"KMK" (space) message & send to 7575

عوام کی قسمت میں اب بھی وہی کچھ ہے

لاہور میں جو ہوا اسے الفاظ میں بیان کرنا کسی طور ممکن نہیں۔ تاہم یہ اندوہناک سانحہ ہم پاکستانیوں کے لیے نیا ہرگز نہیں ہم گزشتہ کئی عشروں سے بم دھماکوں اور دہشت گردی کے دوسرے حربوں کا شکار ہیں۔ تلخ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ہم اب اس کے تقریباً عادی ہو چکے ہیں تاہم یہ سانحہ تھوڑا مختلف اس لیے لگتا ہے کہ گزشتہ اڑھائی سال سے جاری آپریشن ضرب عضب کے باعث دہشت گردوں کی کارروائیوں میں کمی واقع ہو گئی تھی اور اب کراچی سے لے کر وزیرستان تک معاملات کافی حد تک کنٹرول میں آ گئے تھے ایسے میں لاہور کا دلدوز سانحہ تھوڑا غیرمتوقع تھا۔
ملک خالد کا فون آیا اور وہ چھوٹتے ہی کہنے لگا یہ واقعہ دراصل دہشت گردوں کی کامیابی نہیں بلکہ معاملات کو سلجھانے اور درست رکھنے میں ہماری ناکامی کے باعث ہوا ہے۔ جو لوگ یہ فیصلہ نہ کر سکیں کہ فوجی عدالتیں برقرار رہنی چاہئیں یا ختم ہو جانی چاہئیں۔ بھلا وہاں ایسے واقعات نہیں ہونگے تو اورکیا ہو گا؟ جہاں ایک طرف دہشت گرد ہوں اور دوسری طرف ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارے آپس میں برسر پیکار ہوں اور معاملات حالت جنگ جیسے ہوں وہاں روٹین کے معاملات سے ہٹ کر ہونے والے عملی اقدامات کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں تو یہی ہو گا جو ہوا ہے۔ بھلا حالت جنگ میں موجودہ فرسودہ بیکاراورعملی طور پر متروک نظام قانون اور عدالتی نظام کیا کر سکتا ہے؟ جہاں نظام عدل انہی عدالتی موشگافیوں‘ گواہوں کی عدم موجودگی یا گواہوں کی طرف سے بوجہ خوف عدم تعاون کسی مجرم کوکیفر کردار تک پہنچانے میں مکمل ناکام ہو چکا ہو بھلا وہاں اگر فوجی عدالتیں قائم نہ کی جائیں تو اورکیا کیا جا سکتا ہے؟ جہاں دہشت گردوں سے دلی ہمدردی رکھنے والے پارلیمینٹ میں ہوں اور فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں مزید وقت دینے سے گریزاں ہوں وہاں دہشت گردوں کے حوصلے بلند نہیں ہونگے تو بھلا اور کیا ہو گا؟
ملک خالد کہنے لگا میری بات ممکن ہے تمہیں ہضم نہ ہو اور تم اس سے اتفاق نہ کرو۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کا سارا نظام جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد تبدیل نظر آ رہا ہے۔ کراچی کے حالات دوبارہ خرابی کی طرف مائل ہیں۔ نیوز لیکس والا معاملہ تقریباً دفن ہو چکا ہے اورماسوائے پرویز رشید کے استعفے کے جو اس سے اصولی بنیادوں پر نہیں بلکہ قربانی کے جذبے کے تحت لیا گیا تھا کہ اس استعفے سے حکومت پر وردی والوں کا دبائو کم کیا جا سکے اور کچھ نہیں ہوا۔اب شنید ہے طارق فاطمی پر اس خبر کے افشاء ہونے کا ملبہ ڈال کر اصل ملزموں کو بچایا جا رہا ہے ۔ راوی بالکل چین لکھتا ہے جو تھوڑا بہت چیک اینڈ بیلنس والا معاملہ تھا ختم ہو چکا ہے۔ ملک حالت جنگ میں تھا ایسے میں عسکری قائد کو تبدیل کرنے کی کوئی تُک نہیں تھی۔ ایک نہایت ہی زور دار آپریشن اپنی تکمیل کی طرف گامزن تھا اسے درمیان میں خراب کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا مگر اس وقت آپ لوگوں کو جمہوریت کے مروڑ اٹھ رہے تھے۔ آرمی چیف کی تین سالہ مدت ملازمت پر عملدرآمد کا بخار چڑھا ہوا تھا۔ بھلا اس مدت ملازمت میں توسیع سے جمہوریت کا کیا تعلق ہے؟ چیف آف آرمی سٹاف نے بہرحال حکومت کا ملازم ہی رہنا تھا۔ اب اسے اگر حکمران صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ چیف کو تبدیل کرنے پر قدرت رکھتے ہیںاُسے تبدیل کر دیں تو بھلا اس سے جمہوریت کی کون سی خدمت ہوئی؟ کیا دنیا بھر میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ حالت جنگ میں غیر معمولی اقدامات نہ اٹھائے جائیں؟ کمانڈروں کو دوران جنگ توسیع نہ دی جائے؟ حکمران بذات خود تمام ترجمہوری معاملات کوبرقرار رکھتے ہوئے جمہوریت کو پٹڑی سے اتارے بغیر دوران جنگ غیر معمولی اقدامات کرتے رہے ہیں۔ قوم نے ان کو اس موقع پر مکمل حمایت فراہم کی۔ امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ کی مثال سب کے سامنے ہے۔
روز ویلٹ پہلی بار1933ء میں امریکی صدر منتخب ہوا اور اس کی یہ مدت 1937ء میں ختم ہوئی۔ دوسری بار روز ویلٹ نے 1936کے انتخابات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی اور 1937میں اگلی ٹرم کے امریکی صدر کے طور پر حلف اٹھایا۔ امریکی آئین میں تب تک دوسری بار کے بعد صدر بننے پر پابندی والی بائیسویں ترمیم نہیں ہوئی تھی اسی دوران یعنی اس کی تیسری مدت صدارت کے دوران دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔1939ء کے اختتام سے چارماہ قبل شروع ہونے والی جنگ کے دوران ہونے والے الیکشن میں امریکی عوام نے اس جنگ میں روز ویلٹ کو مکمل سپورٹ فراہم کی اور اسے بے پناہ مارجن سے کامیابی ملی۔ روز ویلٹ کو 449الیکٹرول ووٹ ملے جبکہ اس کے مخالف امیدواروینڈل ولکی کو صرف بیاسی ووٹ ملے۔ اس دوران روز ویلٹ کی ڈیمو کریٹ پارٹی کو اڑتالیس میں سے اڑتیس نشستوں پر ہی کامیابی ملی۔ الیکشن بھی ہوئے۔ جمہوریت بھی مضبوط ہوئی۔ لوگوں نے دوران جنگ تبدیلی کے بجائے تسلسل کے حق میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ جنگ کے خاتمے کے بعد والے الیکشن میں جنگ کے فاتح امریکی صدر کو چوتھی بارصدر منتخب کر کے ایک نئی مثال قائم کی۔ اس سے امریکی جمہوریت کو نہ توکوئی نقصان ہوااورنہ ہی جمہوریت پسندوں نے اس پر ہاہا کار مچائی۔
دوسری مثال اس سے بھی زیادہ زبردست ہے اوربالکل تازہ ہے۔ امریکہ عراق اور افغانستان کی جنگ میں مصروف تھا۔ اسی دوران 2008ء کے امریکی الیکشن ہوئے امریکہ میں صدر جارج ڈبلیو بش 2001تا2009ء امریکہ کا صدر رہا۔ اپنی مدت صدارت کے دوران صدر بش نے 2006ء میں رابرٹ گیٹس کووزیردفاع جسے امریکی سیکرٹری ڈیفنس کہتے ہیں لگا دیا۔ امریکہ میں یہ عہدے حکومت وقت کے ساتھ آتے اور جاتے ہیں۔ بش کے نامزد وزیر دفاع رمز فیلڈ نے 2006ء میں استعفیٰ دے دیا۔ جارج بش کا تعلق ریپبلکن پارٹی سے تھا اس نے رابرٹ گیٹس کو نیا وزیر دفاع نامزد کر دیا۔ رابرٹ گیٹس کو اس نامزدگی کے بعد سینیٹ میں کنفرمیشن کے دوران پچانوے ووٹ ملے۔ دو سینیٹر غیر حاضر تھے اورمحض دو سینیٹرز نے اس کی مخالفت کی اور حیران کن بات یہ ہے کہ یہ دونوں سینیٹرز اس کی اپنی ریپبلیکن پارٹی کے تھے۔ تمام ڈیمو کریٹس نے اسے ووٹ دیا اور جمہوریت کو قطعاً کوئی خطرہ لاحق نہ ہوا۔ اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہوئی کہ 2009میں ری پبلیکن پارٹی الیکشن ہار گئی اور ڈیمو کریٹ صدر باراک اوباما اقتدار میں آ گیا۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ دو مختلف پارٹیوں کے صدور کے دور میں ایک ہی شخص نے وزیر دفاع کے فرائض سرانجام دیے۔ اوباما نے عراق اور افغانستان میں جاری جنگ میں امریکی پالیسیوں کے تسلسل کی خاطرنیا وزیر دفاع مقرر کرنے کے بجائے صدر بش کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو ہی اپنا وزیر دفاع نامزد کر دیا۔ اور وہ اگلے دو سال یہ فرائض سرانجام دیتا رہا۔ نہ امریکی جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوا اور نہ ہی امریکی صدر کو اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے کسی ڈرامے کا حصہ بننا پڑا۔
جون2014ء میں شروع ہونے والے آپریشن ضرب عضب کے پہلے دن سے لے کر اپنی مدت ملازمت کے آخری دن تک جنرل راحیل شریف نے شاید چند گھنٹے سونے کے لیے ہی روزانہ اپنے فوجی بوٹ اتارے ہوں گے وگرنہ وہ مستقل اپنی یونیفارم میں کسی نہ کسی محاذ پر ہی دکھائی دیا۔ مسلسل سفر سیالکوٹ بارڈر سے ورکنگ بائونڈری اوروزیرستان سے کوئٹہ تک کراچی سے گوادر تک وہ ہر جگہ موجود تھا۔ شہدا کے گھروں سے لے کر غازیوں کے ساتھ محاذ جنگ پر جتنا سفر اس نے ان اڑھائی سال میں کیا کسی مائی کے لال نے کم ہی کیا ہوگا جتنا وقت اس نے محاذ جنگ پر سپاہیوں کو حوصلہ دینے میں گزارا کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ جو جنگ اس نے شروع کی کسی میں اس کا حوصلہ ہی نہیں تھا۔ اب اس کے جاتے ہی سب کچھ پیچھے پلٹ رہا ہے۔ دہشت گردوں کے حوصلے بڑھ رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے ہمدردوں کے پر نکل رہے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ صرف ایک بندے کے ہونے اور نہ ہونے سے سارا منظر تبدیل ہو جاتا ہے۔
ملک خالد یہ کہہ کر خاموش ہو گیا۔ میں نے کہا اور کچھ ؟ وہ بولا فی الحال اتنا ہی کافی ہے۔ ویسے بھی میرا کریڈٹ ختم ہونے والا ہے لندن سے اتنی لمبی ہی کال ہو سکتی ہے مجھے کہنے لگا اس پر سوچنا اورصرف سوچنا ہی نہیں غور بھی کرنا۔ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ میرا خیال ہے اس کے اس تھیسس پر اوربھی بہت سے لوگ سوچ رہے ہوں گے تاہم حکمرانوں کو اطمینان ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کا نظام مکمل طورپر ان کی طرف جھک چکا ہے۔ عوام کی خیر ہے وہ پہلے بھی مرتے رہے ہیں اور اب بھی وہی مر رہے ہیں۔ ان کے لیے سب کچھ نہ تو نیا ہے اور نہ ہی حیران کن۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں