"KMK" (space) message & send to 7575

مقابلہ

ایک شخص بغل میں شاپنگ بیگ دبائے تیزی سے بھاگ رہا تھا۔ ناکے پر کھڑی پولیس موبائل کے محافظوں نے اپنی کارکردگی دکھانے کی غرض سے اسے بھاگ کر پکڑ لیا اور بغل میں دبایا ہوا بیگ کھول کر دیکھا تو اس میں بڑے مشہور برانڈز کے چار لیڈیز سوٹ تھے۔ پولیس نے بلا پوچھ گچھ اسے اٹھا کر موبائل میں پھینکا اور شتابی سے تھانے لے آئے۔ سارا راستہ وہ شخص پولیس سے اپنا قصور اور جرم پوچھتا رہا مگر پولیس والے اسے اپنے پرانے اور رٹے رٹائے جملے سناتے رہے کہ تھانے جا کر سب پتا چل جائے گا‘ سارے مجرم یہی کہتے ہیں کہ میرا جرم کیا ہے؟ میں نے کیا کیا ہے؟ تھانے پہنچ کر تو فرفر بتائے گا کہ تو نے کیا جرم کیا ہے؟ ہمیں بچہ بناتے ہو۔ ہم نے بڑے بڑوں سے بہت کچھ بکوا لیا ہے تم کیا چیز ہو؟ وغیرہ وغیرہ۔ تھانے پہنچ کر اہلکاروں نے اسے تھانیدار کے سامنے پیش کیا اور بتایا کہ یہ شخص ''سرقہ بالجبر‘‘ کا مجرم ہے اور بازار میں کسی خاتون سے اس کے خرید کردہ چار عدد مہنگے لیڈیز سوٹ چھین کر فرار ہو رہا تھا کہ ہم نے اسے بدقت تمام‘ ہمراہ مال مسروقہ رنگے ہاتھوں گرفتار کر کے بغرض تفتیش تھانہ ہٰذا منتقل کر دیا ہے‘ ملزم شکل سے ہی عادی مجرم لگتا ہے اور اس سے مزید چوریاں برآمد کروانی ہیں‘ اس لیے اسے تھوڑی دیر کے لئے ''ڈرائنگ روم‘‘ میں لے جانے کی اجازت دی جائے۔ تھانیدار نے رعب دار آواز میں اس شخص سے کہا کہ اسے پتا نہیں کہ تھانہ ہٰذا میں میرے جیسا تھانیدار تعینات ہو چکا ہے‘ اور اندرون حدود تھانہ ہٰذا تمام مجرم کہیں اور کوچ کر گئے ہیں۔ اسے تھانہ ہٰذا کی حدود میں واردات کرنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ اس شخص نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا: حضور! میں نہ کوئی چور ہوں اور نہ ہی کوئی وارداتیا‘ میں نے کوئی ''جبرِ بالسرقہ‘‘ نہیں کیا۔ ساتھ کھڑے ہوئے ایک کانسٹیبل نے اس کی پشت پر ڈنڈا مارتے ہوئے کہا: اب دیکھیں کتنا بھولا بن رہا ہے اور اپنے جرم کو غلط ملط بول کر ہمیں بیوقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اوئے نابکار۔ یہ جبر بالسرقہ نہیں ہوتا بلکہ سرقہ بالجبر ہوتا ہے‘ اور یہ زیر دفعہ 392 تعزیراتِ پاکستان دس سال تک قید کی سزا کا مستوجب ہے بلکہ سرقہ بالجبر شارع عام پر یہ سزا چودہ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے۔ اس شخص نے روتے ہوئے بتایا کہ اس نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا‘ اور یہ سوٹ اس نے نقد ادائیگی کر کے خریدے ہیں۔ یہ کہہ کر اس نے پرس میں سے ان چار سوٹوں کی رسید نکالی اور تھانیدار کے سامنے رکھ دی۔ تھانیدار نے پوچھا: تو پھر تم بازار میں بھاگے کیوں جا رہے تھے؟ اس شخص نے روہانسے انداز میں کہا: حضور! یہ سوٹ میں نے ایک لاکھ نو ہزار چار سو پچپن روپے میں خریدے ہیں۔ بیوی کی ہدایت تھی کہ کپڑے لے کر فوراً گھر آ جاؤں۔ میں تو کار پارکنگ کی جانب اس خوف سے بھاگتا ہوا جا رہا تھا کہ کہیں میرے گھر پہنچنے سے قبل ان کپڑوں کا فیشن ہی تبدیل نہ ہو جائے اور میرے سارے پیسے اکارت نہ چلے جائیں۔ حضور! آپ میری مجبوری کا احساس کریں اور مجھے بلا وجہ تھانے میں روک کر میری ساری بھاگ دوڑ پر پانی نہ پھیریں۔
فی الوقت یہی حال ڈالر کی اوپر جاتی ہوئی قیمت کا ہے کہ کالم میں اس کی روپے کے مقابلے میں قدر لکھتے ہوئے یہ خوف لاحق ہے کہ کالم کا چھپنا تو ایک طرف رہا۔ کالم کے اختتام سے قبل ہی روپیہ مزید ذلیل و رسوا نہ ہو چکا ہو۔ خیر سے روپیہ ان دو چار مہینوں میں ہی جنوبی ایشیا کی کم ترین اور بد ترین کرنسی بن چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ گھنٹوں اور منٹوں کی بنیاد پر ''ڈی ویلیو‘‘ ہو رہا ہے۔ ایک دو پل کے لیے آنکھ جھپکتی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید نیچے کھسک چکا ہوتا ہے۔ صرف جمعرات مورخہ سترہ مئی کو قریب سات روپے اوپر نیچے ہوا‘ بلکہ اوپر نیچے کیا‘ صرف نیچے ہوا ہے۔ صبح ایک ڈالر ایک سو چوالیس روپے کا تھا‘ تو شام کو ایک سو پچیس روپے کا۔ جتنا ایک دن میں فرق پڑا ہے‘ اس سے کم روپوں میں تو کبھی پورا ڈالر ہوا کرتا تھا۔
میرے پاس تیرہ اکتوبر 1950ء کے ''گزٹ آف پاکستان‘‘ کے تحت روپے کے مختلف کرنسیوں کے مقابلے میں ایکسچینج ریٹ نوٹیفائی کئے گئے ہیں۔ اس نوٹیفکیشن کے مطابق ایک برطانوی پاؤنڈ مبلغ نو روپے چار آنے اور چار پائی کے برابر ہے۔ (تب پاکستان کی کرنسی میں روپے کے علاوہ آنے اور پائیاں بھی ہوا کرتی تھیں) بھارت کا روپیہ پاکستان کے گیارہ آنوں کے برابر ہے۔ یاد رہے کہ ایک روپیہ سولہ آنوں کے برابر ہوا کرتا تھا۔ یعنی آج کے حساب سے تقریباً انسٹھ پاکستانی پیسوں کے برابر۔ آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ انسٹھ پاکستانی روپوں کے سو بھارتی روپے ملتے تھے۔ اور ''اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی‘‘۔ امریکی ڈالر مورخہ سترہ اکتوبر 1950ء کو تین روپے چار آنے کا تھا۔ برما اور سری لنکا کا روپیہ بھی بھارتی روپے کی طرح گیارہ آنے دو پائی کے برابر تھا۔ ہانگ کانگ کا ڈالر نو آنے تین پائی کا تھا۔ بنگلہ دیش تب کسی کے خواب میں بھی نہیں تھا۔ نیپال وغیرہ کی کرنسی کسی شمار قطار میں نہ تھی اور گمان ہے کہ افغانی کی قیمت محض پائیوں میں ہو گی‘ آنے وغیرہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے قصہ خوانی بازار پشاور میں فٹ پاتھ پر شیشے کا شو کیس سجائے ہوئے کرنسی چینجرز کو بیٹھے دیکھا ہے جو روپے اور ڈالر کے عوض افغانستان کی کرنسی افغانی تبدیل کرتے تھے۔ 2001ء کے وسط میں ایک ڈالر کے تقریباً ستر ہزار افغانی ملتے تھے۔
میں 1988ء کے وسط میں تھائی لینڈ گیا۔ تب ایک تھائی بھات ستر پیسے کا تھا۔ یعنی ستر روپے کے سو تھائی بھات ملتے تھے آج ایک تھائی بھات ساڑھے چار روپے سے زائد کا ہو چکا ہے۔ ایک ڈالر بھارتی روپوں میں 70 روپے کے برابر ہے۔ بنگلہ دیش کے 84 ٹکے‘ نیپال کے 112 روپے‘ بھوٹان کے 69 گلڑم‘ تھائی لینڈ کے 32 بھات اور 79 افغانی ایک امریکی ڈالر کے برابر ہیں۔
ادھر عالم یہ ہے کہ روپے کی بے قدری اور ذلت و رسوائی کو کسی طور کم کرنے کے بجائے مقابلہ بازی ہو رہی ہے کہ کس کے دور میں روپیہ زیادہ خوار و خستہ ہوا۔ وزیر اعظم ہاؤس سے روپے کی گرتی ہوئی ساکھ اور قیمت کو بچانے کے بجائے سابقہ حکومتوں پر ملبہ گرایا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں بتیس روپے کے اضافے کے ساتھ 64 روپے سے 96 روپے کا ہوا۔ لیکی دور میں ڈالر 96 سے 122 روپے کا ہو گیا۔ (حقیقت یہ ہے کہ 31 مئی 2018ء کو جب مسلم لیگ کی حکومت ختم ہوئی‘ اس روز ڈالر 115 اور 116 روپے کے درمیان تھا) کوئی سوچے‘ کیا یہ وقت اس قسم کے موازنے کرنے کا ہے؟ کیا ایک خرابی دوسری کا جواز ہو سکتی ہے؟ بجائے اس کے کہ روپے کی رسوائی کو کنٹرول کرنے کا اہتمام کیا جائے ہمہ وقت صفائی پر مامور بڑبولے اس وقت بھی سابقہ حکومتوں کے لتے لینے میں مصروف ہیں اور اپنی نااہلی اور بدانتظامی کو تسلیم کر کے اس کا کوئی حل نکالنے کے بجائے اس بات کا مقابلہ کرنے میں مصروف ہیں کہ کس کے دورِ حکومت میں روپیہ کس قدر بے وقعت اور بے حیثیت ہوا۔ اس پر شرمندہ ہونے کے بجائے ڈھٹائی سے یہ جواز گھڑے جا رہے ہیں کہ صرف ہم ہی روپے کو ذلیل نہیں کر رہے بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے بھی کیا تھا۔ کیا اس جواز سے آپ کی نااہلی اور معاشی بدمعاملگی کم ہو جائے گی؟ کیا اس سے ملکی معیشت میں بہتری آ جائے گی؟ کیا اس سے روپے کی گرتی ہوئی قدر بہتر ہو جائے گی؟ کیا اس سے ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ واقع ہو گا؟ کیا اس سے ہمارے قرضوں کا گراف نیچے آ جائے گا؟ سب باتوں کا جواب ہے ''نہیں‘‘۔
ماضی کی خرابیوں سے موازنہ یا مقابلہ کرنے سے کبھی بھی بہتری نہیں آتی۔ اچھے اور کامیاب حکمران اپنا موازنہ یا مقابلہ برے حکمرانوں سے نہیں بلکہ اچھے حکمرانوں سے کرتے ہیں اور یہی حال اچھے اور برے کاموں میں مقابلے کا ہے۔ بایزید بسطامیؒ نے فرمایا تھا کہ ''برائی میں مقابلہ ایک ایسا مقابلہ ہے جس میں جیتنے والا شخص ہارنے والے سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے‘‘۔ ہم کن چیزوں میں مقابلے کر رہے ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں