"KMK" (space) message & send to 7575

مینوفیکچرنگ فالٹ

بیس روز سے زائد ہو گئے ہیں کہ میں پاکستان سے باہر ہوں اور مسلسل سفر میں ہوں۔ ٹی وی تو میں پاکستان میں بھی کم ہی دیکھتا ہوں البتہ روزانہ صبح چھ‘ سات اخبارات پڑھنا اب عادت بن گئی ہے لیکن اس سفر میں یہ عیاشی بھی رخصت ہو گئی ہے۔ لے دے کہ اب صرف نیٹ پر‘ اپنے سمارٹ فون پر ایک آدھ اخبار دیکھ لیتا ہوں مگر صرف سرخیوں کی حد تک‘ نظر باریک تفصیلات تک پہنچنے کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیے پاکستان کی سیاست سے‘ اسلام آباد کے دھرنے سے‘ نیب کے کیسوں سے‘ بلوچستان میں پنجابی مزدوروں کے قتل سے اور اسحاق ڈار کی برباد کردہ ملکی معیشت بارے تازہ معلومات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں ان معاملات پر قلم اٹھانا میرے نزدیک جائز نہیں۔ جسے انگریزی میں ''فرسٹ ہینڈ انفارمیشن‘‘ کہتے ہیں وہ ندارد ہے۔ اس لیے اس سے ہاتھ اٹھا رکھا ہے۔ ذائقہ بدلنے کے لیے میں ویسے بھی کبھی کبھی ادب‘ تاریخ اور گئے دنوں کی چیزوں کے بارے میں لکھتا رہتا ہوں۔ اس سے موضوعات میں تنوع بھی رہتا ہے اور تازگی کا احساس بھی۔ سو گذشتہ کچھ دنوں سے اندلس بارے لکھ رہا ہوں۔ اسے آپ میری اندلس سے دلچسپی کہہ لیں یا دماغ میں پھنسی ہوئی کوئی گرہ کہہ لیں‘ مگر کچھ نہ کچھ ہے ضرور۔
میں مسافر طبیعت آدمی ہوں اور ہمہ وقت نئی منزلوں کی طرف سفر کرنا پسند کرتا ہوں۔ مسافر طبیعت آدمی کی نظر اگلے سفر اور نئی منزل کی طرف ہوتی ہے نہ کہ پرانی چیزوں کو بار بار دیکھنے کا شوق۔ سو مجھے ذاتی طور پر نئی جگہوں کی طرف سفر پسند ہے۔ ظاہر ہے آپ کو بے شمار بار اپنی پرانی جگہوں پر جانا پڑتا ہے مگر شوق کے تحت نہیں‘ مجبوری کے تحت۔ سو یہی میری حالت ہے۔ بے شمار بار انہی شہروں کو جانا پڑتا ہے جہاں کا اب چپہ چپہ بھی شاید ازبر ہو چکا ہے مگر شوق اور دل کی بات دوسری ہے۔ کچھ شہر اور جگہیں ابھی بھی ایسی رہ گئی ہیں جنہیں دیکھنا رہ گیا ہے۔ رہ تو بہت کچھ گیا ہے مگر ترجیحات قائم کریں تو ایک فہرست سی بن جاتی ہے۔ سو اس فہرست کو بھی دل میں لیے پھرتا ہوں اور اپنے مالک کا شکر بھی ادا کرتا رہتا ہوں جو اسباب پیدا کرتا رہتا ہے مگر دوست جانتے ہیں کہ میں اس بات کا بارہا اظہار کر چکا ہوں کہ اندلس دیکھنے کی ابھی بھی خواہش باقی ہے۔ دوبارہ دیکھنے کے باوجود‘ مسافر کا دل بھرا نہیں۔ وہاں جا کر ایسا لگتا ہے کہ میں وہاں ہوں جہاں میرا کچھ کھو گیا ہے۔ یہی ملال‘ دکھ اور اداسی کی کیفیت میری تحریر میں بھی آ جاتی ہے۔ یہ ہم برصغیر کے مسلمانوں کا ''مینوفیکچرنگ فالٹ‘‘ ہے۔
ہم بے شک مجموعی طور پر شاید زیادہ اچھے مسلمان نہیں اور ہمارے پاس صرف دین کے نام پر ایک ملک بنانے کے علاوہ اورکوئی فخر بھی نہیں۔ لیکن نجانے کیا بات ہے ہم راندۂ درگاہ اور بے عمل ہونے کے باوجود اسلام اور اس سے جڑی ہوئی ہر چیز کے لیے جان دینے کے بھی تیار ہیں اور جان لینے کے لیے بھی۔ بس اس محبت کے سوا ہمارے پاس اور کچھ بھی نہیں۔ مگر کیا یہ محبت کم ہے؟ میرے آقاﷺ اس محبت کے طفیل مجھے اپنی شفاعت سے سرخرو کر دیں تو میرا سب کچھ کام آ گیا۔ ہم نے یعنی پاکستان کے مسلمانوں نے بلکہ زیادہ وسیع تناظر میں بات کریں تو برصغیر کے مسلمانوں نے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا۔ ہندوستان پر حکومت کی تو وہ بھی باہر سے آنے والے افغانوں نے‘ ترکوں نے‘ روسی ترکمانستان سے آنے والوں نے اور بس۔ لیکن جب لکھنے بیٹھتے ہیں تو سپین میں مسلمانوں کے اقتدار اور فتوحات پر خوش ہو کر سینہ پھیلاتے ہیں اور ان کی شکست پر اداس اور ملال ہو جاتے ہیں حالانکہ نہ ہم ان فتوحات کا حصہ ہیں اور نہ شکست کے ذمہ دار۔ مگر لکھتے وقت ''ہم‘‘ کا صغیہ استعمال کرتے ہیں۔ کل کے کالم پر کینیڈا سے رفعت سعید صاحب نے بھی ہماری اسی چیز پر پرانا لطیفہ بھجوایا ہے۔ 
ایک نچلی ذات کی خاتون (رفعت سعید صاحب بھی میری طرح ذات پات اور رنگ و نسل کے باعث کسی انسان کے اعلیٰ یا کمتر ہونے کے قائل نہیں ) گائوں کے ایک پیر کے ساتھ‘ جو ظاہر اعلیٰ ذات کا ہی ہو گا، بھاگ گئی۔ ان دونوں نے کسی دوسرے گائوں میں رہائش اختیارکر لی۔ گرمیوں کا موسم تھا اور وہ دن بھی خاصا گرم تھا۔ ممکن ہے اس وقت لوڈشیڈنگ بھی ہو رہی ہو‘ (یہ میرا ذاتی خیال ہے نہ کہ رفعت سعید صاحب کا) دیگر لوگوں کی طرح پیر صاحب اور وہ خاتون بھی پسینے سے شرابور تھی۔ اپنی اس حالت کو دیکھتے ہوئے وہ میراثن (یہ میں نے اندازہ لگایا ہے کیونکہ عام طور پر بیان کئے گئے اس قسم کے قصہ کہانیوں میں خاتون عموماً میراثیوں کی ہوتی ہے؛ تاہم میرا اندازہ غلط بھی ہو سکتا ہے ویسے بھی خاتون کی ذات بارے علم ہونا کوئی خاص ضروری نہیں) پیر صاحب کو کہنے لگی: اس گرمی نے تو میرا بھی برا حال کر دیا ہے میں سوچتی ہوں ہمارے ''پیروکاروں‘‘ کا کیا حال ہو گا؟
رفعت سعید صاحب کی اس کہانی کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ ہم برصغیر کے ''میراثیوں‘‘ کو خواہ مخواہ امت کی فکر لگی رہتی ہے۔ بوسنیا میں مسلمانوں کا قتل عام ہو ہم یہاں بے چین ہو جاتے ہیں۔ سوا پانچ سو سال تک غرناطہ پر فرڈیننڈا اور ازابیلا قبضہ کر لیں تو ملتان جیسے شہر کا ایک مسافر‘ جس کا اس سارے واقعے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں، بے چین ہو جاتا ہے۔ یہی مسافر اندلس میں ابو عامر المنصور کی فتوحات پر ایسے پھولے نہیں سماتا جیسے وہ اس کے آبائواجداد میں سے تھا۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسافر کا ابو عامر المنصور سے لیکر الزغل تک اور عبدالرحمان الداخل سے لے کر مولائے ابوالحسن تک کسی سے دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ اس سارے قصے میں لفظ ''ہم‘‘ استعمال کرتا ہے۔'' ایک وقت تھا کہ ہم جزیرہ نمائے سپین کے بیشتر حصے کے مالک تھے‘‘۔ یہ سچ ہے کہ کم از کم ہم برصغیر کے مسلمانوں کا اس سارے قصے میں اتنا بھی عمل دخل نہیں جتنا گائوں میں ''میراثی‘‘ کا ہوتا ہے۔ اس حساب سے مسلمانوں کے عروج پر خوش ہونے اور شکست پر ملول ہونے کا ہمیں کوئی حق نہیں اور ''ہماری فتوحات‘‘ اور ہماری ''شکست‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرنے کا بھی کوئی حق نہیں کہ ہم ان فتوحات اور شکستوں میں ٹکے کے بھی حصہ دار نہیں رہے۔ لیکن کیا ہم جیسے گناہ گار اور بے عمل مسلمانوں کے دل میں امت کا تصور ہونا جرم ہے؟
ہم راندۂ درگاہ‘ گناہ گار اور بے عمل سہی‘ اس دل کا کیا کریں؟ یہ دل کمبخت کچھ اور کرے یا نہ کرے مگر امت کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ یہ امت کیا ہے؟ اس کا مفہوم نہ کسی لبرل کی سمجھ آئے گا اور نہ ہی بہت زیادہ عملی (پریکٹیکل) شخص کو کہ یہ عمل کا نہیں دل کا معاملہ ہے۔ خدانخواستہ میرے اس جملے کا اشارہ رفعت سعید کی طرف نہیں کہ وہ بھی میرے جیسا برصغیر کا مسلمان ہے اور وہ بھی اس سارے قصے میں ''ہماری‘‘ بے عملی پر دکھی ہو کر ہی یہ سب کچھ لکھ رہا ہے مگر ''ہم‘‘ جب روز جزا اپنے مالک کے سامنے پیش ہوں گے تو اعمال کی گٹھڑی بے شک خالی ہو گی مگر دل اس کے محبوبؐ اور اس کے محبوبؐ کی امت کی محبت سے لبریز ہو گا اور اسی کی بنیاد پر میرے آقاؐ میری شفاعت فرمائیں گے۔ (ان شاء اللہ) حقوق اللہ کی طرف سے خالی جھولی ہونے کے باوجود میرا مالک اپنے محبوب کی شفاعت اور سفارش پر میرے جیسے گناہ گاروں اور بے عملوں کی بخشش فرمائے گا کہ وہ قادر مطلق ''حقوق اللہ‘‘ کے بارے میں بڑا رحیم و کریم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں