"KMK" (space) message & send to 7575

حالیہ بجٹ اور بیکری کے بسکٹ

فی الوقت میرے سامنے چار موضوعات ہیں۔ بلکہ موضوعات تو تین ہیں ایک تو صرف ضمنی سا موضوع ہے۔ سو پہلے اس ضمنی والے قصے کو نپٹا لوں۔ اپنے گزشتہ کالم میں محترم نسیم احمد باجوہ صاحب نے فورٹ سنڈیمن کے بارے معلومات مانگی تھیں۔ انہیں یہ شہر سروے آف پاکستان کی چھپی ہوئی بہترین اٹلس میں نہیں مل سکا۔ دراصل انہیں یہ شہر بالکل اسی طرح نہیں مل سکا جس طرح اگر کوئی اب پاکستان میں منٹگمری‘ لائلپور‘ کیمبل پور‘ کوٹ میلا رام‘ نواب شاہ اور منڈی ڈھاباں سنگھ وغیرہ کو تلاش کرنے کی کوشش کرے تو اسے یہ شہر کہیں نظر نہیں آئیں گے‘ خواہ اس کے پاس کتنی ہی اچھی اٹلس کیوں نہ ہو۔ یہ شہر اب ساہیوال‘ فیصل آباد‘ اٹک‘ کوٹ عباس شہید‘ بے نظیر آباد اور صفدر آباد ہو چکے ہیں۔ اس قسم کی اور بھی بے شمار مثالیں ہیں۔ میاں چنوں کے نزدیک واقع قصبہ اقبال نگر جو اس علاقے کے بہت بڑے زمیندار اقبال سنگھ کے نام پر آباد ہوا تھا ابھی تک صرف اس وجہ سے بچا ہوا ہے کہ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ علامہ اقبال کے نام پر ہے۔ سو اس کی بچت ہوگئی ہے۔
رابرٹ گرووز سنڈیمن (Robert Groves Sandeman) 33 ویں بنگال انفنٹری میں بھرتی ہوا اور دوسری بنگال لانسرز میں بحیثیت ایجوٹینٹ جنگ آزادی کے دوران 1857ء میں لکھنو پر قبضہ کرنے والوں میں شامل تھا۔ بعدازاں کافی عرصہ بلوچستان میں بھی رہا۔ اسی کے نام پر بلوچستان میں آباد ''اپوزئی‘‘ نامی گائوں کو فورٹ سنڈیمن کا نام دیا گیا۔ 1976ء میں فورٹ سنڈیمن کا نام تبدیل کرکے ''ژوب‘‘ رکھ دیا گیا۔ ایک زمانے میں ملتان سے اسلام آباد کے لیے ایک لمبی فوکر فلائٹ چلا کرتی تھی جو ملتان سے ژوب‘ ڈیرہ اسمٰعیل خان‘ پشاور اور اسلام آباد چلتی تھی۔ ہفتے میں دو دن یہ فلائٹ ژوب سے کوئٹہ جاتی تھی۔ اب یہ فلائٹ اور بہت سے روٹس کی مانند بند ہو چکی ہے۔ اللہ جانے ژوب ایئرپورٹ فنکشنل بھی ہے یا نہیں۔ کم از کم ملتان سے بلوچستان کے اس نزدیک ترین ایئرپورٹ کیلئے فلائٹس کب کی بند ہو چکی ہیں۔ میں اس روٹ پر کئی دفعہ سفر کر چکا ہوں۔ دیگر ممالک میں معاملات بہتری کی جانب رواں ہیں جبکہ ہمارے ہاں تقریباً ہر معاملے میں ترقی ٔ معکوس کا سفر جاری ہے۔
میں خاصا آوارہ گرد ہوں اور تقریباً سارا پاکستان دیکھ چکا ہوں۔ فورٹ BARA تو خیبرایجنسی والا ''باڑہ‘‘ ہے جسے فورٹ باڑہ کے نام سے نقشوں میں دکھایا جاتا ہے‘ تاہم میں نے کبھی بھی فورٹ Lock Hunt کا نام نہیں سنا‘ ممکن ہے یہ نام میرے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی تبدیل یا متروک ہو گیا ہو۔ منٹگمری‘ لائلپور‘ کیمبل پور‘ کوٹ میلا رام کا نام تو میرے سامنے تبدیل ہوا۔ منڈی ڈھاباں سنگھ کا بھی یہی حال ہے اور نواب شاہ کے نام کی تبدیلی تو ابھی کل کی بات ہے۔
دیگر تین موضوعات میں سے ایک میپکو (ملتان الیکٹرک پاور کمپنی) میں بڑے مگرمچھوں کی بجلی چوری اور سینہ زوری کے علاوہ بجلی کے میٹروں کی ڈیروں پر تقسیم کا معاملہ اور اس میں میپکو حکام کی جانب سے اوپر والے دبائو کے سامنے مزاحمت کا معاملہ ہے لیکن اسے میں فی الوقت اگلے کالم پر موقوف کرتا ہوں کہ یہ ایک مکمل کالم کا متقاضی موضوع ہے۔ دوسرا موضوع مسلم لیگ کی حکومت کا چھٹا بجٹ ہے اور تیسرا موضوع نااہلیوں کے بارے میں ہے‘ سو ابھی دوسرے موضوع پر آتے ہیں۔
مسلم لیگ ن نے چھٹا بجٹ پیش کرکے پاکستان میں پہلی بار چھٹا بجٹ پیش کرنے والی حکومت کا اعزاز حاصل کر لیا ہے۔ اپوزیشن کے تمام تر احتجاج کے باوجود حکومت نے ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہوئے اپنی رخصتی سے محض ایک ماہ تین دن پہلے پورے اگلے سال کا بجٹ پیش کردیا۔ اس بجٹ کے بارے میں وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے دو بڑی مزیدار باتیں کی ہیں۔ پہلی یہ کہ یہ آج تک کا سب سے اچھا بجٹ ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس سے پہلے جتنے بجٹ بھی پیش کئے گئے ہیں وہ خراب تھے۔ ان میں دوسری باتیں چھوڑیں کم از کم یہ بات تو انہوں نے مان لی کہ تاریخ عالم میں سب سے لائق فائق ہونے کے دعویدار ماہر معاشیات (بزعم خود) حال مفرور جناب اسحاق ڈار کے گزشتہ پیش کیے جانے والے پانچ بجٹوں سے یہ والا بجٹ بہتر تھا۔ اس بیان سے جہاں انہوں نے اپنی کارکردگی کو بڑھانے کی کوشش کی ہے وہیں انہوں نے دل کے مرض میں مبتلا بیرون ملک مغموم و مفرور پڑے ہوئے اسحاق ڈار کی کارکردگی کو گہنانے کی بھی پوری کوشش کی ہے۔ عین آخری وقت پر جناب مفتاح اسماعیل کو مکمل وزیرخزانہ بنا کر جہاں ایک طرف انہوں نے اسحاق ڈار کے دل پر چرکہ لگایا ہے وہیں انہوں نے یہ بیان دے کر پہلے سے دل کے مرض میں مبتلا اسحاق ڈار کے دل پر مزید وار کیا ہے جو ان کی صحت کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر نہایت ہی خطرناک ہے۔
دوسرا بیان انہوں نے اس بجٹ کو پیش کرنے کے جواز کے طور پر دیا کہ چار ماہ بعد انہوں نے دوبارہ آتو جانا ہے‘ اس لیے وہ اس بجٹ کو پیش کرنے کے حقدار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر انہوں نے اس یقین کی بنیاد پر کہ انہوں نے چار ماہ بعد آ تو جانا ہے اپنی رخصتی سے ایک ماہ پہلے ایک ایسا بجٹ پیش کردیا ہے جس کا عملی اطلاق ان کی حکومت سے رخصتی کے بعد شروع ہوگا تو انہیں یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ وہ اپنے اس یقین کی بنیاد پر مزید پانچ بجٹ بھی پیش کردیں کہ بقول ان کے چار ماہ بعد انہوں نے اگلے پانچ سال کے لیے آنا توہے ہی لہٰذا وہ اگلے پانچ سال کا ایک ہی بجٹ پیش کر دیتے تاکہ ان کے اس بہترین بجٹ سے ملک و قوم صرف ایک سال کے لیے نہیں بلکہ پانچ سال کے لیے مستفید ہو جاتے۔
شاہ جی کا خیال ہے کہ جاتے جاتے ایسا بجٹ پیش کرنا بالکل حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ دلوانے والا معاملہ ہے۔ ٹیکس کم کرکے انہوں نے قوم کو خوش کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن خوش کرنے کی یہ جعلی حرکت بڑی بھونڈی ہے کہ اس کا سارا وزن اگلی آنے والی حکومت کو اٹھانا پڑے گا اور ٹیکس معافی‘ ایمنسٹی سکیم وغیرہ جیسی چھوٹ کا اثر آئندہ آنے والے دنوں میں بجٹ خسارے کی شکل میں سامنے آئے گا اور آنے والی حکومت ان جانے والوں کی اس فیاضی کو اگر جاری رکھے گی تو مشکل میں پھنسے گی اور اگر اس بجٹ کو واپس لے گی یا اس میں تبدیلیاں کرے گی تو بدنامی مول لے گی۔ یعنی ہر دو صورتوں میں مشکل آنے والوں کے لیے ہوگی اور اس بجٹ کو مسلم لیگ ن والے آنے والے الیکشن میں اپنی کامیابی کا ڈھنڈورہ پیٹنے کے لیے استعمال کریں گے۔ یہی حال میاں شہبازشریف نے اورنج ٹرین والے معاملے میں کیا ہے۔ ایک سو پینسٹھ ارب روپے کی خطیر (بلکہ خطیر اس کے لیے بڑا لفظ ہے) رقم سے ستائیس کلومیٹر لمبے ٹریک پر مشتمل اس ٹرین منصوبے کا افتتاح تو لشٹم پشٹم میاں شہبازشریف اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل کر لیں گے اور اس منصوبے کی بنیاد پر لاہوریوں سے ووٹ بھی مانگیں گے لیکن یہ 165 ارب روپے کی رقم کی ادائیگی وہ کریں گے جو بعد میں آئیں گے۔ اس منصوبے کی رقم کی ادائیگی کی مدت بیس سال ہے اور یہ ادائیگی سات سال بعد شروع ہوگی۔ یعنی اس الیکشن کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت سے بھی اگلی حکومت اس قرض کو اتارنا شروع کرے گی۔ بالفرض اگر میاں شہبازشریف اینڈ کمپنی یہ الیکشن جیت گئی تب بھی وہ اپنے سارے عرصہ حکومت میں اس قرض کی ایک پائی ادا نہیں کریں گے۔ اسے کہتے ہیں سمجھداری۔
ایک آدمی بیکری والے کے پاس آیا اور کہنے لگا مجھے کوکونٹ بسکٹ چاہئیں۔ بیکری والے نے کہا کہ ان کی قیمت دو سو روپے کلو ہے۔ آدمی کہنے لگا :لیکن پچھلی بیکری والے نے ان کی قیمت ایک سو ساٹھ روپے کلو بتائی ہے۔ بیکری والا کہنے لگا: جناب! آپ وہاں سے خرید لیں۔ گاہک کہنے لگا: ان کے پاس کوکونٹ بسکٹ ختم ہو چکے تھے۔ بیکری والا بولا: سر! جب ہمارے پاس ختم ہو جاتے ہیں تو ہم تو یہ بسکٹ ایک سو چالیس روپے کلو فروخت کرتے ہیں۔ سو شاہد خاقان عباسی اینڈ کمپنی بجٹ کے بسکٹ ایک سو چالیس روپے کلو فروخت کر رہے ہیں کہ ان کے پاس وقت ختم ہو چکا ہے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں