ اکتالیس ہزار کا بل بنا دیا۔ میں نے سوچا کہ ہماری گورنمنٹ کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟۔
شفاعت علی اور عمر قدوسی کو اس کالم کے ذریعے بتایا جا رہا ہے کہ حکومت کی ترجیحات میں اب بھی اورنج لائن ٹرین‘ میٹرو بس اور موٹروے ہے۔ ہسپتال نہ سہی‘ مگر ہسپتالوں تک پہنچ کر خوار ہونے کے لیے انہیں شاندار سڑکیں ضرور میسر ہیں۔ اسی لیے پنجاب کے اس سال کے بجٹ میں اورنج لائن ٹرین کے لیے پچاسی ارب روپے اور ملتان کے DHQ ہسپتال کے محض گیارہ کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس سارے بجٹ میں نشتر ہسپتال کے اینڈوسکوپی اور گیسٹرو انٹالوجی کے شعبے کے لیے اور جنوبی پنجاب کے مریضوں کے لیے پندرہ کروڑ روپے تو بالکل بھی نہیں ہیں۔ ظاہر ہے پچاسی ارب کے خرچے کے بعد بچتا بھی کیا ہے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں