"KMK" (space) message & send to 7575

گمشدہ صفحات میں سے ملنے والا ایک صفحہ

ایک زمانہ تھا جب عام عدالتوں کے بارے میں بھی لوگ کچھ تبصرہ کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ وزیر مشیر اور دیگر سپریم کورٹ کو بھی نہیں بخشتے۔ اب اسے اقدار کی بربادی کہیں‘ عدالتوں کی بے توقیری قرار دیں یا بیان بازوں کی بہادری سمجھیں؟ میرا خیال ہے کہ اس کا نتیجہ آپ اپنی مرضی کے مطابق خود ہی نکال لیں کہ کسی نے دوسرے کی بات جب ماننی ہی نہیں تو کہنے کا فائدہ کیا؟
سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم کی ذات بارے گفتگو کرتے ہوئے وکیل صفائی نے فرمایا کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ اس جملے پر معزز فاضل جج نے ازراہ تفنن کہا: لیکن اس کتاب کے کئی صفحات غائب ہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اتنے ہلکے پھلکے انداز میں کہا گیا یہ جملہ بذات خود ایک پوری کتاب کے برابر تھا۔ میں نے تو اسے جی بھر کے انجوائے کیا‘ اور یہ جملہ تھا بھی ایسا جسے صرف انجوائے کیا جاتا مگر اللہ بھلا کرے میاں صاحب کی دفاعی بریگیڈ کا کہ اس کا ہر سپاہی ہمہ وقت ''چاند ماری‘‘ پر تلا ہوتا ہے‘ اور جس جملے کو انجوائے کیا جانا چاہیے تھا‘ اس پر بھی اپنی توپوں کو تیل لگا کر گولہ باری کرنی شروع کر دی۔
جیسے خواجہ سعد رفیق پر الزام ہے کہ ان کی ساری معیشت انعامی بانڈز پر چلتی رہی ہے‘ اسی طرح ان کی ساری سیاست اخبارات اور چینلز کے ذریعے چل رہی ہے۔ موصوف ریلوے سے زیادہ میاں صاحبان کی صفائی کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ جتنا تردد وہ میاں صاحب کی محبت میں عمران خان وغیرہ پر الزامات لگانے کا کرتے ہیں‘ اگر اس کا نصف وقت اور صلاحیتیں ریلوے پر صرف کرتے تو اس ادارے کا نقشہ ہی تبدیل ہو چکا ہوتا‘ لیکن نقشہ ایک طرف رہا ان سے تو ریلوے کے پھاٹک تک ٹھیک نہیں ہو سکے۔ ہم خواہ مخواہ بلور صاحب پر نااہلی اور نالائقی کا الزام لگاتے رہے ہیں۔ ایک جیسی کارکردگی پر بلور صاحب کو مطعون کرنے اور خواجہ سعد رفیق کو بری کرنے والوں کو اپنے دوہرے معیار پر شرم آنی چاہیے۔
خیر بات کچھ اور ہو رہی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔ خواجہ صاحب نے عدالت عظمیٰ کے معزز جج کے اس جملے کو انجوائے کرنے کے بجائے اپنے قائد کی عزت کا مسئلہ بنا لیا اور اس ساری دفاعی بریگیڈ کو اپنی عزت کی تو رتی برابر فکر نہیں؛ تاہم میاں نواز شریف کی عزت پر ذرا سا حرف آنا بھی گوارا نہیں‘ سو خواجہ صاحب نے اس جملے پراپنا سخت ردعمل ظاہر کیا اور ایک عدد دھواں دھار بیان داغ دیا ۔ ایسے بیانات کو حفظ ماتقدم والا دفاعی جملہ کہا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں نواز شریف کی زندگی کی کھلی کتاب میں سے شاید اتنے صفحات غائب نہیں جتنے خود خواجہ صاحب کی کتابِ زندگی سے غائب ہیں۔ اسی دوران خواجہ سعد رفیق نے ٹامی ٹٹو کی بارودی سرنگ کو دولتی مارنے والی حرکت سے متاثر ہو کر شیخ رشید کو بائونسر مار دیا اور کہا کہ '' شیخ صاحب کو میاں صاحب نے ہڈی نہیں ڈالی‘‘۔ ظاہر ہے جب شیخ صاحب کو کوئی بائونسر مارے تو اسے اس بائونسر پر لگنے والے چھکے کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ سو شیخ صاحب نے اگلے ہی روز ادھار نہ صرف اتار دیا بلکہ الٹا خواجہ صاحب پر قرض چڑھا دیا۔
شیخ رشید نے کہا کہ ابھی کل کی بات ہے چودھری ظہور الٰہی مرحوم جن گھروں میں زکوٰۃ بھیجتے تھے ان میں سعد رفیق کا گھر شامل تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اچھی بات نہیں اور مجھے کہنی بھی نہیں چاہیے تھی لیکن انہوں نے میرے بارے میں زبان ہی ایسی استعمال کی کہ مجبوراً مجھے یہ بات افشا کرنی پڑی‘ میرے پاس وہ لسٹ ہوتی تھی جن کو چوہدری ظہور الٰہی زکوٰۃ بھجوایا کرتے تھے۔ یہ چھوٹے لوگ ہیں۔ اس سیاست کا یہی المیہ ہے۔ شیخ رشید نے کہا کہ زکوٰۃ حاصل کرنے والوں کی فہرست ان کی ڈائری میں تھی‘ جو کہیں ادھر ادھر ہو گئی ہے اور مل نہیں رہی۔ اپنے اسی ٹی وی انٹرویو میں شیخ رشید نے خواجہ سعد کی سوسائٹی والے معاملے کا بھی ہلکا سا ذکر کیا۔ یہ دراصل وہ ابواب ہیں جو خواجہ سعد رفیق کی کتاب سے غائب ہیں۔
شیخ رشید کے بیان بارے شاہ جی کا فرمانا ہے کہ شیخ رشید ہر بار نئی پھلجھڑی لے کر آتا ہے اور وہ اپنا سیاسی تھیٹر روزانہ نئی قسط کی بنیاد پر چلاتا ہے۔ اسی لیے اس کا تھیٹر ابھی تک ہائوس فل چل رہا ہے۔ وہ ایسا سیاسی مداری ہے جو سارا تماشہ یکمشت نہیں دکھاتا۔ اگر وہ سارا تماشہ ایک ہی بار دکھا دے تو سارے تماشبین گھر چلے جائیں گے ۔ وہ اپنا ہر تماشہ ایک نئی بازی گری سے شروع کرتا ہے اور ایک سسپنس پر ختم کرتا ہے تاکہ اس کے سارے تماشائی خواہ اسے برا بھلا ہی کیوں نہ کہتے ہوں‘ اگلا تماشہ دیکھنے کے منتظر رہتے ہیں۔
شاہ جی کا فرمانا ہے کہ خواجہ سعد رفیق کی زندگی کی کتاب کا ہر باب دوسرے باب سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ بالکل ویسے ہی جڑا ہوا ہے جیسا مشفق خواجہ مرحوم نے ایک جگہ لکھا تھا کہ '' اس کتاب کا ہر باب دوسرے باب سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ مصنف کا نہیں‘ جلد ساز کا کمال ہے‘‘۔
کتابوں سے یاد آیا‘ ابھی پچھلے دنوں حکومت نے تمام سرکاری لائبریریوں کو میاں نواز شریف کی زندگی پر لکھی گئی کتاب''نواز شریف کی داستانِ حیات‘‘ خریدنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ یہ کتاب میاں نواز شریف کی سوانح عمری ہے مگر اسے سابق صدر ایوب خان کی ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ اور جنرل پرویز مشرف کی ''ان دی لائن آف فائر‘‘ کی طرح کسی سے لکھوا کر اپنے نام سے چھپوانے کے بجائے مصنف کے نام سے ہی چھپوایا گیا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ ایوب خان کی کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے الطاف گوہر نے لکھا اور جنرل مشرف کی کتاب کے بارے میں کہا گیا کہ اسے ہمایوں گوہر نے یعنی الطاف گوہر کے بیٹے نے لکھا۔ دونوں جنرلوں اور آمروں کی کتاب کے اصل مصنف باپ بیٹا تھے۔
میاں نواز شریف کی سوانح حیات پر مشتمل یہ کتاب اب تک پنجاب کی تمام سرکاری لائبریریوں کی زینت بن چکی ہو گی۔ میں نے بھی سوچا ک اس کتاب سے استفادہ کیا جائے‘ کیا خبر اس کتاب میں ہی ان غائب شدہ صفحات کا کچھ سراغ مل جائے۔ کسی دوست کے توسط سے کتاب حاصل کی اور پڑھنا شروع کی۔ یقین کریں پہلے ہی صفحے پر آنکھیں پھٹ گئیں اور چودہ طبق روشن ہو گئے۔ کتاب کا پہلا صفحہ حاضر خدمت ہے۔ پڑھیے‘ سر دھنیے اور مصنف کی پیش گوئی شناسی کی داد دیجیے۔
''آج سے سینکڑوں سال قبل ایک انتہائی برگزیدہ کشمیری بزرگ حضرت سید محمد علی شاہ گیلانی نے فارسی زبان میں ایک منظوم پیش گوئی مرتب کی تھی۔ اس بزرگ نے ملت اسلامیہ میں ہونے والے واقعات‘ برصغیر پاک و ہند میں ہونے والی تبدیلیوں‘ قیام پاکستان اور قائد اعظم محمد علی جناح کا ذکر جس انداز میں پیش کیا تھا وہ حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ اس بزرگ نے اپنی منظوم پیش گوئی میں ایک اسلامی سلطنت کے قیام‘ پھر اس کے اندر ہونے والے واقعات اور پھر اس قوم کے لیے ایک ایسے نوجوان کی قیادت کی پیش گوئی کی جو پنجاب سے ابھر کر پورے ملک پر چھا جائے گا اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پنجاب سے ایک شخص روایتی سیاست سے نفرت‘ جھوٹے نعروں سے اجتناب اور فریب وعدوں کے جال کاٹتا ہوا پورے ملک کے منظر پر یوں ابھرا کہ اس کے ساتھ سچائی کی روشنی‘ نئی صبح کی امید‘ محبت اور خلوص سے دھڑکنے والا دل‘ عوام کی خدمت کے نئے نئے خیالات بنتا ہوا ایک کشادہ اور روشن دماغ اوردیوار حبس میں دراڑیں ڈالتا ہوا وہ ایک ایک دل کی دھڑکن بن گیا۔ رہنمائی کے مسلمہ اصولوں پر کاربند اس نوجوان نے ملک میں نئی نئی سیاسی روایات کو جنم دیا۔ شرافت ‘ دیانت‘ تہذیب ‘ وقار اور سچائی کی ایک نئی لہر نے ملک کے سیاسی زعما میں ہلچل مچا دی۔ پیشہ ور سیاست کاروں کو اپنے مستقبل تاریک نظر آنے لگے...
میں نے ابھی صرف یہی پڑھا تھا کہ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ جونہی ان میں سے دو چار طبق اپنی جگہ پر واپس آتے ہیں میں مزید صفحات پڑھنے کی کوشش کروں گا؛ تاہم اس پہلے صفحے کو پڑھتے ہی مجھے اندازہ ہوا ہے کہ میاں نواز شریف کی کتابِ زندگی کے گم شدہ اور غائب صفحات میں سے کم از کم ایک صفحہ تو یہی ہے کہ یہ ہمیں اس سے پہلے کبھی نظر آیا۔ امید ہے اس کتاب میں سے ہی ان کی زندگی کی کتاب کے گمشدہ اورغائب دیگر صفحات بھی مل جائیں گے ؛تاہم گمان غالب ہے یہ ملنے والے صفحات وہ ہرگزنہیں ہوںگے‘ جن کی سپریم کورٹ کو تلاش ہے۔ ویسے بھی ایسی شاندار ادب عالیہ کی حامل کتاب میں پاناما پیپرز ‘ حدیبیہ ملز ‘ جدہ کی مل‘ قطری خط‘ دبئی میں سرمایہ کاری‘ آف شورکمپنیوں کی ملکیت‘ چھوٹو گینگ کی محیرالعقول کاروباری صلاحیتوں اور منی لانڈرنگ جیسے عامیانہ موضوعات کی کوئی گنجائش نکلتی بھی نہیں۔
قارئین! فی الحال آپ بھی میری طرح میاں صاحب کی کتابِ زندگی کے گمشدہ صفحات میں سے نو دریافت شدہ اسی ایک صفحے پر اکتفا کریں۔ اور باقی صفحات کی برآمدگی کا کام ان پر چھوڑیں جو اس کام کا معاوضہ لے رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں