"KMK" (space) message & send to 7575

خالی خولی بڑھکیں اور چوروں کی رہائی (حصہ اول)

نواز شریف پہلے سے ہی اندر ہیں۔ اب حمزہ شہباز اور زرداری بھی اندر ہو گئے ہیں۔ گو کہ ابھی دونوں نیب کے ریمانڈ پر ہیں‘ مگر بالآخر انہیں عازمِ جیل ہونا ہے‘ مگر کب تک؟ زرداری پہلے بھی اندر رہ کر آئے ہیں اور وہ اس زمانے کا ذکر شرمندگی سے نہیں ‘بڑے فخر سے کرتے ہیں اور کیوں نہ کریں؟ آخر وہ وہاںسے بری‘ یعنی دوسرے لفظوں میں سرخرو ہو کر آئے اورا یسے میں فخر کرنا ان کا حق ہے۔ ہمارے ہاں تو اخلاقی اور مالیاتی جرائم کے مرتکب ملزم اور مجرم فخر سے اپنی دو انگلیوں سےV یعنی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالتوں سے باہر آتے ہیں اور جیل کے اندر جاتے ہیں۔ایسے میں عدالتوں سے کلین چٹ لے کر آنے والا؛ اگر وکٹری کا نشان بناتا ہوا ‘باہر آئے تو کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔
ویسے تو ہمارا سارے کا سارا نظام انصاف اوورہال ہونے کے قابل ہے کہ دیوانی مقدموں میں لوگ عشروں عدالتوں کے چکر لگا لگا کر دیوانے ہو جاتے ہیں۔ غالباً اسی لیے کسی عقلمند نے سول کیس کا ترجمہ پہلے سے ہی دیوانی مقدمہ کر دیا تھا‘ تاکہ بعد میں مدعی کو نہ تو حیرانی ہو اور نہ ہی کسی سے گلہ۔ دولتمند اور طاقتور ملزم کئی کئی سال تک اپنے مہنگے وکیلوں کی عدالتی موشگافیوں کے طفیل ضمانتوں پر اور مقدمے کی ایک عدالت سے دوسری عدالت منتقلی کے چکروں میں ضمانتوں پر موج میلا کرتے رہتے ہیں اور بے وسیلہ ملزم کئی کئی سال جیل میں گزار کر بے گناہ ثابت ہوتا ہے‘ بلکہ کئی ایک تو جیل یا زندگی کی قید سے رہائی کے بعد بے گناہ ثابت ہوتے ہیں‘ لیکن مالیاتی جرائم کا سارا نظام ہی ایک ایسا گورکھ دھندا ہے کہ بندے کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ہو کیا رہا ہے؟مالیاتی جرائم کو انگریزی میں ''وائٹ کالر کرائم‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ وائٹ کالر کرائم بے چارے معمولی آدمی کا کام ہی نہیں۔ یہ بڑے بڑے بزنس مین‘ سیاستدان‘ سرکاری افسران اور مالیاتی اداروں وغیرہ سے متعلق لوگ کرتے ہیں اور مغرب نے ان جرائم کی بیخ کنی اور سدباب کیلئے بالکل علیحدہ نظام وضع کیا ہے اور اس کیلئے خصوصی قوانین تشکیل دیے ہیں۔ عام طور پر وائٹ کرائم کرنے والے انتہائی شاطر‘ چالاک اور کائیاں ہوتے ہیں اور عموماً اپنے جرم کی کوئی رسید یا ریکارڈ نہیں چھوڑتے‘ لیکن ؛اگر ان جرائم کو سامنے رکھ کر ''ٹیلر میڈ‘‘ یعنی صرف انہی کے وضع کردہ قانون بنا دیے جائیں تو ان جرائم میں سزا ملنا بہت آسان ہو جاتا ہے اور جرم کا ایک سرا ہاتھ آنے پر ''منی ٹریل‘‘ مانگی جاتی ہے اور منی ٹریل‘ یعنی پیسے کی آمدن یا خرچ کا مرحلہ وار ریکارڈ ‘اگر کسی جگہ سے بھی درمیان میں ہینکی پھینکی کے طفیل مشکوک ہو جائے تو عدالتیں ملزم کو مجرم میں تبدیل کر کے سزا سنا دیتی ہیں۔ وائٹ کالر کرائم میں بارِ صفائی سو فیصد ملزم پر ہوتا ہے اور فوجداری قانون کے برعکس بار ثبوت مدعی کے ذمے نہیں ہوتا۔ اس طرح تمام تر چالاکیوں‘ شاطرانہ حربوں اور کائیاں پن کے باوجود مغرب میں بے شمار مالیاتی جرائم کے مرتکب مجرموں کو لمبی سزائیں ہوئی ہیں‘ مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا۔
ہمارے ہاں المیہ دو طرفہ ہے؛ پہلا‘ المیہ یہ کہ ہمارے ہاں مالیاتی جرائم کے مرتکب افراد عموماً معاشرے کے نہایت طاقتور‘ باوسیلہ اور زورآور لوگ ہوتے ہیں۔ نوے فیصد کیسز میں ان کی طرف کوئی آنکھ بھر بھی نہیں دیکھتا۔ دوسرا‘ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانونی دائو پیچ کے طفیل ایسا جرم کرنے والا طبقہ قانون سے اپنی مرضی کا راستہ نکالنے والے بڑے بڑے وکیلوں کے زور پر ایسے بری ہوتا ہے‘ جیسے مکھن میں سے بال نکالا جاتا ہے‘ یعنی ملزم طاقتور ہے اور اس سے نپٹنے والا قانون پرانا‘ خستہ مفلوک الحال اور متروک ہے۔ دونوں کا کوئی جوڑ ہی نہیں‘ لہٰذا بری ہونا کوئی مشکل کام نہیں اور المیہ در المیہ یہ ہے قانون سازی مقننہ ‘یعنی قانون سازی کرنے والے ادارے نے کرنی ہے۔ ممکن ہے‘ میرے انگریزی میڈیم والے کسی قاری کو پتا نہ چلے کہ مقننہ کیا ہوتی ہے تو اس کی آسانی کیلئے عرض ہے کہ ہماری مقننہ کا آسان نام پارلیمنٹ ہے اور اس کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کا دماغ خراب نہیں کہ وہ اپنی گردن پھنسانے کا بندوبست خود کریں۔ بھلا کسی نے مچھر کو کبھی مچھر ماردوا بناتے دیکھا ہے؟غبن‘ کرپشن‘ رشوت‘ کمیشن‘ کک بیک اور سپیڈ منی یہ رشوت کا ہی ایک مہذب نام ہے ‘جو کئی سرکاری دفاتر میں کسی فائل کو اس فائل سے حاصل ہونے والی رقم کا ان لکھے معاہدے کی مانند طے شدہ شرح فیصد سے ادائیگی کا نام ''سپیڈ منی‘‘ رکھ دیا گیا ہے اور افسران اسے قطعاً رشوت شمار نہیں کرتے) وغیرہ کی نہ کوئی رسید ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی منی ٹریل۔ جائیداد وغیرہ کے معاملے میں کوئی پھنس جائے یا جعلی بینک اکائونٹس اور رقم کی منتقلی کے معاملے میں پکڑا جائے تو اور بات ہے۔ اپنے عزیزی حمزہ شہباز اور قبلہ آصف زرداری اسی چکر میں پھنسے ہیں اور خیر سے برے پھنسے ہیں۔
پاکستان میں وائٹ کالر کرائم کرنے والوں کے مجموعی طور پر مزے ہیں کہ یہ سب حضرات بلا کے شاعر‘قیامت کے فراڈیے اور بے مثال چالاک ہونے کے ساتھ ساتھ تگڑے اور زورآور بھی ہیں۔ دوسری طرف ان کو قابو کرنے والا قانون اسقام کا مجموعہ ہے اوران جرائم کو پکڑنے پر مامور اداروںکے کرتا دھرتا اس قسم کے جرائم کو پکڑنے کی باقاعدہ تعلیم اور فن سے یکسر محروم ہیں اور ان اداروں کے وکیل ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں‘ لہٰذا ملزمان کے بچ نکلنے کی شرح فیصد تقریباً نوے فیصد سے زیادہ ہے ‘ہاں کوئی کمزور دل اور کم حوصلہ شخص جیل کا نام سن کر ہی ہمت چھوڑ دے اور پلی بارگین پر اتر آئے تو اس کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ احد چیمہ ریمانڈ پر ریمانڈ کے باعث عرصۂ دراز سے پکڑ میں ہے‘ لیکن ابھی تک کوئی بات ایسی سامنے نہیں آئی‘ جس سے پتا چلے کہ موصوف کو سزا بھی ہو سکے گی۔ جب پکڑتے ہیں تو ستر ارب کی کرپشن کا غلغلہ مچاتے ہیں‘ جب ریفرنس دائر کرتے ہیں تو اڑھائی کروڑ کا ہوتا ہے اور عدالت میں ثبوت تیرہ لاکھ روپے کے پیش کیے جاتے ہیں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں سرکار نے عام طور پر ایسے وکیل بھرتی کیے ہوتے ہیں‘ جن کی عمومی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی پریکٹس نہیں چل رہی ہوتی اور سیاسی فوائد کے لیے وہ سرکاری اداروں کے وکیل مقرر کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارے دوست اطہر خان خاکوانی کے والد چچا سالک خان خاکوانی مرحوم فرماتے تھے کہ سستی گاڑی‘ سستا نوکر اور سستا وکیل آپ کو چوک میں ذلیل کرواتا ہے۔
گو کہ زرداری صاحب کے اعصاب اور صحت اب اس طرح نہیں ‘جس طرح دو عشرے پہلے تھی اور نہ ہی انہیں وہ سہولتیں میسر ہوں گی‘ جو تب حاصل تھیں‘ لیکن اس کے باوجود مجھے نہیں لگتا کہ ان سے کچھ حاصل وصول ہو سکے کہ عدالتوں میں دونوں اطراف کے وکیلوں کی استعداد کار میں زمین آسمان کا فرق ہوگا اور استغاثہ کی نالائقیاں بھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہوں گی۔ ایک مشاعرے میں ایک نو آموز شاعر نے ایک شعر ایسا پڑھا ‘جو سارے کا سارا اسرارالحق مجازؔ کے ایک شعر کا چربہ تھا۔ مجازؔ صاحب نے مشاعرے کے بعد اس شاعر سے کہا کہ حضرت! آپ نے ہمارا سارا شعر ہی سرقہ کر لیا۔ وہ شاعر جواباً کہنے لگا: حضور! بس خیال سے خیال ٹکرا گیا ہوگا۔ مجازؔ کہنے لگے؛ لیکن صاحب! ہم نے کبھی سائیکل اور ہوائی جہاز کے آپس میں ٹکرانے کا واقعہ نہ کبھی دیکھا ہے اورنہ کبھی سنا ہے‘ لیکن ایسے مقدمات میں دونوں اطراف کے وکلا کو مدنظر رکھیں تو سائیکل اور جہاز کے ٹکرانے والا معاملہ دیکھنے کو ملتا ہے۔بقول ملک خالد :زرداری کی گرفتاری سے اندرون ِ سندھ پیپلز پارٹی کا تھوڑا بہت گرتا ہوا گراف پھر اوپر کی طرف جانا شروع ہو جائے گا۔ لوگ لاڑکانہ میں پھیلتی ایڈز سے حکومتی لاتعلقی اور تھر میں قحط سے ہونے والی بچوں کی اموات کو بھول کر آئندہ الیکشن میں ایک بار پھر بھٹو فیملی (حالانکہ زرداری صاحب کے قبیلے کا بھٹو خاندان سے کوئی خونی تعلق نہیں) کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے نعرے کے چکر میں آ کر انہیں ووٹ دے دیں گے اور زرداری صاحب اس سیاسی فتح کو بنیاد بنا کر ایک بار پھر ثابت کر دیں گے کہ ان کے خلاف سارے مقدمات فوجداری بنیادوں پر نہیں‘ بلکہ سیاسی بنیادوں پر قائم کئے گئے تھے‘ جنہیں عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ (جاری ہے)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں