"KMK" (space) message & send to 7575

تتلیاں کہاں چلی گئیں؟

یہ گھاس کے وسیع و عریض قطعے کے ایک کنارے پر اگی ہوئی خود رو جھاڑیوں، پھولوں اور پودوں پر مشتمل چار پانچ کنال کا ٹکڑا ہے۔ اس کے ایک طرف ایک لوہے کا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے "Do not mow" یعنی یہاں پر کٹائی کرنا منع ہے۔ اس کے نیچے تھوڑا باریک لکھا ہوا ہے:"Active prairie and habitat" یعنی یہ مرغزار فعال قدرتی ٹھکانا ہے اور اس کے ساتھ تتلی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ آسان لفظوں میں یہ جگہ تتلیوں کا فعال ٹھکانہ ہے۔ اس ٹکڑے کے درمیان میں تین لکڑی کے بینچ پڑے ہوئے ہیں۔ اتوار کو علی الصبح میں ان میں سے ایک بینچ پر جاکر بیٹھ گیا۔ چاروں طرف رنگ برنگی تتلیاں اڑ رہی تھیں۔
یہ تتلیاں مجھے بچپن میں لے جاتی ہیں۔ حاجی بٹے کے باغ میں اڑتی ہوئی تتلیاں، میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں میں فوارے کے ساتھ گلاب کے گھنے تختے کے ارد گرد اڑتی ہوئی تتلیاں، گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کے سامنے ایمرسن کالج کے (تب کے) آرٹس بلاک کے لان کے کنارے لگے ہوئے پھولوں پر منڈلاتی ہوئی تتلیاں۔ کتنے ہی رنگوں والی مختلف اقسام کی چھوٹی بڑی تتلیاں‘ ان میں سب سے زیادہ تو وہی کالی اور نارنجی رنگ کی تتلیاں جنہیں ''کامن ٹائیگر‘‘ کہتے ہیں، اڑ رہی ہوتی تھیں، لیکن ان کے ساتھ ساتھ سفید، پیلی اور کالے رنگ کی تتلیاں بھی نظر آ جاتی تھیں۔ کبھی کبھار گہرے نیلے رنگ کے ساتھ سنہرے حاشیے دار پروں والی تتلی بھی نظر آ جاتی تھی جسے دیکھتے ہی ہم اس کے پیچھے لگ جاتے تھے۔ جب یہ تتلی ہمارے ہاتھ لگتی تو اس کا سارا سنہرا اور نیلا رنگ ہماری انگلیوں پر لگ جاتا۔ بالکل سونے جیسا رنگ ہماری انگلیوں پر چمکتا۔ ہم اس تتلی کو اپنی کتاب میں پھیلا کر رکھتے اور صفحات کے درمیان دبا دیتے۔ تھوڑی دیر بعد اسے وہاں سے نکال کر کتاب میں دوسری جگہ رکھ دیتے۔ ایک دو دن میں یہ تتلی سوکھ جاتی اور پھر کافی عرصے تک ہماری کتاب میں پڑی رہتی۔ تب تتلیاں جمع کرنا اور پرندوں کے پر جمع کرنا ہمارا مشغلہ ہوتا تھا۔ ہمارے گھر کے نکڑ والی سمت چاچا عاشق کا گھر تھا جس میں بہت بڑا جامن کا درخت تھا۔ اس میں درجنوں طوطوں نے ڈیرہ لگا رکھا تھا۔ وہاں ہم روزانہ دوپہر کو طوطوں کے پر تلاش کرتے۔ حاجی بٹے کے باغ میں ہدہد، نیل کنٹھ، کال کلیچی، بلبل اور شارک کے علاوہ تلیّر وغیرہ کے پر بھی مل جاتے۔ کبھی کبھار کوئی دوست مور کا پر لا دیتا تو ہم اسے قرآن مجید میں رکھ دیتے تھے۔ لیکن تتلیاں پکڑنا اور انہیں کتابوں میں خشک کرنا ایک خاص قسم کا مشغلہ تھا۔
میں نے آخری بار تتلیوں کا اس قسم کا نظارہ ایمرسن کالج کے جنوبی سمت میں درختوں، پودوں اور پھولوں پر مشتمل ایک جھنڈ نما ذخیرے میں کیا تھا۔ ان درختوں کے درمیان میں چار چھوٹے چھوٹے تالاب تھے، جن میں موٹے موٹے مینڈک ٹراتے رہتے تھے۔ یہ مینڈک ایف ایس سی کے طلبہ کے لیے زوالوجی کے پریکٹیکل میں چیر پھاڑ کے کام آتے تھے۔ درختوں، پودوں اور پھولوں پر مشتمل یہ قطعہ بوٹینیکل گارڈن کہلاتا تھا۔ میں ہر دوسرے تیسرے دن یہاں آ جاتا۔ یہاں درختوں پر پرندے چہچہاتے تھے اور تتلیاں اڑتی تھیں۔ بلا مبالغہ درجنوں نہیں، بلکہ سینکڑوں تتلیاں۔ تب تک تتلیوں کو کتابوں میں سکھانے کا شوق ماند پڑ چکا تھا، لیکن تتلیوں کو اڑتے دیکھنا ایسا خوش کن نظارہ تھا کہ دیکھتے دل نہیں بھرتا تھا۔ کئی دوستوں نے میرے ساتھ اس جگہ پر آ کر ایک آدھ بار تو اس سے لطف لیا مگر پھر سب نے اس کام کو بور تصور کرتے ہوئے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں بعض اوقات بلا مبالغہ گھنٹہ گھنٹہ بھر یہاں گھومتا رہتا۔ گزشتہ دو تین عشروں کے دوران کئی بار دل کیا کہ وہاں دوبارہ جائوں مگر پھر اسی خوف نے روک لیا جو مجھے اپنے بچپن اور لڑکپن سے وابستہ کئی چیزوں کے بارے میں لاحق ہے کہ اگر میں وہاں گیا اور سب کچھ ویسا نہ ہوا جیسا میری یادوں میں محفوظ ہے تو کیا ہو گا؟ بالکل بانو قدسیہ کے ناولٹ ''موم کی گلیاں‘‘ کی آخری دو تین سطروں کی طرح۔
بوہڑ گیٹ کے باہر بائیں ہاتھ پر آٹھ دس دکانیں چھوڑ کر ایک چھوٹی سی بیکری تھی ''گورداسپور بیکری‘‘۔ میں بچپن میں وہاں سے کیک لیا کرتا تھا۔ میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ وہ دنیا کا سب سے لذیذ اور مزیدار کیک ہوتا تھا۔ جب آخری بار خریدا تب اس کی قیمت ایک روپیہ تھی۔ ہم چوک شہیداں سے قاسم پور کالونی چلے گئے اور وہاں سے عثمان آباد اور پھر زکریا ٹائون آ گئے۔ اس سارے عرصے میں‘ میں اس کیک کا ذائقہ ہمیشہ اپنے منہ میں محسوس کرتا رہا‘ لیکن کبھی گورداسپور بیکری جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہی خوف کہ اگر کیک ویسا نہ لگا تو پھر کیا ہوگا؟ میں نے کئی بار چوک شہیداں جاتے ہوئے اس بیکری کے سامنے سے گزرتے ہوئے اپنی اہلیہ اور بچوں کو یہ بیکری دکھائی۔ ہر بار میری اہلیہ نے کہا کہ میں گاڑی روک کر یہاں سے اپنا پسندیدہ کیک لے لوں مگر میں اس بیکری کو دیکھتے ہوئے گزر جاتا تھا، کبھی بریک لگانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ گزشتہ سال وہاں سے گزرتے ہوئے حسب معمول بیکری پر نظر دوڑانے کے لیے گاڑی آہستہ کر لی مگر وہاں بیکری سرے سے غائب تھی۔ عشروں کے بعد گاڑی روکی اور اتر کر تلاش کرنے کی کوشش کی مگر بیکری ندارد تھی۔ ایک خوف سے جان چھوٹی اور ایک ملال سے پالا پڑ گیا‘ حالانکہ اگر بیکری موجود ہوتی تو بھی میں نے بھلا کون سا کیک خرید لینا تھا؟
پھر مجھے ''سنیک پاس‘‘ کی تتلیاں یاد آ گئیں۔ برطانیہ میں مانچسٹر کے نواحی گائوں ''ہولنگ ورتھ‘‘ میں ڈیرہ ہوتا تھا۔ تقریباً روزانہ شام کو وہاں سے نکلنا اور سنیک پاس سے گزر کر کبھی ''سنیک پاس اِن‘‘ تک جانا‘ کبھی ہوم فرتھ اور کبھی ہڈرس فیلڈ نکل جانا۔ سارے راستے میں تتلیاں ہوتی تھیں، سینکڑوں، ہزاروں۔ گزشتہ سے پیوستہ سال برادر بزرگ کے ساتھ میکسیکو میں موجود ایک عجوبہ ''چیچن اِٹزا‘‘ دیکھنے گیا تو وہاں ایک پرانے اور متروک زیر زمین راستے والے گڑھے میں بیسیوں تتلیوں پر مشتمل پرے کے پرے رنگوں کی بہار دکھا رہے تھے۔ میں وہاں مبہوت کھڑا رہا۔ برادر بزرگ اعجاز نے میری اس محویت پر بڑی حیرانی کا اظہار کیا۔ اب میں انہیں کیا بتاتا کہ یہ تتلیاں مجھے کس طرح عشروں پیچھے لے جاتی ہیں۔ ذہن میں پڑی ہوئی گرہیں بھلا اتنی آسانی سے کہاں کھلتی ہیں۔
بے تحاشا اور کثرت سے ہونے والے زرعی ادویات کے سپرے نے جہاں ضرر رساں کیڑوں کا قلع قمع کیا‘ وہیں ماحول دوست اور فصل دوست کیڑوں کا بھی خاتمہ کر دیا ہے۔ تتلیاں قریب قریب عنقا ہو گئی ہیں۔ کبھی کبھار کوئی بھولی بھٹکی ایک آدھ تتلی نظر آ جائے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ سارے ماحول کا توازن برباد کر کے رکھ دیا گیا ہے۔ پیپل اور بڑ کے درختوں پر لگنے والے گولروں کو کھانے والے تلیر بھی اب کم ہی نظر آتے ہیں۔ درختوں پر اڑتی ہوئی بلبل دیکھے عرصہ گزر گیا ہے۔ گلگشت ہائی سکول کے شہتوتوں پر اڑتی ہوئی کال کلیچیاں، درختوں کے تنے میں سوراخ کرنے میں مصروف ہدہد، ایمرسن کالج کے آرٹس بلاک کے پرانے بڑ پر بسیرا کرتے ہوئے الّو اور نیلے رنگدار پروں اور موٹے سروں والے نیل کنٹھ بھی عرصہ ہوا ہے دکھائی نہیں دیے۔
قارئین! مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کئی لوگ اس کالم کو پڑھ کر بڑے بور ہوئے ہوں گے اور دل ہی دل میں پیچ و تاب بھی کھا رہے ہوں گے، تاہم جنہوں نے اسے درمیان میں ہی چھوڑ دیا تھا وہ اچھے رہ گئے، لیکن میں کیا کروں؟ رنگ برنگی تتلیوں کا معاملہ آن پڑے تو قارئین کی طعن و تشنیع کی کسے پروا ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں