"KMK" (space) message & send to 7575

سیکھنے کی چیزیں

گزشتہ سے پیوستہ کالم میں میں نے لکھا تھا کہ ہمارا ہر آنے والا حکمران پہلے سے بڑھ کر ثابت ہو رہا ہے۔ ہر نیا حاکم اپنی حرکتوں کے طفیل پچھلے والے کا تاثر بہتر کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ادھر اپنا یہ حال ہے کہ ہر بار عوام کو خوار کرنے والے کو اگلی بار پھر ووٹ دے کر اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیںکہ ہمیں آپ قبول ہیں، ہر حال میں منظور ہیں اور اس بار آ کر پچھلی بار کی ناآسودہ خواہشات کو پورا کر لیں، اپنی باقی ماندہ حسرتیں پوری کر لیں‘ ہماری خیر ہے۔ شکر الحمد للہ کہ دوبارہ آنے والا ہمارے اس اعتماد پر پورا اترتا ہے اور پہلے سے بڑھ کر ہماری طبیعت صاف اور اپنی جیب وزنی کرتا ہے۔ ملک کو پہلے سے بڑھ کر چونا لگاتا ہے۔ ایک ایس ایم ایس آیا کہ ''اس دور میں صرف پان والا ایماندار ہے‘ جو ہم سے پوچھ کر چونا لگاتا ہے‘‘۔
ابھی چار دن پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ہردلعزیز وزیراعظم واپس پاکستان تشریف لائے اور اس جمہوری دور میں بادشاہت کی یاد تازہ کر دی۔گوکہ سب کچھ شنید ہے مگر یہ سنی سنائی بھی ایسی ہے کہ حقائق کے قریب تر ہے اور دل و دماغ کو لگتی ہے۔ حکومت تو اس معاملے میں کچھ بتانے سے رہی‘ لہٰذا سب کچھ شنید اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے حقائق سے ہی اخذ کرنا پڑتا ہے۔ بوئنگ 777 جہازکو پی آئی اے کے فضائی بیڑے اور فضائی آپریشن سے نکال کر خصوصی طور پر وزیراعظم کو لانے کے لیے لندن بھیجا گیا۔ اب اس آپریشن میں آنے والے تعطل سے پی آئی اے کو کتنا نقصان ہوا؟ یہ بات نہ پی آئی اے انتظامیہ بتائے گی اور نہ ہی میرے دوست پرویز رشید بتانے کی جرأت کریں گے کہ ان کا کام بطور وزیر اطلاعات و نشریات حکومت وقت کا بھونپو بجانا اور میاں صاحب کی چاپلوسی کرنا ہے۔ تاہم ان دو کاموں سے بھی زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ عمران خان کی مذمت کی جائے‘ الحمدللہ وہ یہ کام پوری تندہی اور دل لگی سے کر رہے ہیں۔
جہاز کو شاہی وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے شایان شان بنانے کے لیے نئی سیٹیں لگائی گئیں۔ تزئین و آرائش کی گئی۔ اس کا خرچہ کتنا ہوا، کچھ پتا نہیں۔ سنا ہے جہاز کی پارکنگ فیس کی مد میں دو لاکھ اکسٹھ ہزار پائونڈ کرایہ ادا کیا گیا۔ سٹین سٹیڈ ایئرپورٹ یا گیٹ وک ایئرپورٹ جیسے کم پارکنگ فیس والے ہوائی اڈوں کی بجائے مہنگی پارکنگ والے لیوئن ایئرپورٹ کا انتخاب کیا گیا۔ بوئنگ 777 بڑا جہاز ہے اور اوسطاً چار سو مسافروںکو لانے لے جانے کی گنجائش کا حامل دو انجنوں والا لمبی پرواز کے لیے بنایا گیا ''وائڈ باڈی‘‘ ائرکرافٹ ہے۔ مختلف کلاسز پر مشتمل مختلف تعداد کی سیٹوں کے باعث اس کی مسافر برداری کی گنجائش تین سو چودہ سے لے کر چار سو اکیاون افراد پر مشتمل ہے؛ تاہم میں نے اس کا اوسط لیتے ہوئے چارسو مسافروں کا تخمینہ لگایا ہے۔ گویا شاہی سواری کے طفیل چار سو مسافروں کے آنے جانے کا تختہ ہوا۔ تین دن تک جہاز فلائٹ آپریشن سے باہر رہا‘ خسارے میں چلتی پی آئی اے کو مزید جھٹکا لگا۔ سوا دو لٹر فی سیکنڈ ہضم کرنے والے بوئنگ 777 کے کراچی سے لندن اور لندن سے لاہور تک کا سفر کم از کم سولہ گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس حساب سے اس جہاز نے شاہی خاندان کو ڈھونے کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار لٹر فیول خرچ کیا جس کی قیمت اٹھاسی روپے بتیس پیسے فی لیٹر کے حساب سے ایک کروڑ پندرہ لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ آپ خود اندازہ لگا لیں کہ صرف پٹرول‘ پارکنگ فیس‘ عملے کا خرچہ‘ جہاز کی تزئین و آرائش اور فلائٹ آپریشن سے اس جہاز کے نکل جانے کا نقصان ملا کر کل کتنا خرچہ ہوا ہو گا؟ اس شاہی سواری پر میرے اور آپ کے ٹیکسز کو کس برے طریقے سے اجاڑا گیا؟
میاں نوازشریف مدظلہ العالی نے اپنی موجودہ تقریباً سوا تین سالہ وزارت عظمیٰ کے دوران 65 غیر ملکی دورے کئے۔ ان دوروں پر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چونسٹھ کروڑ روپے خرچ ہوئے اور انہوں نے اپنے ہمراہ چھ سو اکتیس لوگوں کو اپنی ان یاترائوں میں شامل کیا اورکل ایک سو پچاسی دن پاکستان سے باہر گزارے۔ انہوں نے اپنی کل مدت جو مورخہ 13جولائی 2016ء تک تین سال اڑتیس دن یعنی کل سات سو اڑسٹھ دنوں میں سے ایک سو پچاسی دن ملک سے باہر گزارے۔ گویا ہر سوا چار یوم کے بعد ایک دن ملک سے باہر،کل چھ ماہ سے زائد عرصہ دیار غیر میںاور حاصل وصول؟ صفر ضرب صفر برابر صفر کے۔
صرف برطانیہ کے سترہ دورے‘ جس کا دورانیہ دو ماہ کے لگ بھگ ہے۔ ان سترہ دوروں میں برطانیہ گزارے گئے‘ چھپن دنوں میں سے تیس دن آفیشل اور چوبیس دن ٹرانزٹ کے ہیں۔ ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کا دور حکمرانی چونسٹھ سال پر مشتمل ہے۔ ملکہ الزبتھ آئینی طور پر کینیڈا کی حکمران ہیں‘ انہوں نے تاج برطانیہ کے زیرانتظام اپنی اس مملکت کے اس ساری مدت میں چوبیس دورے کیے ہیں۔ ادھر یہ عالم ہے کہ تین سال میں برطانیہ کے تیرہ دورے۔اس ساری بھاگ دوڑ کا نہ کوئی مقصد ہے اور نہ کوئی نتیجہ۔عالم یہ ہے کہ پاکستان آج اقوام عالم میں تقریباً اکیلا کھڑا ہے۔ چین نہ ہوتا تو اب تک بھارت نیوکلئیر سپلائرز گروپ کی رکنیت بھی لے چکا ہوتا۔ ہماری عالمی تنہائی اور سفارتی ناکامی کا یہ عالم ہے کشمیر میں ہونے والی حالیہ شہادتوں پر دنیا بھر میںکوئی ہمارے ساتھ ہم آواز نہیں اور وزیراعظم کو مسئلہ کشمیر کے بجائے پاناما لیکس کے ٹی آر اوز کی فکر ہے۔ کشمیر پر دنیاکو اپنا ہمنوا بنانے سے کہیں زیادہ فکر انہیں خورشید شاہ کو رام کرنے کی پڑی ہوئی ہے۔ ان کی ترجیحات لیڈروں جیسی نہیں‘ دکانداروں جیسی ہیں۔
ایک وقت تھا پاکستان کے حکمران باہر جاتے تھے تو کوئی عزت و توقیر ہوتی تھی۔ عالمی پریس اور رہنما اس کا نوٹس لیتے تھے۔ حکمران اپنی اوقات میں ہوتے تھے۔ ملکی دولت کو احتیاط سے خرچ کرتے تھے۔ مالی بدعنوانی اور بے اعتدالی اگر تھی بھی تو اتنی کم کہ نظر نہیں آتی تھی۔ اللے تللے ہرگز نہیں تھے۔ ہر چیز دائرہ کار میں تھی۔ ہم آمریت کے خلاف بڑے دھواں دھار قسم کے بیانات دیتے ہیں اور آمروںکو پاکستان کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘ لیکن انہوں نے بھی اس ملک کو اپنی چراگاہ نہیں بنایا تھا اور قومی خزانے کو اس بے دردی سے نہیں لٹایا تھا‘ جس بیدردی اور بے رحمی سے ہمارے جمہوری بادشاہ لٹا رہے ہیں۔
سابق صدر ایوب خان کے دورہ امریکہ پر ان کے نیول اے ڈی سی وائس ایڈمرل احمد تسنیم کی ایک یادداشت ملاحظہ کریں: ''میں صدر ایوب خان کے ساتھ اس دورہ امریکہ میں بطور نیول اے ڈی سی ہمراہ تھا۔ ہم پی آئی اے کی کمرشل فلائٹ کے ذریعے روانہ ہوئے جو تمام دیگر مسافروں سمیت بروقت منزل مقصود پر پہنچ گئی۔ اس پرواز کے دوران ایوب خان نے سب مسافروں سے ہاتھ ملایا۔ دوران پرواز جہاز کی فرسٹ کلاس کا ٹائلٹ دیگر مسافروں کے ساتھ استعمال کیا اور کسی بھی مسافر کو کسی بھی وجہ سے جہاز سے آف لوڈ نہ کیا گیا۔ اس دوران راستے میں لندن ٹرانزٹ کیا گیا اور آتے جاتے‘ دونوں بار صدر مملکت نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے ساتھ وقت گزارا۔ اس دورہ میں کل وفد بارہ کے لگ بھگ افراد پر مشتمل تھا جس میں ایک خاتون تھی جو صدر مملکت کی صاحبزادی (نسیم) تھیں۔ ہمراہ کوئی ملازمہ نہیں تھی۔ صدر کی بیٹی ہوٹل کی استری سے اپنے کپڑے خود استری کرتی تھی۔ صرف ایک ''بیٹ مین‘‘ (حوالدار عبدالسلام) وفد کے ہمراہ تھا۔ واشنگٹن سے باہر مختصر دورانیے کے سفر کے دوران صدر مملکت اپنا سارا کام خود سرانجام دیتے تھے؛ البتہ کبھی کبھار نہایت نرم لہجے میں مجھے مدد کے لیے کہتے تھے۔ وفد میں شامل افراد کو کہہ دیا گیا تھا کہ اگر وہ اپنی اہلیہ وغیرہ کو لے جانا چاہیں تو وہ اس کا سارا خرچہ اپنے پلے سے کریںگے۔ ذاتی سٹاف سمیت سب لوگ سختی سے ضابطہ اخلاق کی پابندی کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک دورے کے دوران ایک وی آئی پی کو اگلی پرواز سے واپس پاکستان بھیج دیا گیا کہ وہ دیر تک سوتا رہا تھا۔ حالانکہ یہ بظاہر ناقابل یقین لگتا ہے‘ لیکن یہ حقیقت ہے کہ صدر مملکت اس دوران خریداری کے لیے کہیں نہ گئے۔ چند ٹائیاں اور شرٹیں خریدی گئیں جو وفد کے ارکان نے اپنے لیے پہلے سے خریدیں۔ میرے سارے کیریئر کے دوران صدر مملکت کی خریداری کبھی بھی چند سو پائونڈ سے زیادہ نہ تھی‘‘۔ 
یہ اس آمر کا حال ہے جسے قوم نے مختلف القابات سے نوازا۔ تب پاکستانی خوشحال نہ تھے مگر پاکستان خوشحال تھا۔ آج یہ حال ہے کہ پاکستانی خوشحال ہیں مگر پاکستان بدحال ہے۔ یہ ذکر پاکستان کا تھا۔ ہمارے ہمسایہ ملک کا کیا حال تھا، ایک نظر اس پر بھی ڈال لیں۔ جواہر لال نہرو بھارت کا وزیراعظم تھا۔ اس کا سیکرٹری ایم او متھائی نہرو کے بارے میں اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب My days with Nehru میں لکھتا ہے:
''جب اندرا گاندھی وزیراعظم نہرو کے ہمراہ پہلی بار ملک سے باہر گئی تو اس کی جہاز کی ٹکٹ کی ادائیگی نہرو نے اپنی جیب سے کی؛ حالانکہ یہ ایک عام روایت تھی کہ سربراہ مملکت کے ساتھ جانے والی اس کی اہلیہ یا بیٹی جو ان کے ہمراہ بطور مددگار جاتی تھی کا خرچہ سرکار برداشت کرتی تھی‘‘۔ بھارت میں یہ روایت بعد میں اگر پوری طرح اس کے مطابق قائم نہ بھی رہی تو کم از کم وہاں کے حکمرانوں نے قومی دولت اور عوام کے ٹیکس کے ساتھ وہ سلوک کبھی نہ کیا جو ہمارے حکمرانوں نے روا رکھا اور ہر آنے والا دن پہلے سے بری روایات کے ساتھ طلوع ہوا۔ آج بھی آپ ہمارے شاہی حکمرانوں کا موازنہ نریندر مودی کے سرکاری دوروں سے کریں تو خرچے سے لے کر وفد کے ارکان کی تعداد اور پذیرائی سے لے کر دورے کے نتائج تک زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی روپے سے کم قیمت والا بھارتی روپیہ آج کہیں کا کہیں پہنچ چکا ہے۔ ستر کی دہائی میں ایک پاکستانی روپے کے ڈیڑھ بھارتی روپے ملتے تھے اور آج ڈیڑھ پاکستانی روپوں میں ایک بھارتی روپیہ ملتا ہے۔ آج ہم 23 ارب ڈالر کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر پھولے نہیں سما رہے جبکہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر 363 ارب ڈالر ہیں۔
میاں نوازشریف سے درخواست ہے کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے دوستی میں بے حال ہونے کے بجائے اس سے کچھ سیکھ لیں تو بہتر ہے۔ مثلاً ملک سے محبت‘ قومی دولت کی حفاظت اور اللّوں تللّوں سے پرہیز۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں