"KMK" (space) message & send to 7575

گدھوں کے وزیر بننے کا تاریخی حوالہ

ایک زمانہ تھا ادارے ہوتے تھے۔ ادارے تب ہوتے تھے جب حکومت ہوتی تھی۔ حکومت تب ہوتی تھی جب حکمران اہل ہوتے تھے۔ حکمران تب اہل ہوتے تھے جب ان کے دل میں قوم کا درد ہوتا تھا۔ قوم کا درد تب ہوتا تھا جب اپنی ذات کے مقابلے میں ملک و قوم کا مفاد عزیز ہوتا تھا۔ یہ تب کی بات ہے جب حکمرانوں کی جگہ پر تاجر پیشہ اور کاروباری ذہنیت کے لوگ ہم پر مسلط نہیں ہوئے تھے۔ اب آوے کا آوا ہی بگڑ گیا ہے۔ کرپشن اب ہمارے ہاں کوئی مسئلہ نہیں۔ برادر عزیز شوکت اشفاق نے ایک ادارے میں کرپشن کا کافی بڑا سکینڈل بے نقاب کیا۔ اس نے اپنے اس کارنامے پر مبنی اخبار کی خبر کا تراشہ فیس بک پر اپ لوڈ کیا۔ تین دن میں سات ''لائکس‘‘ ملے۔ ایک بے وزن شعر پوسٹ کیا دو گھنٹوں میں سینتالیس ''لائکس‘‘ آئے۔ ملتان سے لاہور جاتے ہوئے ساہیوال کھانا کھانے کے لیے اپنے دوست کے ہوٹل پر رُکے تو شوکت اشفاق نے اپنا سٹیٹس اپ ڈیٹ کیا کہ ہم ساہیوال فلاں ہوٹل میں ہیں۔ پانچ منٹ میں اکیس لائکس ملے۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیں کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں؟
حکومتی خرابیوں کا آغاز کب ہوا، یہ ایک بحث طلب مسئلہ ہے اور اس پر اتنی آرا ہیں کہ کسی نتیجے پر پہنچنا ممکن ہی نہیں؛ تا ہم چھوٹی موٹی خرابیوں کا ذکر تو ہر دور میں ملتا ہے۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور حکمرانوں کی غلطیوں کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ بذات خود حکمرانی کی تاریخ۔ تا ہم پہلے یہ ہوتا تھا کہ اگر حاکم جاہل اور نالائق ہے تو کم از کم اپنے وزیر لائق فائق رکھتا تھا۔ اکبر مغلیہ سلطنت کا سب سے کم تعلیم یافتہ بادشاہ تھا، مگر وہ کم از کم جاہل نہیں تھا کہ اس نے ابو الفضل، فیضی، عبدالرحیم خان خاناں، ٹوڈرمل اور اسی قبیل کے اور نابغۂِ روزگار عالم فاضل اور قابل ترین لوگ اپنے اردگرد اکٹھے کر رکھے تھے۔ اس کی سلطنت میں کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہ ہوا۔ خرابی تب شر وع ہوتی ہے جب نالائقوں اور جاہلوں کو حکمرانی مل جاتی ہے۔ جہالت ایک رویے کا نام ہے اور اس کا تعلیم سے قطعاً کوئی تعلق نہیں۔ یہ خرابی مزید بڑھ جاتی ہے جب وزیر بھی جاہل بھرتی ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ خرابی اپنے عروج پر تب پہنچتی ہے جب وزیروں کے بعد مشیر بھی جاہل لوگ منتخب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
آپ اس قوم کی بدقسمتی کا اندازہ کریں جس کے حکمران جاہل ہوں، ان کے وزراء جاہل ہوں اور ان کے مشیر بھی جاہل ہوں۔ جمہوریت میں جاہل حکمران ہماری اپنی ذاتی غلطیوں سے ہم پر مسلط ہوتے ہیں۔ وہ جہالت کے دائرے کو مزید پھیلاتے ہوئے چن چن کر نالائق لوگ وزیر لگائے جاتے ہیں کہ جمہوریت میں وزارت ہمارے ہاں قابلیت یا اہلیت کی بنا پر نہیں ‘وفاداری اور سیاسی دباؤ کے زور پر لی اور دی جاتی ہے۔ چلیں یہ سیاسی مجبوری سہی مگر اس پر ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کو پورے ملک میں بعض اوقات ایک آدمی بھی ایسا نظر نہیں آتا جو کسی اہم وزارت کا اہل ہو، لہٰذا وہ یہ اہم وزارتیں اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور اپنی نالائقی کو پورے زور و شور سے دیگر محکموں میں بھی آزماتے ہیں۔ وزیر خزانہ سمدھی کو بنا دیا جاتا ہے اور وزارت خارجہ اپنی واسکٹ کی جیب میں رکھ لی جاتی ہے۔ پنجاب میں یہ عالم ہے کہ سوائے رانا ثناء اللہ اور رانا مشہود کے کسی وزیر کا نام کسی کو نہیں آتا۔ رانا ثناء اللہ اپنی حاضر دماغی، تیزی طراری، حوصلہ مندی اور اپنے کام پر گرفت کی وجہ سے اور رانا مشہود اپنی وڈیو ٹیپ کی وجہ سے اخبارات کی زینت بنے رہتے ہیں۔ اگر حکومت کے پاس رانا ثناء اللہ اور رانا مشہود کے پاس اپنی شہرہ آفاق وڈیو ٹیپ نہ ہوتی تو پنجاب والوں کو اپنے ایک بھی وزیر کا نام نہ آتا۔ یہاں ہر وزارت خادم اعلیٰ کے پل کے نیچے سے گزرتی ہے اور حمزہ شہباز پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔
جب حکمرانوں کو یہ احساس ہوا کہ وزیر وغیرہ حکومت کے لیے نہیں بلکہ حکمرانی کے لیے ضروری ہیں اور ان کی تعیناتی کا تعلق عوام کے مسائل سے نہیں بلکہ جمہوریت سے وابستہ مسائل سے جڑا ہوا ہے تو فارورڈ بلاک وغیرہ کا قلع قمع کرنے، مختلف گروپوں کو احسان مند کرنے اور ذاتی دوستوں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے وزارتیں دینے کا رواج پڑ گیا تا ہم حکومت کے معاملات کو درست رکھنے کے لیے غیر منتخب لیکن اہل لوگوں کو مشیر بنا کر نظام حکومت کو چلانے کا ڈول ڈالا گیا۔ بعد میں اپنے غیر منتخب عزیزوں، شکست خوردہ پیارے اُمیدواروں اور زور آوری سے حصہ لینے والوں کو بھی اہلیت وغیرہ سے مستثنیٰ قرار دے کر مشیر بنانے کا رواج پروان چڑھا۔ کس کس کا نام لیں؟ ایک پوری بٹالین ہے۔ ہر حکمران کی اپنی اپنی بٹالین‘ جن کا کام صرف اور صرف مال پانی بنانا تھا۔ ڈاکٹر عاصم اس کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ آپ اس لفظ ''ادنیٰ‘‘ کا کوئی اور مفہوم نہ نکالیں۔
ایک بادشاہ کے پاس اس کا بچپن کا دوست آیا اور برسردربار بادشاہ سے اس کے بچپن کی باتیں کرنے لگا۔ بادشاہ کو اندازہ ہوا کہ یہ خبیث کافی منہ پھٹ ہے اور کوئی نہ کوئی بکواس کرے گا‘ لہٰذا وہ اسے تخلیے میں لے گیا اور کام پوچھا۔ اس نے اپنے نالائق بیٹے کے لیے دربار میں کسی عہدے کی درخواست کی۔ بادشاہ نالائق ضرور تھا مگر جاہل نہیں تھا‘ اس نے اپنے بچپن کے دوست کو ایک جاگیر عطا کی اور چلتا کیا۔ بادشاہ کو اندازہ تھا کہ جاگیر دینے سے امور سلطنت پر فرق نہیں پڑے گا مگر جاہل وزیر یا مشیر اس کی حکومت کا بھٹہ ضرور بٹھا دیں گے۔ ہمارے جمہوری بادشاہ اچھی حکمرانی کے اس نکتہ سے ابھی تک آگاہ نہیں ہو سکے۔
ایک نالائق شخص وزیر تعمیرات بن گیا۔ وہ اتنا نالائق تھا کہ اسے رشوت وصول کرنے کا بھی سلیقہ نہیں تھا۔ اس کے پاس ایک ٹھیکیدار آیا اور ایک فائل پر منظوری کے عوض بیس لاکھ روپے دینے کا وعدہ کیا۔ وزیر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ‘ جھٹ سے فائل منگوائی اور اس پر Approvedلکھ دیا۔ اب فائل منظور ہو گئی مگر ٹھیکیدار کہیں نظر ہی نہیں آیا۔ دو چار دن انتظار کرنے کے بعد وزیر بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کرے؟ اسی اثنا میں اس کے چپڑاسی نے اپنے وزیر کا اُترا ہوا چہرہ اور طبیعت کی بے کلی دیکھ کر اندازہ لگایا کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔ وہ وزیر کے پاس آیا اور رازداری سے کہنے لگا‘ حضور! ہوں تو میں چپڑاسی مگر کافی عرصہ سے یہ وزارت میں ہی چلا رہا ہوں۔ آپ مجھے اپنی پریشانی کی وجہ بتائیں‘ میں کوئی حل نکال دوں گا۔ وزیر نے بتایا کہ اس طرح میں نے فائل اپروو کر دی ہے مگر اب ٹھیکیدار ہاتھ نہیں آرہا۔ چپڑاسی نے کہا فائل واپس منگوا لیں۔ وزیر نے کہا اب اس پر کٹنگ کس طرح کروں؟ چپڑاسی نے کہا جناب پریشان نہ ہوں‘ کوئی کٹنگ نہیں ہو گی۔ فائل واپس آئی۔ چپڑاسی نے کہا آپ اس Approved سے پہلے Not لکھ دیں۔ مقصد پورا ہو جائے گا اور کوئی کٹنگ وغیرہ بھی نہیں ہو گی۔ وزیر نے ایسا ہی کیا۔ اب ٹھیکیدار کو پتہ چلا تو بھاگا بھاگا آیا اور بیس لاکھ روپے کا بریف کیس ہاتھ پکڑایا۔ اب وزیر پھر پریشان ہو گیا اور پھر چپڑاسی کو بلایا کہ اب کیا کروں؟ چپڑاسی بولا جناب عرصہ ہوا یہ وزارت میں ہی چلا رہا ہوں۔ آپ نے فائل پر جہاں Not لکھا ہے وہاں ''ٹی‘‘ کے بعد ''ای‘‘ لگا دیں۔ یعنی Not کو Note بنا دیں۔ اب یہ ہو گیا Note Approved۔ وزیر نے ایسا ہی کیا اور من کی مراد پائی۔ شنید ہے کہ بہت سے محکمے وزراء نہیں چپڑاسی چلا رہے ہیں کہ ان کا تجربہ اور آئی کیو بہت سے وزراء سے بہتر اور زیادہ ہے واللہ اعلم بالصواب۔
ابک بادشاہ نے اپنے بہنوئی کی سفارش پر ایک شخص کو موسمیات کا وزیر لگا دیا۔ ایک روز بادشاہ شکار پر جانے لگا تو روانگی سے قبل اپنے وزیر موسمیات سے موسم کا حال پوچھا ۔وزیر نے کہا کہ موسم بہت اچھا ہے اور اگلے کئی روز تک اسی طرح رہے گا۔ بارش وغیرہ کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ بادشاہ اپنے لاؤ شکر کے ساتھ شکار پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں بادشاہ کو ایک کمہار ملا۔ اس نے کہا حضور! آپ کا اقبال بلند ہو‘ آپ اس موسم میں کہاں جا رہے ہیں؟ بادشاہ نے کہا شکار پر۔ کمہار کہنے لگا‘ حضور! موسم کچھ ہی دیر بعد خراب ہونے اور بارش کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔ بادشاہ نے کہا‘ ابے او برتن بنا کر گدھے پر لادنے والے‘ تم کیا جانو موسم کیا ہے؟ میرے وزیر نے بتایا ہے کہ موسم نہایت خوشگوار ہے اور شکار کے لیے نہایت موزوں اور تم کہہ رہے ہو کہ بارش ہونے والی ہے؟ بادشاہ نے ایک مصاحب کہا کہ اس بے پر کی چھوڑنے والے کمہار کو دو جوتے مارے جائیں۔ بادشاہ کے حکم پر فوری عمل ہوا اور کمہار کو دو جوتے نقد مار کر بادشاہ شکار کے لیے جنگل میں داخل ہو گیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ گھٹا ٹوپ بادل چھا گئے۔ ایک آدھ گھنٹہ بعد گرج چمک شروع ہوئی اورپھر بارش۔ بارش بھی ایسی کہ خدا کی پناہ۔ طوفان بادوباراں۔ ہر طرف کیچڑ اور دلدل بن گئی۔ بادشاہ اور مصاحب کو سارا شکار بھول گیا۔ جنگل پانی سے جل تھل ہو گیا۔ ایسے میں خاک شکار ہوتا۔ بادشاہ نے واپسی کا سفر شروع کیا اور برے حالوں میں واپس محل پہنچا۔ واپس آکر دو کام کیے۔ پہلا یہ کہ وزیر موسمیات کو برطرف کیا اور دوسرا یہ کہ کمہار کو دربار میں طلب کیا۔ اسے خلعت فاخرہ عطا کی اور وزیر موسمیات بننے کی پیشکش کی۔ کمہار ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا‘ حضور! کہاں میں جاہل اور ان پڑھ شخص اور کہاں سلطنت کی وزارت۔ مجھے تو صرف برتن بنا کر بھٹی میں پکانے اور گدھے پر لاد کر بازار میں فروخت کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں آتا۔ مجھے تو موسم کا رتی برابر پتہ نہیں۔ ہاں البتہ یہ ہے کہ جب میرا گدھا اپنے کان ڈھیلے کر کے نیچے لٹکائے تو اس کا مطلب ہے کہ بارش ضرور ہو گی۔ یہ میرا تجربہ ہے اور کبھی بھی میرے گدھے کی یہ پیش گوئی غلط ثابت نہیں ہوئی۔ بادشاہ نے کمہار کے گدھے کو اپنا وزیر موسمیات مقرر کر دیا۔ سنا ہے کہ گدھوں کو وزیر بنانے کی ابتدا تب سے ہوئی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں