"KMK" (space) message & send to 7575

اس بار معاملہ الٹ ہو گا

جسٹس علی باقر نجفی رپورٹ میں کیا ہے؟ باقی پبلک کی طرح مجھے بھی اس کا علم نہیں تھا لیکن پنجاب حکومت کا شکریہ! جس کے طفیل مجھے باقر نجفی رپورٹ سے نہ صرف آگاہی ہوئی بلکہ اس کے لب لباب کا بھی پتہ چل گیا۔ یہ رپورٹ یک رکنی تحقیقاتی کمیشن نے مرتب کی تھی اور یہ واحد رکن جسٹس علی باقر نجفی تھے۔ یہ رپورٹ بظاہر گزشتہ تین سال سے حکومت پنجاب دبا کر بیٹھی ہوئی ہے اور نہ اسے عام کرتی ہے اور نہ ہی اس یک رکنی جوڈیشل کمیشن کی سفارشات پر عمل کر رہی ہے۔
ویسے تو شنید ہے کہ یہ رپورٹ مع دیگر ضروری کاغذات ہوم ڈیپارٹمنٹ سے غائب ہو چکی ہے اور فی الحال مل نہیں رہی لیکن اس کے عام کرنے کی یہ وجوہات نہیں کیونکہ یہ رپورٹ اور کہیں ہو یا نہ ہو کم از کم جسٹس باقر نجفی کے پاس یقیناً موجود ہو گی اور حکومت کو اس محفوظ شدہ رپورٹ کو آگ لگوانے کاموقعہ ملنا بڑا مشکل ہے‘ ورنہ لاہور میٹرو‘ اسلام آباد میٹرو ‘سی پیک اور ملتان میٹرو کی طرح یہ رپورٹ بھی جل چکی ہوتی کہ کمبخت آگ ہراس کاغذ کے پیچھے ہے‘ جس کے پیچھے حکومت کے کسی پراجیکٹ کا گھپلا چھپا ہوا ہے۔
ملتان میں اسی طرح اینٹی کرپشن کے دفتر میں مرحوم سینیٹر ملک صلاح الدین ڈوگر کے خلاف تحقیقات شروع ہوئیں تو میونسپل کارپوریشن کے اس کمرے میں آگ لگ گئی‘ جہاں سارا ریکارڈ پڑا تھا۔ ظاہر ہے بغیر ثبوت آپ کسی کو سزا نہیں دے سکتے سو انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک صاحب کو بری کر دیا گیا۔ یہی صورتحال جناب آصف علی زرداری کے ساتھ پیش آئی۔ گواہ منحرف ہو گئے ثبوت غائب ہو گئے اور زرداری صاحب باعزت بری ہو گئے۔مبینہ طور پر لاہور میٹرو کا ریکارڈ جل گیا اور اس ریکارڈ کے ساتھ ہی گھپلوں کی ساری کہانیاں بھی تہہ خاک ہو گئیں۔ رہے نام اللہ کا۔
اسلام آباد کے عوامی مرکز میں لگنے والی آگ نے جہاں دو انسانی جانوں سے اپنا پیٹ بھرا وہیں سی پیک سے متعلق تقریباً پچاس ارب روپے کے منصوبوں اور اخراجات کا ریکارڈ بھی ہضم کر لیا۔ یہ سب اتفاقات ہیں۔ اب بھلا اتفاقات پر فانی انسانی کا کیا کنٹرول ہو سکتا ہے؟ ملتان میں ایم ڈی اے کے دفتر میں نہایت پراسرار طریقے سے آگ لگی اور اس نہایت سمجھدار اور عقلمند آگ نے باقی تمام فالتو ردی نما ریکارڈ کو صاف بخشتے ہوئے صرف وہیں لپکا مارا جہاں میٹرو کا ریکارڈ پڑا ہوا تھا۔ اب انتظامیہ لاکھ کہے کہ ریکارڈ محفوظ ہے کسی کو یقین نہیں کہ سرکار نے ہر اس چیز کے بارے میں سچ بولنے سے مکمل توبہ کر رکھی ہے جس سے اسے مستقبل میں کسی قسم کے خطرے یا نقصان کا شائیہ بھی ہو سکتا ہے۔ یہ پردہ تب اٹھے گا جب اس ریکارڈ کی کبھی ضرورت پڑے گی۔ اللہ جانے یہ ضرورت کب پڑتی ہے اور پڑتی بھی ہے یا نہیں۔
ملتان میٹرو کے بارے میں ایک خبر بڑے زوروں سے اٹھی کہ اس پراجیکٹ سے اربوں روپے ایک ایسی کمپنی کو بطور کمیشن چین بھیجے گئے ہیں جو اس پراجیکٹ میں خود تو عملی طور پر کام نہیں کر رہی تھی‘ مگر اس نے کام لے کر آگے کسی کو ٹھیکے پر دے دیا تھا اور زیادہ رقم پر خود ٹھیکہ لے کر کم قیمت پر آگے Subletکر دیا تھا۔ سب لیٹ سے مراد ''کرایہ در کرایہ ‘‘یا ''ٹھیکہ در ٹھیکہ‘‘ ہے۔ اس خبر پر بڑی کھپ مچی۔ کسی نے کہا کہ یہ کمپنی سرے سے ہی فراڈ تھی۔ ایک دوست کا کہنا تھا کہ یہ کمپنی بلیک لسٹ ہے ‘اس کے باوجود اسے کام دیا گیا تھا۔ حکومت کا مؤقف بالکل مختلف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ نہ اس کمپنی کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی اسے کوئی کام 
الاٹ ہوا تھا۔ جب کام ہی نہیں دیا گیا تو ادائیگی کیسی؟ دوسری طرف والوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ کمپنی نے ملتان میٹرو کا کام ملتان بس ریپڈ ٹرانزٹ سے حاصل کیا ‘ٹھیکے کی مالیت تیس ارب روپے کے لگ بھگ تھی اور اس کا چھ فیصد کے قریب کمیشن ایک ارب چوراسی کروڑ کے قریب قریب بنتا ہے‘جو کمپنی کو باہر ٹرانسفر کر دیا گیا ۔پنجاب گورنمنٹ نے اس پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی ہے۔ فی الحال کمیٹی کا کہنا ہے کہ کسی نے جعلی کاغذات پر یہ کمپنی بنا کر ان کے نام تھوپ دی ہے تاہم راوی کا کہنا ہے کہ جب اصل ریکارڈ ہی جل جائے تو پھر جو بھی کہیں ٹھیک ہے۔
بات نجفی کمیشن رپورٹ کی ہو رہی تھی اور دائیں بائیں نکل گئی‘ لیکن مجھے ایک اور بات یاد آ گئی ہے۔ ملتان میٹرو کا سارا ریکارڈ جل بھی جائے بہرحال ملتان میٹرو تو سرزمین ملتان کے سینے پر قائم و دائم کھڑی ہے اس پر بڑا ''رولا‘‘ مچا کہ اصل میٹرو دس میٹر چوڑی تھی۔ ٹینڈر وغیرہ کی طلبی میں اسی چوڑئی کو مشتہر کیا گیا تھا۔ پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے 75 صفحات پر جاری کردہ Invitation for Bids کے صفحہ نمبر 10 پر دیئے گئے ''پراجیکٹ کے نمایاں خدوخال ‘‘کے پوائنٹ نمبر دو میں درج ہے کہ اس روٹ کی چوڑائی دس میٹر ہو گی۔ اب میں نے خود ناپ کرتو نہیں دیکھا لیکن واقفان حال کا کہنا ہے کہ سارے ایلی ویٹڈ روٹ کی چوڑائی نو میٹر ہے۔ یعنی ایک میٹر کھایا گیا ہے۔ سارے ایلی ویٹڈ روٹ پر ایک میٹر چوڑائی بچانے کا مطلب ہے کہ کل بارہ ہزار پانچ سو میٹر‘ تعمیراتی زبان میں آپ اسے ایک لاکھ چونتیس ہزار مربع فٹ کہہ سکتے ہیں کہ ایک مربع میٹر میں 10.71 مربع فٹ ہوتے ہیں۔ چھ انچ موٹے عام گھروں کی چھتوں پر ڈالے جانے 
والے لینٹر کی لاگت میں کنکریٹ اڑھائی سو روپے فی مربع فٹ اور سریا تقریباً ستر روپے فی مربع فٹ یعنی کل تین سو بیس روپے فی مربع فٹ لاگت آتی ہے۔ میٹرو کا لینٹر چھ انچ نہیں تقریباً ڈیڑھ فٹ موٹا ہے یعنی عام گھر کے لینٹر سے تین گنا موٹا۔ اسی حساب سے لاگت بھی کم از کم تین گنا سمجھ لیں یعنی تقریباً نو سو ساٹھ روپے فی مربع فٹ ‘کل لاگت بنی بارہ کروڑ چھیاسی لاکھ روپے۔ یہ وہ رقم ہے جو واقفان حال کے مطابق گول کر لی گئی ہے مگر ''بڈڈاکومنٹ‘‘ کے صفحہ نمبر 75 کے پوائنٹ 3.3 میں لکھا ہے کہ اس پراجیکٹ بارے کوئی بھی متعلقہ فرد یا کمپنی یا اس کا آگے سے کوئی کنٹریکٹر دس سال تک کسی کو کوئی معلومات نہیں دے سکتا۔ اس عرصہ دس سال میں آگ کئی دفعہ ان سارے کاغذات کو اپنے پیٹ کا ایندھن بنا سکتی ہے۔
معاف کیجئے گا بات نجفی کمیشن رپورٹ کی ہورہی ہے جسے حکومت پنجاب چھپانے کی تگ و دو میں عام کر رہی ہے۔ بقول شاعر ع
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
صرف پنجاب حکومت کی اپیلوں کی تیاریوں اور رپورٹ کو عام ہونے سے بچانے کے لیے بھاگ دوڑ اور پھرتیوں سے اس عاجز کو صرف اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ہو رہا ہے کہ رپورٹ بہرحال پنجاب حکومت کے خلاف ہے وگرنہ اب تک میاں شہبازشریف صاحب اس رپورٹ کو عوام کے منہ پر مار چکے ہوتے۔
محکمہ داخلہ سے رپورٹ مبینہ طور پر غائب ہو چکی ہے۔ باقی جہاں جہاں ہے آگ کی منتظر ہے‘ لیکن چودہ لوگوں کا خون ناحق نہ چھپ سکتا ہے اور نہ ضائع ہو سکتا ہے۔ اس بار اس رپورٹ کو آگ نہیں کھائے گی بلکہ اس رپورٹ کی آگ بہت سو ںکو کھائے گی۔ اب کی بار معاملہ الٹ ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں