"KMK" (space) message & send to 7575

صحت‘ جلسے‘ تقریریں‘ الیکشن اور فیل شدہ بچے

ملک میں جمہوریت کی شکل و صورت اور میاں نواز شریف کی طبیعت کی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔ میاں نواز شریف کی طبیعت سے مراد ان کی صحت ہے وگرنہ ان کی دوسری والی طبیعت کا قوم کو اچھی طرح پتا چل چکا ہے کہ وہ شاہانہ طبیعت کے مالک ہیں۔ پہلے ان کی یہ شاہانہ طبیعت مغلیہ شہنشاہوں سے متاثر تھی‘ بعد میں جدہ جلا وطنی کے دوران اُن کو سعودی بادشاہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو وہ اس سے متاثر ہو گئے اور کیونکہ وہ آنکھوں دیکھ کر متاثر ہوئے تھے اس لیے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گئے۔ خیر اب اس عمر میں نہ وہ ٹھیک ہو سکتے ہیں اور نہ ہی اب ہمارے پاس اتنا وقت ہے کہ اس کار لاحاصل میں ضائع کریں‘ لہٰذا صبر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ؛تاہم اس وقت میرا ان کی طبیعت سے مراد ان کی صحت کے معاملات تھے۔
چار دن پہلے خبر آئی کہ ان کی ٹانگ میں انفیکشن ہو گیا ہے اور شدید بخار ہے۔ اس انفیکشن کے بارے میں جتنا سنا تھا اتنا ہی ہمیں معلوم ہے کہ ان کی صحت کے معاملات بھی تقریباً بیک ڈور ڈپلومیسی جیسے ہیں کہ کبھی لیک آئوٹ ہو گئے تو پتا چل گیا وگرنہ سب کچھ پردہ غیب میں ہے۔ انگلینڈ و دیگر یورپی ممالک وغیرہ میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ کسی بڑے وی آئی پی مریض کے بارے میں ہسپتال سے ڈاکٹر کوئی آفیشل قسم کا ہینڈ آئوٹ جاری کرتے ہیں اور وہی اس شخصیت کی صحت کے بارے میںفائنل تصور ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ ٹائپ چیزیں میڈیکل سے متعلق باتوں میں خواہ مخواہ کی دخل اندازی نہیں کرتیں۔ ہسپتال انتظامیہ بیان جاری کرتی ہے اور اللہ اللہ خیر سلا۔ تاہم میاں صاحب کے معاملے میں ایسا کچھ نہیںہوا‘ لہٰذا جتنے منہ اتنی باتیں؛ تاہم ہمیں ان باتوں سے کیا لینا دینا؟ وارثان کا فرمانا ہے کہ اوپن ہارٹ سرجری ہوئی ہے۔ ہم نے مان لیا۔ ہمارا کیا جاتا ہے؟ صحت ہر بندے کا ذاتی معاملہ ہے‘ وہ اس بارے میں جو مرضی کہتا پھرے، کسی کا کیا جاتا ہے؟ ہم تو ہر نماز میں ہر بیمار کی صحت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس من جملہ دعا کے طفیل میاں نواز شریف کو بھی صحت عطا فرمائے‘ مگر دعا اپنی جگہ اور تجسس اپنی جگہ۔ اب ہم اپنی تمام تر نیک نیتی اور خلوص کے باوجود اپنے اس تجسس کا کیا کریں جو اس بارے دل میں پیدا ہوتا ہے؟
لندن روانگی برائے علاج سے قبل بھی میاں صاحب نے ایک ہی دن میں کئی جلسے''پھڑکائے‘‘ تو اس عاجز کے دل میں تب بھی تجسس نہیں بلکہ فکر مندی پیدا ہوئی تھی کہ ان حالات میں جب ان کا علاج ملکی ہسپتالوں میں ممکن نہیں اورکوئی ڈاکٹر اس قابل نہیںکہ ان کا چیک اپ کر کے بتائے کہ اصل معاملہ کیا ہے‘ میاں صاحب طوفانی دورے کر رہے ہیں۔ چھوٹے سے ہیلی کاپٹر میں سفر کر رہے ہیں۔ اس عاجز کو خود توکبھی ہیلی کاپٹر میں سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا مگر جنہوں نے یہ سفر کیا ہے ان کے بیانات اس سفر کے بارے میں خاصے حوصلہ شکن اور مایوس کن تھے۔ انہوں نے بتایا کہ سوائے جلدی کے اس سفر میں کوئی قابل ذکر بات نہ تھی بلکہ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ سفر خاصا مایوس کن اور بڑی حد تک غیر آرام دہ تھا؛ تاہم اس سفر کا سارا چارم یہ ہے کہ بندہ خود کو وی وی آئی پی محسوس کرتا ہے اور اگر یہ سفر کسی وی وی آئی پی کے ساتھ کیا جا رہا ہو تو بندے کو ذرہ اپنی ''ٹوہر‘‘ کا احساس بھی ہوتا ہے۔ ایسے دو چار انٹرویوز کے بعد کم از کم یہ پتا ضرور چل چکا تھا کہ ہیلی کاپٹر کا سفر کوئی آرام دہ قسم کی چیزی نہیں‘ اس لیے فدوی فکر مند ہونے پر مجبور تھا کہ میاں صاحب اپنی شدید ناسازی طبع کے باوجود ایک غیر آرام دہ سواری میں سفر کے بعد دو تین جلسہ ہائے عام وغیرہ سے خطاب کی مشقت کیسے برداشت کریں گے؟ خیر میاں صاحب نے جمہوریت کی سربلندی کی خاطر یہ ساری مشقت بھی کسی نہ کسی طرح برداشت کر لی لیکن اس کا نقصان پوری قوم کو اٹھانا پڑا اور ان مشقت بھرے جلسوں سے وہ اس طرح تھک گئے کہ انہیں لندن جانے کے لیے پورا جہاز اپنے لیے مختص کرنا پڑا اور براہ راست لمبی پرواز کی ممکنہ تھکاوٹ سے بچنے کی غرض سے براستہ ماسکو والا لمبا روٹ اختیار کرنا پڑا۔
یہی حال واپسی کا تھا۔ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد اگر وہ آرام شارام کر لیتے تو وہ اس نقاہت کا شکار ہو کر ایک بار پھر پورا بوئنگ777 اپنے لیے مختص نہ کرواتے جو انہیں ہیرڈز وغیرہ میں شاپنگ کرنے سے ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے اتنے بڑے آپریشن کے بعد آرام نہ کرنے کا نتیجہ پوری قوم نے اپنے ٹیکس کی بربادی کے ذریعے بھگتا۔ پی آئی اے کو علیحدہ نقصان اٹھانا پڑا۔ اب واپسی کے بعد بھی ان کی طبیعت کا تلون ختم ہونے میں نہیں آ رہا اور محض چار دن پہلے وہ شدید انفیکشن کا شکار تھے اور افواہ اڑی ہوئی تھی کہ وہ دوبارہ لندن اپنے چیک اپ کے لیے جا رہے ہیں۔ ابھی اس افواہ نما خبر پر یا خبر نما افواہ پر گرد بھی نہیں پڑی تھی کہ میاں صاحب مظفر آباد جا پہنچے اور پھر وہاں ایک عدد جلسہ ''پھڑکا‘‘ دیا۔ مجھے فکر صرف اس بات کی ہے کہ اس ناسازی طبع کے دوران یہ مشقت قوم کو ایک بار پھر چالیس پچاس کروڑ میں نہ پڑ جائے۔ تاہم سید بادشاہ کا خیال مجھ سے یکسر مختلف ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ میاں صاحب یہ پرمشقت کام کر ہی اس لیے رہے ہیں کہ وہ ایک بار پھر لندن روانہ ہو سکیں۔ تاہم مجھے سید بادشاہ کی بات سے اتفاق نہیں ہے کہ اُن کا کام صرف شکوک وشبہات پھیلانا اور شرفاء کو گمراہ کرنا ہے۔
میاں صاحب نے مظفر آباد کے جلسہ میں فرمایا کہ ''دو سیٹیں لینے والے تحریک بھی ایسی ہی چلائیں گے‘‘۔ ایمانداری کی بات ہے کہ یہ انداز گفتگو انتہائی اشتعال انگیز ہے اور کم از کم کسی ملک کے حکمران کے شایان نہیں‘ بلکہ کسی پٹے ہوئے اپوزیشن رہنما کی زبان لگتی ہے۔ اللہ نے آپ کو کامیابی دی ہے‘ آپ اس پر رب العزت کا شکر ادا کریں‘ انکساری پیدا کریں اور پھلدار درخت کی مانند جھک جائیں۔ مگر تکبر کا یہ عالم ہے کہ دو سیٹوں کا طعنہ مار کر مخالف کو باقاعدہ دعوت مبارزت دے رہے ہیں اور اکسا رہے ہیں کہ اگر کچھ نہیں بھی کرنا تو کر کے دکھائیں۔ میں یہ شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سردار بلدیو سنگھ آف تلونڈی سابو کے گھر اس کا ہمسایہ چار پائی مانگنے آیا اور کہنے لگا کہ سردار جی ہمارے گھر پر وہنے آئے ہیں اور ہمیں ایک چارپائی چاہیے۔ سردار بلدیو سنگھ کہنے لگا‘ بلونت سنگھ! ہمارے گھر چار ہی چارپائیاں ہیں اور چار ہی بندے ہیں۔ ایک میں‘ ایک میری گھر والی‘ ایک میرا بیٹا اور ایک میری بیٹی۔ ہمارے پاس فالتو چارپائی نہیں ہے۔ بلونت سنگھ کہنے لگا، سردار کوئی بات نہیں‘ میں کسی اورسے مانگ لیتا ہوں۔ بلونت سنگھ پلٹ کر جا رہا تھا کہ پیچھے سے سردار بلدیو سنگھ نے اسے آواز دے کر روکا اور کہنے لگا بلونت سنگھا! ہمارے پاس کوئی چارپائی فالتو نہیں ہے لیکن اگر ہمارے پاس فالتو ہوتی بھی تو ہم نے تم کو دینی نہیں تھی۔ میاں نواز شریف کا بھی یہی حال ہے۔ پہلے ان کے دو چار وزیر اس کام پر لگے ہوئے تھے‘ اب وہ خود بھی اس کام پر لگ گئے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے انہیں خلاف معمولی والی کامیابی عطا کی ہے۔ آزاد کشمیر میں یہ روایت ہے کہ وہاں اسی کی حکومت بنتی ہے جس کی اسلام آباد میں حکومت ہو؛ تاہم مسلم لیگ ن کو جتنی بڑی اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کا موقع ملا ہے وہ بڑی غیر معمولی ہے۔
تاہم اگر بات دو سیٹوں اور تین سیٹوں کی کی جائے تو شماریات کے مطابق صورت حال اتنی حوصلہ شکن نہیں ہے جتنی میاں صاحب اپنے جلسہ عام میں بیان کر رہے ہیں۔ اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد ایک اور چیز ہے اور کل ووٹروں کی تعداد اور ان میں سے سڑکوں پر آنے والوں کی تعداد ایک بالکل ہی مختلف چیز ہے۔ آزاد جموں کشمیر کی کل اکتالیس سیٹوں میں سے مسلم لیگ ن نے اکتیس سیٹیں حاصل کی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تین‘ مسلم کانفرنس نے تین‘ تحریک انصاف نے دو اور دو سیٹیں دیگر امیدواروں نے حاصل کیں۔ اکتیس سیٹیں جیتے والی مسلم لیگ ن نے کل سات لاکھ انتالیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے تین لاکھ باون ہزار اور تحریک انصاف نے دو لاکھ دس ہزار ووٹ حاصل کئے ہیں یعنی اکتیس سیٹوں والی پارٹی کے کل ووٹ سات لاکھ انتالیس ہزار اور پانچ سیٹوں والی دو پارٹیوں نے پانچ لاکھ باسٹھ ہزار ووٹ لیے ہیں۔
غالباً میاں صاحب نے حساب کرنے سے پہلے تقریر فرما دی کہ دو سیٹوں والے کیا تحریک چلائیں گے اور کیا دھرنا دیں گے؛ تاہم دو سیٹوں والی پارٹی کے ووٹ دو لاکھ دس ہزار ہیں۔ یاد رہے کہ سڑکوں پر ووٹر اور حامی آتے ہیں‘ اسمبلی کی سیٹیں نہیں آتیں۔
اس حساب کے تحت ایک دوست نے کمنٹ کیا کہ یہ جمہوریت ہے کہ جس کے طفیل سات لاکھ انتالیس ہزار ووٹ اکتیس سیٹیں بناتے ہیں اور دو لاکھ دس ہزار ووٹوں سے دو سیٹیں ملتی ہیں یعنی مسلم لیگ ن کو فی سیٹ اوسطاً تئیس ہزار آٹھ سو اڑتیس ووٹ ملے ہیں اور تحریک انصاف کو جیتی ہوئی دو سیٹوں پر اوسطاً ایک لاکھ پچپن ہزار پانچ سو ووٹ پڑے ہیں۔ اوپر دیے گئے حساب کتاب پر ایک دوست نے بڑی جلی کٹی پوسٹ کی ہے کہ اگر کے پی کے کے کسی سکول کی کلاس میں فیل ہونے والے گیارہ بچے یہ کہیں کہ ان کے نمبر جمع کیے جائیں تو وہ کلاس میں فرسٹ آنے والے بچے سے زیادہ بنتے ہیں تو وہ ان جمع شدہ نمبروں کے طفیل فرسٹ آنا تو ایک طرف پاس بھی نہیں ہو سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں