"KMK" (space) message & send to 7575

صوبہ جنوبی پنجاب کے بعد صوبہ گلگت بلتستان

گلگت بلتستان میں انتخابات کا غلغلہ ہے اور پاکستانی سیاست کے عین مطابق سیاسی پارٹیاں وعدوں کے طومار کے ساتھ عوام کو ماموں بنانے میں مصروف ہیں۔ گلگت بلتستان کو 2009ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ایجنسی سے خود مختار گورنمنٹ کا درجہ دے دیا گیا۔ 2009ء کے انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی اور سید مہدی شاہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس کے بعد 2015 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے کامیابی سمیٹی اور حفیظ الرحمن وزیر اعلیٰ کے منصب پر متمکن ہوئے۔ یعنی گزشتہ گیارہ سال سے گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی ہے ا ور حالیہ جلسوں میں دونوں پارٹیاں گلگت بلتستان کی پسماندگی اور عدم ترقی پر کہرام مچا رہی ہیں اور اس کا سارا ملبہ عمران خان پر ڈال رہی ہیں۔ ویسے عمران خان پر ملبہ ڈالنے کے لیے پنجاب میں ان کی حکومت کی کارکردگی کافی سے زیادہ ہے لیکن سیاست جھوٹ کا چلن ہے اور گلگت بلتستان میں جھوٹ کا سورج پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔یہ تو گزشتہ دس سال کی کارکردگی اور اس کے ذمہ داروں کا حال تھا‘ دوسری طرف عمران خان کی تحریک انصاف بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے اور خان صاحب گلگت بلتستان کومکمل صوبہ بنانے کے وعدے کے ساتھ حالیہ انتخابات کو اسی طرح اغوا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس طرح انہوں نے جنوبی پنجاب والوں کو علیحدہ صوبہ بنانے کی گولی دے کر یہاں الیکشن میں بڑی کامیابی حاصل کی تھی مگر جنوبی پنجاب والے اپنے صوبے کو چراغ لے کرڈھونڈ رہے ہیں اور صوبے کا دور دور تک کوئی نام و نشان نظر نہیں آ رہا۔
بات جنوبی پنجاب کے علیحدہ صوبے سے چلی تھی اور سب سیکریٹریٹ تک آن پہنچی۔ پھر اس پر علیحدہ سے ایک تماشا لگ گیا۔ کئی ماہ تو اس کھینچا تانی میں گزر گئے کہ سب سیکریٹریٹ کہاں بنے گا؟ ملتان یا بہاولپور؟ ملتانیوں کا پلڑا شروع شروع میں بڑا ہلکا رہا اور لگتا تھا کہ بہاولپور بلکہ زیادہ کھلے لفظوں میں یہ کہیں کہ طارق بشیر چیمہ اس سیکریٹریٹ کو گھسیٹ کر بہاولپور لے جائیں گے۔ اس پرملتان والے بھی ہوشیار ہوئے اور اس معاملے میں شور مچانے لگ گئے؛ تاہم مزے کی بات یہ تھی کہ ملتان کے عوام اورغیر منتخب لوگ تو اس معاملے میں پیش پیش تھے جبکہ منتخب نمائندے حسبِ معمول بڑی سرکار کی مرضی میں راضی نظر آنے میں مصروف تھے۔ شاہ محمود قریشی زبانی کلامی تو ملتان والوں کو گولی دینے میں مصروف تھے مگرعملی طور پر کوئی واضح مؤقف اختیار کرنے میں پس و پیش کرتے رہے۔ ملتان والوں کے بار بارسوالات پر بھی وہ کھل کرکچھ کہنے کے بجائے گول مول جوابات دے کر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ ملتان کے میڈیا والوں کے ساتھ ان کی تھوڑی تلخی بھی ہوئی اور وہ مقامی میڈیا کے سخت سوالات کا جواب دینے کے بجائے ان سے سینگ بھی پھنسا بیٹھے اور بعد از خرابیٔ بسیار ان سے تعلقات بحال کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
اسی دوران ملتان میں بڑے بڑے پینا فلیکس لگنا شروع ہو گئے اور ملک احمد حسین ڈیہڑ نے شاہ محمود قریشی کے خلاف ایک پریس کانفرنس کھڑکا دی۔ شاہ محمود قریشی نے ملتان کے سارے ایم این اے اور ایم پی اے اکٹھے کئے اور احمد حسین ڈیہڑ کے خلاف اخباری بیانات دے مارے۔ احمد حسین ڈیہڑ نے پھر جوابی وار کیا تاہم بعد ازاں اوپر سے ہدایت آنے پر سیزفائر ہو گیا۔ عمران خان نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کوکہا کہ وہ احمد حسین ڈیہڑ کا خیال رکھا کریں اور ہر ماہ انہیں ملا کریں۔ اس ''لارے‘‘ پر احمد حسین ڈیہڑ اور شاہ محمود قریشی کے درمیان جنگ بند ہو گئی تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ شاہ محمود قریشی بھی جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے معاملات پر ملتان کے لیے خواہ نیم دلی سے ہی سہی مگر بات کرنے پر تیار ضرور ہو گئے۔ اس ساری بھاگ دوڑ کا نتیجہ خیرکیا نکلنا تھا جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کا معاملہ ایک پنجابی محاورے کی مانند ''جولاہے کی نلی‘‘ کی طرح ادھر سے اُدھر آنے جانے کے بعد کسی حد تک طے ہو گیا اور سولہ محکموں کو ملتان اور بہاولپور میں تقسیم کرنے پر اتفاق رائے ہو گیا جبکہ ایک ایڈیشنل آئی جی پولیس کو بھی جنوبی پنجاب میں تعینات کردیا گیا۔
پہلے پہل تو یہ ہواکہ ایڈیشنل آئی جی ملتان کو دے دیا گیا اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور کو بخش دیا گیا۔ اس پر خاصا رولا پڑا کہ لوگوں کے زیادہ کام ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے متعلق تھے نہ کہ ایڈیشنل آئی جی سے۔ بعد ازاں فیصلہ ہوا کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہفتے میں کچھ دن ملتان میں دفتر لگائیں گے اور کچھ دن بہاولپور میں (مجھے یاد نہیں کہ کتنے دن کہاں کے لیے طے ہوئے تھے) بیٹھیں گے۔ لیکن اس پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے تو یہ ہوا کہ ملتان میں تعینات ہونے والے ایڈیشنل آئی جی پولیس انعام غنی خود کو ملنے والے برائے نام اختیارات پر بڑے نالاں تھے۔ ان کا تب گلہ یہ تھا کہ جنوبی پنجاب کے لیے یہ پوسٹ تو منظور کر لی گئی ہے مگر ایڈیشنل آئی جی کے پاس اختیارات نہیں ہیں اور ان حالات میں کام کرنا خاصا مشکل ہے۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی پولیس انعام غنی کی لاٹری سی سی پی او لاہور عمر شیخ اور آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کے پھڈے میں نکل آئی اور شعیب دستگیر کی فراغت پر پنجاب کے آئی جی پولیس بن گئے۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ان مشکلات کا ازالہ کرتے جو انہیں بطور ایڈیشنل آئی جی پولیس جنوبی پنجاب لاحق تھیں‘ مگر ہوا یہ کہ وہ آئی جی پنجاب بن کر ملتان سے لاہور آ گئے ہیں تو وہ تمام مشکلات اور مسائل جن کا انہیں بطور ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب سامنا تھا‘ دور کرنے کے بجائے اپنے آئی جی پنجاب والے ٹھاٹ بھرے اختیارات کے مزے لینے میں مصروف ہو گئے اور اب وہ اپنے چند اختیارات سے دستبردار ہونے کے بجائے وہی پرانا سسٹم چلا رہے ہیں۔ اس ملک میں اختیارات کی مرکزیت کے خلاف شور مچانے والوں کو جب خود مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے وہ اختیارات پر اسی طرح قابض ہو کر بیٹھ جاتے ہیں جس طرح ان کے پیشرو اختیارات کا گھنٹہ گھر بن کر بیٹھے ہوتے تھے۔
ادھر یہ عالم ہے کہ اب آدھے محکمے ملتان میں ہیں ا ور آدھے بہاولپور میں‘ لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ کہیں بھی ٹکے کا کام نہیں ہو رہا۔ آج جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کو قائم ہوئے قریباً ڈھائی ماہ ہو گئے ہیں لیکن سوائے زبانی جمع خرچ کے عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہوا اور سارے کے سارے معاملات ابھی تک لاہور کے ہاتھ میں ہیں۔ اوپر بات ہو رہی تھی ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کی ملتان اور بہاولپور میں باری باری دفتر لگانے کی۔ اصل صورتحال یہ ہے گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے ملتان والے یہ سمجھ رہے ہیں کہ ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاولپور میں ہیں اور بہاولپور والوں کا خیال ہے کہ وہ ملتان میں لوگوں کے مسائل حل کرنے میں مصروف ہیں جبکہ مخبر یہ بتاتا ہے کہ ہر دو شہروں والے خوش فہمی کا شکار ہیں اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری جنوبی پنجاب کے ہاتھوں ماموں بنے ہوئے ہیں کیونکہ موصوف نہ ملتان میں ہیں اور نہ ہی بہاولپور بلکہ دراصل لاہور میں ہیں۔ ''لؤ! بنا لؤ صوبہ تے بنا لؤ اپنا سیکریٹریٹ‘‘۔ صوبہ جنوبی پنجاب کے قیام کی کامیاب نمائش کے بعد اب عمران خان گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے چلے ہیں۔ گلگت بلتستان والوں پر اللہ اپنا کرم کرے۔ یہ ویسا ہی معاملہ دکھائی دے رہا ہے جیسے نشتر میڈیکل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے کے بعد کا حال ہے۔ اسی کی دیکھا دیکھی اور مقابلے بازی میں ملتان کے گزشتہ دورے کے دوران وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے مادرِ علمی ایمرسن کالج کو یونیورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا تھا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں