"KMK" (space) message & send to 7575

اشبیلیہ اشبیلیہ

اس شہر کے تین نام تو میرے علم میں ہیں۔ ہم مسلمان اسے اشبیلیہ کے نام سے جانتے ہیں۔ انگریز اسے سویلی اور اہل ہسپانیہ یعنی سپین والے ''سیٔویّا‘‘ کہتے ہیں۔ انگریزی میں SEVILLE لکھتے ہیں۔ سپین والے ڈبل ایل کو ''ی‘‘ پڑھتے ہیں‘ لہٰذا وہ اسے سیٔویّا کہتے ہیں۔ گزشتہ بار جب اندلس آنا ہوا تو مانچسٹر سے مونارک ایئرلائن کی سستی ٹکٹ پکڑی اور سپین کے شہر مالاگا یعنی مالقہ میں جا اترا۔ دوست ساتھ تھا۔ مالاگا ایئرپورٹ سے کار کرائے پر لی اور ایئرپورٹ سے سیدھا قُرطبہ جا پہنچے۔ بڑا آسان طریقہ تھا۔ ایئرپورٹ کے ساتھ ہی بلکہ ساتھ کیا‘ اسی عمارت میں نیچے تہہ خانے میں اترے۔ وہاں کرائے کی کاروں والے دفاتر تھے۔ ہم نے برطانیہ سے چلتے ہوئے ہی یورپ کار والوں سے ایک چھوٹی سی کار کی بکنگ کروا لی تھی۔ نیچے دفتر میں پہنچے‘ پاسپورٹ دکھایا۔ انہوں نے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی بنائی‘ ٹکٹ کی کاپی کی۔ ایک فارم پُر کیا اور اس پر دستخط لیے۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ یہ سارا کام سات‘ آٹھ منٹ میں مکمل ہو گیا۔ گاڑی کی چابی ہمارے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے کار کمپنی کے ایک ملازم نے بتایا کہ ٹینکی فل ہے‘ آپ واپس کرتے وقت گاڑی کی ٹینکی فل کروا کے کھڑی کریں‘ چابی اس ڈبے میں ڈالیں اور چلے جائیں۔ آپ کے کریڈٹ کارڈ کی تفصیل ہمارے پاس فارم میں موجود ہے اور سو یورو جمع ہیں‘ اگر کوئی فرق ہوا تو اس میں سے کاٹ لیں گے اور باقی پیسے آپ کو واپس مل جائیں گے۔ اگلے چار دن کے لیے یہ کار ہمارے پاس تھی۔
ٹام ٹام یعنی نیویگیٹر نے کام بہت آسان کر دیا ہے۔ اپنے قرطبہ کے ہوٹل کا پتا اس میں ڈالا اور چل پڑے۔ باقی سارا کام ''لیلیٰ‘‘ کے سپرد تھا۔ ''لیلیٰ‘‘ نام دراصل ہم نے ٹام ٹام میں بولنے والی اس زنانہ آواز کو دے رکھا ہے جو راستہ بتاتی اور سمجھاتی ہے۔ آخر اس خاتون کا کوئی نام تو ہو گا؟ سو ہم نے اسے لیلیٰ کا نام دے دیا۔ میں نے پہلی بار یہ آلہ (ٹام ٹام) مرحوم دوست انور مغل صاحب کی گاڑی میں لگا ہوا دیکھا تھا۔ برمنگھم میں رہنے والے دوست انور مغل کو آج اتنے سال بعد بھی مرحوم لکھتے ہوئے دل دکھتا ہے۔ مغل صاحب عمر میں ہم سے کافی بڑے تھے مگر علم دوست اور سخن شناس ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت محبت کرنے والے دوست تھے۔ عرصہ ہوا کینیا سے برطانیہ آئے‘ اور برمنگھم میں اپنا دفتر بنایا۔ آڈٹ سے منسلک تھے۔ ان کی ٹیکسی میں ٹام ٹام کو راستہ بتاتے ہوئے دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی۔ شغل کے طور پر انور مغل سے کہا کہ گاڑی ساتھ والی گلی میں موڑیں۔ انہوں نے گاڑی گلی میں موڑ دی۔ مجھے علم تھا کہ ہر گلی آگے جا کر بند ہو جاتی ہے۔ لیلیٰ نے اس گلی میں مڑتے ہی اعلان کر دیا کہ گلی آگے بند ہے‘ اس لیے متبادل روٹ اختیار کیا جائے اور پھر وہ متبادل روٹ بتانے لگی۔ یہ میرا ٹام ٹام سے پہلا تعارف تھا۔
گاڑی میں لگے اس چھوٹے سے آلے نے ہماری ساری مشکلیں آسان کر دیں اور ہم بڑے مزے سے دو‘ اڑھائی گھنٹے میں سیدھے اپنے ہوٹل کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ پرانے شہر میں مسجد قرطبہ کے ساتھ واقع اس ہوٹل تک پہنچنے کے لیے ہمیں تنگ گلیوں سے ہو کر جانا پڑا۔ سب گلیاں یکطرفہ ٹریفک کے اصول کے تحت چل رہی تھیں‘ اس لیے ٹریفک رواں دواں تھی۔ ہوٹل چھوٹا سا تھا پارکنگ ہوٹل کے تہہ خانے میں تھی۔ پارکنگ تک پہنچنے کا یہ طریقہ بھی پہلی بار یہیں دیکھا۔ ہماری گاڑی ہوٹل کے گیراج میں داخل ہوئی تو آپریٹر نے گیراج کا دروازہ بند کیا اور گاڑی اس گیراج سمیت تہہ خانے میں پہنچ گئی۔ یہ گیراج نہیں دراصل لفٹ تھی جگہ کی تنگی کے باعث تہہ خانے تک پہنچنے کے لیے ریمپ وغیرہ بنانے کی جگہ میسر نہیں تھی۔ انہوں نے گاڑی کو لفٹ کے ذریعے تہہ خانے میں پہنچانے کا بندوبست کر دیا تھا۔ ہم گاڑی کو پارکنگ میں کھڑا کرکے اوپر آ گئے۔ اس چھوٹے سے ہوٹل کی یہ چھوٹی سی پارکنگ بھی ملتان کے واحد فور سٹار ہوٹل سے تھوڑی بڑی تھی۔ ملتان کے اس فور سٹار ہوٹل کے پاس اگر سامنے کارڈیالوجی سنٹر میں گاڑی پارک کرنے کی سہولت نہ ہوتی تو بڑی تنگی ہوتی۔ کئی بار ہوٹل کے سامنے سڑک کے دوسری طرف کھڑی گاڑیوں کو لفٹر کے ذریعے اٹھائے جانے کا تماشا دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ 
بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔ گزشتہ بار صرف قرطبہ اور غرناطہ دیکھ کر واپس چلا گیا تھا‘ لیکن دل میں یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ اگلی بار کچھ بھی ہو جائے‘ اشبیلیہ ضرور جائوں گا۔ اس بار یوں ہوا کہ تین دن تو مالاگا میں تھے‘ ان میں سے ایک دن مالاگا پہنچ کر ہوٹل میں سامان رکھنے اور تھکاوٹ اتارتے گزر گیا۔ اگلے روز ہم غرناطہ چلے گئے اور الحمرا دیکھ کر واپس آئے۔ سفر شروع ہوا تو عامر نے پوچھا کہ زیتون کے باغات کہاں ہیں؟ میں نے کہا: ہم ابھی شہر کی حدود سے باہر نہیں نکلے‘ جونہی شہر سے باہر نکلیں گے ہر طرف زیتون کے باغات ہی نظر آئیں گے۔ قطاروں میں ترتیب سے لگے ہوئے میل ہا میل تک جھاڑی نما درخت۔ میں نے یہ پاکستان میں کٹھے کے پہاڑ پر لگے دیکھے تھے۔ جنگلی زیتون۔ ایک بار مرحوم ڈاکٹر ظفر الطاف کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ باتوں ہی باتوں میں مَیں نے کٹھے کی پہاڑیوں پر لگے زیتون کے جھاڑی نما درختوں کا ذکر کیا۔ ڈاکٹر ظفر الطاف نے اس موضوع پر ایسا سیر حاصل لیکچر دیا کہ مزہ آ گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا: اگر پاکستان میں اس علاقے میں لگے ہوئے جنگلی زیتوں کو صرف پیوند کر دیا جائے تو اس علاقے کے لوگوں کی معاشی صورتحال یکسر تبدیل ہو سکتی ہے۔ سپین میں اندازاً چھ ملین ٹن تک زیتون پیدا ہوتا ہے۔ اس میں سے زیتون کی مختلف شکلوں میں فروخت کے علاوہ ایک ملین ٹن کے قریب زیتون کا تیل نکلتا ہے اور اس میں سے نصف سے کم تیل ایکسپورٹ کر دیا جاتا ہے۔ صرف زیتون اور اس کے تیل کی برآمد سے سپین اربوں روپے کا زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ زیتون کا پودا سخت جان ہے اور کم پانی والے علاقوں میں یا بارانی علاقوں میں کاشت کے لیے بہت موزوں ہے۔ پاکستان میں پوٹھوہار کا علاقہ اس کے لیے سب سے موزوں ہے مگر حکومتی ترجیحات کا نہ کوئی سر ہے اور نہ کوئی پیر‘ آج ہماری بیوروکریسی میں ڈاکٹر ظفر الطاف جیسا ایک آدمی بھی موجود نہیں‘ جو زراعت کو اس قدر سمجھ سکے بلکہ اس قدرکیا اس کا عشر عشیر بھی سمجھ سکے جس قدر ظفر الطاف سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر ظفر الطاف پر اپنا خاص کرم کرے اور ان کے درجات بلند کرے۔
جونہی شہر ختم ہوا‘ اونچا نیچا علاقہ شروع ہو گیا اور پھر زیتون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ کہیں قریب میں لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے پودے کہیں درمیانے سائز کی جھاڑیاں اور زیادہ تر پودے نما درخت۔ لمبی قطاریں ایک جیسی ترتیب اور توازن۔ سارا حسن اسی ترتیب میں تھا وگرنہ زیتوں کا درخت کوئی خوبصورت چیز نہیں ہے۔ جھاڑ جھنکاڑ جیسا۔ شہر سے نکلے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ایک اونچائی پر سیاہ رنگ کا لوہے کی چادر سے بنا ہوا بیل نظر آیا۔ عامر نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا بیل ہے یعنی BULL ہے۔ یہاں سپین میں اسے ''تورو‘‘ کہتے ہیں لیکن اس ٹین کے بنے ہوئے سیاہ رنگ کے بیل کے مطلب ہے کہ اس علاقے میں ''بل فائٹنگ‘‘ کے لیے تیار کئے جانے والے بیل پالے جاتے ہیں۔ دوسرے روز ہم غرناطہ سے ہو کر واپس مالاگا آ گئے۔ تیسرا دن ہم نے مالاگا کے قلعے تک پہنچنے میں، ایک عدد بُل رِنگ دیکھنے میں اور پھر رات گئے تک شہر اور ہائی سٹریٹ میں گھومنے میں گزار دیا۔ اگلے روز قرطبہ روانہ ہونا تھا۔ 
رات میں نے عامر سے کہا کہ ہمیں قرطبہ پہنچنے کی کیا جلدی ہے؟ دو چار گھنٹے جلدی پہنچ گئے تو کیا تیر مار لیں گے؟ مسجد تو اگلے روز ہی دیکھنی ہے۔ آج رات کو قرطبہ پہنچ گئے تو دریائے وادی الکبیر کے کنارے سیر کریں گے۔ دور سے پیلی روشنی میں چمکتی مسجد کا نظارہ کریں گے۔ المیمون‘ ابن حزم‘ الحکم اور ابن رشد کے مجسمے دیکھیں گے۔ موقع ملا تو کسی کے ''پالتیو‘‘ میں جھانک لیں گے‘ لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ ہم براہ راست قرطبہ جانے کے بجائے قرطبہ براستہ اشبیلیہ چلے چلیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ضرور بڑھ جائے گا مگر اشبیلیہ اشبیلیہ ہے۔ میری تقریر سے سب ہی ہی متاثر ہوئے اور طے پایا کہ کل صبح جلدی نکلیں گے‘ اور قرطبہ براستہ اشبیلیہ چلیں گے۔ رات سونے سے پہلے دل زور سے دھڑکا اور اس نے اشبیلیہ اشبیلیہ کا نعرہ لگایا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں