"KMK" (space) message & send to 7575

ٹیوے

آزادی مارچ کے ساتھ کیا ہوتا ہے ‘اس کا تو ابھی پتا نہیں‘ لیکن مولانا نے اپنی پارلیمنٹ سے محرومی کا بدلہ عمران خان اینڈ کمپنی کے ہاتھوں کے طوطے اڑا کر لیا ہے۔ اس سے مولانا فضل الرحمن کے چاہنے والوں کے دلوں میں جو ٹھنڈ پڑی ہے‘ وہ بھی بس ''اخیر‘‘ ہے۔ عمران خان نے تھوڑا عرصہ قبل کہا تھا کہ اپوزیشن کرنا بہت مشکل کام ہے‘ جبکہ حکومت کرنا بہت آسان کام ہے۔ دراصل اس وقت تک عمران خان نے صرف دھرنے دیئے تو تھے‘ دھرنے بھگتائے نہیں تھے۔ ایک پنجابی محاورے کے مطابق‘ تب تک خان صاحب نے ''صرف اڑتی ہوئی دیکھی تھیں‘ پھنستے ہوئے نہیں دیکھی تھیں‘‘۔ دھرنا دینا اور خاص طور پر اتنا لمبا دھرنا دینا بذات ِخود مشکل کام تھا‘ لیکن انہیں اب اندازہ ہو رہا ہوگا کہ دھرنا بھگتانا دراصل کتنا مشکل کام ہے۔ ابھی تو خیر سے آزادی مارچ شروع بھی نہیں ہوا اور حکومتی خیمے کی طنابیں ڈھیلی ہوئی جا رہی ہیں۔ ابھی آگے کے مراحل باقی ہیں۔
میاں نواز شریف اور زرداری نے اندر جا کر وہ رونق نہیں لگائی‘ جو مولانا فضل الرحمن نے فی الحال کچھ بھی نہ کرتے ہوئے لگا رکھی ہے۔ میں نے کل ایک ویڈیو کلپ دیکھا کہ ایک بلی چھپکلی کو پکڑنے کی غرض سے ایک ٹب میں آگے ہوئی اور پھسل کر اندرگر گئی‘ پھر اس کے بعد بلی کا حال دیکھنے والا تھا۔ چھپکلی تو ایک کونے میں تھی بلی گھبرا کر باہر نکلنے کی کوشش میں ٹب کی چکنی دیواروں سے پھسل پھسل کر اندر گر رہی تھی اور باہر نکلنے کی کوششوں میں بے حال ہو رہی تھی۔ حکومت کی صورتحال بالکل ویسی ہی ہے۔ اندر سے ڈری بھی ہوئی ہے۔ اوپر سے بہادری بھی دکھا رہی ہے۔ گیدڑ بھبکیاں بھی دے رہی ہے اور صلح کا ڈول بھی ڈال رہی ہے‘ دھمکا بھی رہی ہے اور گھبرا بھی رہی ہے۔ آزادی مارچ نے ایک بار پھر سیاسی سرکس کی ٹکٹوں کی فروخت میں اضافہ کر دیا ہے۔
مولانا فضل الرحمن خاصے کی چیز ہیں۔ ایک نہایت ہی معتبر اور پرانے دوست نے (نام لکھنا مناسب نہیں اور اس کی وجہ صرف خوفِ فسادِ خلق ہے) ایک واقعہ سنایا۔ یہ واقعہ انہوں نے مولانا عبدالستار نیازی مرحوم کے حوالے سے بیان کیا۔ مولانا عبدالستار نیازی نے بتایا کہ وہ ایک بار دوران اسیری کسی سرکاری ریسٹ ہائوس میں بغرض ملاقات گئے۔ مولانا مفتی محمود سے اس ملاقات کے دوران ایک نوجوان دو تین بار اندر آیا تو مفتی صاحب اس کے اندر آنے پر خاموش ہو گئے۔ تیسری مرتبہ جب وہ اندر آیا تو اسے پشتو میں ڈانٹا کہ وہ اب اندر نہ آئے۔ پھر اس ڈانٹنے کی جو وجہ ہمارے دوست نے بیان کی‘وہ بھی ان کے نام کی طرح پردے میں رہے تو مناسب ہے‘ تاہم یہ بتا رہا ہوں کہ جس نوجوان کے اندر پر مولانا مفتی محمود خاموش ہو جاتے تھے اور پھر اسے ڈانٹا بھی تھا‘ وہ نوجوان فضل الرحمن تھے۔ مولانا تو وہ اس کے کافی عرصہ بعد میں بنے۔
جب مولانا فضل الرحمن نے جمعیت علمائے اسلام کی قیادت سنبھالی ‘تب دیو بندی مکتب فکر کے بہت سے اکابرین ان کی قیادت سے اختلاف رکھتے تھے۔ مولانا سمیع الحق اس کی ایک مثال ہیں اور ان کا نام اس لیے لیا کہ وہ آخر دم تک مولانا فضل الرحمن کی قیادت کے جھنڈے تلے نہ آئے تھے‘ وگرنہ دیگر تمام آہستہ آہستہ ''سرنڈر‘‘ کرتے گئے اور چاہے نہ چاہے‘ ان کی لیڈر شپ کو تسلیم کرتے ہی بنی۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے طفیل سب کی ایسی پھرکی گھمائی کہ سب کو ہتھیار پھینکتے ہی بنی۔آج مولانا فضل الرحمن سب سے بڑی پارلیمانی طاقت رکھنے والی مذہبی جماعت کے سربراہ ہیں اور سربراہ بھی ایسے کہ بلا شرکت غیرے ''آل ان آل‘‘ ہیں۔ چاہیں تو حافظ حسین احمد جیسے حاضر جواب اور بذلہ سنج شخص کو ''نکڑ‘‘ میں لگا دیں اور چاہیں تو عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئر مین سینیٹ بنوا دیں۔ اپنے جس سہولت کار کو چاہیں سینیٹ کا ٹکٹ جاری کر دیں اور اپنے جس پیارے کو چاہیں‘ کسی بھی حکومت میں اپنی مرضی کی وزارت دلوا دیں۔ پسند کریں تو اپنے آدھے خاندان کو اسمبلیوں کے ٹکٹ جاری کر دیں۔ پارٹی میں کسی کی مجال نہیں کہ وہ اس زمرے میں کوئی اعتراض یا سوال کرنے کی ہمت کرے۔
ایک عرصے تک کشمیر کمیٹی کی سربراہی کے زور پر وفاقی وزیر کے مرتبے کے مساوی موج میلہ کرنے اور اسلام آباد میں اپنے کسی قریبی اور اعتباری ساتھی کو وزارت ِہائوسنگ اینڈ ورکس کے سنگھاسن پر بٹھا کر اسلام آباد کے تمام سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ پر دست شفقت رکھنے والے مولانا فضل الرحمن کو ایک عرصے بعد اقتدار سے دوری کا جو قلق ہے‘ وہ صرف وہی جانتے ہیں۔ ہم آپ کس شمار و قطار میں ہیں۔ مولانا کی وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس سے ویسی ہی محبت تھی ‘جیسی ایم کیو ایم کو پورٹس اینڈ شپنگ کی وزارت سے۔ ان وزارتوں سے کیا بھید وابستہ ہیں؟ یہ ہم جیسے عامی لوگ نہیں جانتے اور اگر جان بھی لیں گے تو کیا کریں گے؟
ملتان شہر سے تعلق رکھنے والے سیلفی فیم مفتی عبدالقوی نے ‘ جسے خود تو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسے مقتولہ قندیل بلوچ کے ساتھ بنوائی گئی سیلفی کتنی مہنگی پڑے گی اور کتنی کمیٹیوں سے اس کی فراغت کا باعث بنے گی‘ پیش گوئی کی ہے کہ مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ سے دو دن قبل خرابیٔ صحت کا ڈرامہ کریں گے اور ایک روز پہلے بغرض ِعلاج باہر روانہ ہو جائیں گے۔ ویسے تو مفتی عبدالقوی کی ایک تازہ ترین پیش گوئی سرے سے غلط ثابت ہو چکی ہے ‘جو انہوں نے اپنی قندیل بلوچ کے مقدمہ قتل سے بریت والے دن کی تھی کہ اگلے گیارہ دن میں وہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر بن جائیں گے۔ آج اس دعوے کو گیارہ چھوڑ‘ بیس دن ہو گئے ہیں‘ مگر مفتی عبدالقوی کی مشیری کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہے۔
صرف مفتی عبدالقوی پر ہی کیا موقوف ہے؟ اور بہت سے سیانے بھی اپنی اپنی پیش گوئیوں کی پھلجھڑیاں چھوڑ رہے ہیں‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ مولانا کیا کرنے جا رہے ہیں؟ ملک عبدالکریم عرف ''مڈھی ملک‘‘ گرمیوں کی دوپہر میں لوہے کے بنے ہوئے چمٹا نما پٹاخے میں ''پٹاس‘‘ بھر کر آم کے موٹے درخت کے تنے پر مارتا تھا تو ایک زور دار پٹاخہ چلتا تھا۔ نہ کوئی نقصان ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی پرندہ مرتا تھا‘ لیکن باغ میں ایک دم سے ایسی بھگدڑ مچ جاتی تھی۔ کوے کائیں کائیں کرتے ہوئے اڑنے لگ جاتے۔ طوطے ٹیں ٹیں کرتے اور فصل اجاڑنے والے دوسرے پرندے ڈر کر اڑ جاتے۔ باغ میں ایسی ہا ہا کار مچتی کہ لگتا تھا چھوٹی موٹی قیامت آ گئی ہے اور جانے بندوق چلنے سے کتنے پرندے گھائل ہو گئے ہیں‘ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ فی الحال مولانا فضل الرحمن نے مڈھی ملک کی طرف پٹاس بھرا پٹاخہ چلایا ہے اور سر پر پیلا رومال باندھے ستر کے آئین کے تناظر میں صورتحال کا مزہ لے رہے ہیں۔ ادھر حکومتی کیمپ پر وہی کیفیت طاری ہے ‘جو باغ میں سب پرندوں کی ہوتی تھی۔
کیا مولانا یہ سب کچھ کسی اشارے اور آشیرباد سے کر رہے ہیں تو اس کا کیا مقصد ہے؟ اگر مولانا کسی تائید غیبی کے بغیر یہ سب کچھ کر رہے ہیں‘ تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ یہ وہ دو سوال ہیں‘ جن کا جواب گو کہ ایک ہی ہے ‘ مگر یہ جواب کیا ہے؟ کسی کو معلوم نہیں۔ سب قیافے ہیں اور پنجابی کے ایک لفظ کے مطابق صرف ''ٹیوے‘‘ ہیں۔ ٹیوے لگانے والے بھی کم نہیں اور ان ٹیووں کی تعداد بھی کم نہیں‘ لیکن زیادہ تر ٹیوے یہ نتیجہ دے رہے ہیں کہ اس سارے ہنگامے کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کہ موجودہ صورتحال میں کسی دوسرے آپشن کا کوئی راستہ ہی نظر نہیں آ رہا اور مائنس ون ناقابل ِعمل حل ہے کہ اگر مائنس ہوا تو ٹوٹل مائنس ہوگا‘ لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ اس کے آگے پھر ٹیوے ہیں۔ ظاہر ہے ٹیوا تو پھر ٹیوا ہی ہوتا ہے‘ اس پر اعتبار تو نہیں کیا جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں