"KMK" (space) message & send to 7575

ریل کی سیٹی… (1)

ریل گاڑی میری جنریشن کے بیشتر لوگوں کے بچپن کا رومانس ہے۔ بچپن کے رومانس کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ بہرطور کسی نہ کسی طرح قبر تک کے سفر میں آپ کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے۔ آپ دنیا داری میں‘ اپنی مصروفیات میں اور کارِ زندگی میں اسے بھول بھی جائیں تو یہ یکدم آپ کے اندر ایسے پھوٹ پڑتا ہے جیسے بارش ہوتے ہی کبھی بیر بہوٹیاں باہر نکل آتی تھیں۔ ان بیر بہوٹیوں سے یاد آیا‘ اب تو عشرے ہو گئے یہ سرخ رنگ کی شرمیلی سی شے بھی نظر نہیں پڑی۔ پہلی بار بیر بہوٹیاں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک 325ج ب میں دیکھی تھیں۔ عباس کے ساتھ۔ اسی چک کا رہائشی‘ بھوری آنکھوں والا عباس تقریباً میرا ہم عمر تھا۔ ہم تب اسے ''بلی آنکھوں‘‘ والا عباس کہتے تھے۔ چک 325ج ب ٹوبہ ٹیک سنگھ ریلوے سٹیشن سے بمشکل پانچ کلو میٹر ہوگا۔ تب فاصلے کیلئے میل کا پیمانہ استعمال ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے یہ چک ٹوبہ ٹیک سنگھ شہر کے مرکز سے لگ بھگ تین میل دور ہوگا۔ اب تو سمجھیں شہر کا حصہ بن چکا ہے۔ ریل کے سفر سے جڑے ہوئے بچپن کے رومانس سے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا تعلق بھی بہت گہرا ہے۔ ہم چھٹیوں میں چک 325 ج ب جانے کیلئے ملتان سے ٹوبہ ٹیک سنگھ تک ریل گاڑی پر جاتے تھے۔
بات ریل گاڑی سے شروع ہوئی اور بیر بہوٹی سے ہوتی ہوئی ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک 323ج ب تک چلی گئی لیکن یہ سب چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ بیر بہوٹی کم از کم میرے بچوں نے تو نہیں دیکھی۔ مجھے بھی یاد نہیں کہ چک 325ج ب میں برسات کے دوران زمین سے نکلنے والی اس مخلوق کو میں نے اس سے پہلے کبھی دیکھا ہو۔ اس سے پہلے ایسی جسامت کے کالے رنگ کے کیڑے جسے ہم ''اللہ میاں کی گائے‘‘ کہتے تھے چوک شہیداں میں گھر کے ساتھ ایک میدان میں دیکھا کرتے تھے جہاں یہ بھینس کے اپلوں کے نیچے نظر آتے تھے لیکن صرف جسامت کا موازنہ کرتے ہوئے یہ کیڑا یاد آ گیا وگرنہ کہاں دلکش بیر بہوٹی اور کہاں یہ کالی اللہ میاں کی گائے! بیر بہوٹی سرخ رنگ کا مخملیں کیڑا ہے۔ مخملیں کا لفظ استعارے کے طور پر یا مبالغے میں استعمال نہیں کیا۔ اس خوبصورت کیڑے پر باقاعدہ مخمل سی جلد ہوتی تھی۔ ہم اسے پکڑ کر اپنی جھولی میں ڈال لیتے تھے اور صرف دیکھ کر خوش ہوتے تھے پھر اسے دوبارہ زمین پر چھوڑ دیتے تھے۔ میرے بچوں نے یہ خوبصورت کیڑا کبھی نہیں دیکھا‘ ان کی کیا کہوں‘ میں نے تو خود کئی عشروں سے یہ حیران کن حد تک خوبصورت مخلوق نہیں دیکھی۔ خدا جانے اب بھی یہ برسات کے موسم میں ٹوبہ ٹیک سنگھ کے چک نمبر 325ج ب میں زمین سے نکلتی ہے یا نہیں؟ مجھے تو اس چک کی برسات دیکھے بھی کم و بیش پانچ عشرے گزر گئے ہیں۔ اس مشینی زندگی نے ہمیں دیا بھی بہت کچھ ہے مگر عوضانے میں بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ یہ بڑی مہنگی ادائیگی ہے مگر کبھی اس گھاٹے کے سودے کا احساس ہی نہیں ہوا۔
جیساکہ میں نے پہلے کہا ہے یہ بچپن کا رومانس اندر سے نکلتا نہیں۔ بس آنکھیں موندے ہمارے اندر کہیں پڑا رہتا ہے اور ذرا سا یاد کا چھینٹا پڑے تو اندر سے ایسے نکل پڑتا ہے جیسے برسات میں بارش ہو تو بیر بہوٹیاں نکل پڑتی ہیں۔ گزشتہ تین ہفتوں سے روزانہ رات ریل گاڑی کی یاد کے ہلکوروں میں نیند کی وادیوں میں کھو جاتا ہوں۔ پیریز برگ میں اس نئے گھر کے قریب سے ٹرین گزرتی ہے۔ ظاہر ہے ایک چھوڑ کئی ٹرینیں گزرتی ہوں گی مگر دن کو کبھی اس کی مخصوص سیٹی سنائی نہیں دی۔ ایک دو بار آتے ہوئے ٹرین کا پھاٹک ضرور بند ملا اور ٹرین سامنے سے گزری بھی۔ مگر جو سحر اس کی رات گئے بجنے والی سیٹی طاری کرتی ہے اس کی بات ہی اور ہے۔
یہ محض اتفاق ہے کہ ٹولیڈو میں میری بیٹی کا پہلا گھر بھی ریلوے ٹریک سے شاید دو اڑھائی فرلانگ پر تھا۔ پھر پیریز برگ میں جو گھر لیا وہ بھی اسی ریلوے ٹریک کے قریب تھا اور اب جو گھر خریدا ہے وہ بھی ریلوے ٹریک سے تقریباً دو تین فرلانگ کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہی ریل گاڑی ہے جو ٹولیڈو آتے جاتے پیریز برگ سے گزرتی ہے پھر یہ ریل گاڑی اللہ جانے کہاں چلی جاتی ہے مگر کم از کم مجھے میرے بچپن تک لے جاتی ہے۔ میرا آبائی گھر چوک شہیداں کے محلہ غریب آباد میں تھا اور ملتان شہر کا ریلوے سٹیشن یہاں سے تین ساڑھے تین فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔ اس گھر میں بھی ٹرین کا ہارن رات کے سناٹے میں ہی سنائی دیا کرتا تھا۔ اللہ جانے یہ کیا اسرار ہے کہ بالکل اسی فاصلے سے ٹرین کا ہارن دن کو تو کبھی سنائی دیتا تھا لیکن رات ہو تو ایسا صاف سنائی دیتا تھا کہ لگتا تھا کہ ٹرین گھر کے صحن میں سے گزر رہی ہے۔ یہ ہفتہ پہلے کی بات ہے۔ حسبِ معمول سیفان میرے دائیں طرف اور ضوریز میرے بائیں طرف لیٹا ہوا تھا۔ اس روز ریل گاڑی نے خلافِ معمول چار پانچ سیٹیاں بجائیں۔ شاید ٹریک پر کوئی ہرن آ گیا تھا یا کوئی اور معاملہ تھا۔ میں نے سیفان سے پوچھا کہ یہ کس چیزکا ہارن ہے؟ سفیان سے پہلے ضوریز بول پڑا اور کہنے لگا: بڑے بابا! یہ ٹرین کا ہارن ہے۔ سیفان ایک دم سے اکسائٹیڈ ہو گیا اور بتانے لگا کہ یہ ٹرین روزانہ یہاں سے گزرتی ہے۔ پھر مجھ سے کہنے لگا: میں نے آپ کو ایک دن سڑک پر گزرتے ہوئے اپنے دوست کریم کا گھر دکھایا تھا۔ دکھایا تھا نا؟ میں نے جواب دیا کہ ہاں آپ نے مجھے کریم کا گھر دکھایا تھا۔ وہ بتانے لگا کہ کریم کا گھر ٹرین کے ٹریک کے بالکل ساتھ ہے۔ اس کے گھر کی سڑک بھی ریلوے پھاٹک سے پہلے آتی ہے۔ اگر پھاٹک بند ہو تو ہم اپنے گھر نہیں آ سکتے مگر کریم اپنے گھر جا سکتا ہے کیونکہ اس کا گھر پھاٹک سے پہلے آ جاتا ہے۔
میں نے سیفان اور ضوریز سے پوچھا کہ کیا وہ کبھی ٹرین پر چڑھے ہیں؟ دونوں ایک دم سے اداس ہو گئے اور کہنے لگے کہ انہوں نے کبھی ٹرین پر سفر نہیں کیا۔ سیفان بتانے لگا کہ اس نے بس میں‘ کار میں اور جہاز میں تو سفر کیا ہے لیکن ٹرین پر کبھی سفر نہیں کیا۔ ضوریز نے درمیان میں بات کاٹ کر بتایا کہ انہوں نے بوٹ پر بھی سفر کیا ہے۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا میں نے کبھی ٹرین پر سفر کیا ہے؟ میں نے کہا کہ میں نے بچپن میں ٹرین پر بہت سفر کیا ہے۔ سیفان پوچھنے لگا کہ جب آپ نے ٹرین پر سفر کیا تھا آپ کی عمر کتنی تھی؟ عمر پوچھنا شاید وہاں معمول کی بات ہے۔ مجھے یاد آیا کہ جب دو سال پہلے سیفان کو گھر کے قریب پارک میں لے کر گیا تھا تو وہاں پہلی بار ملنے والے بچے پہلے سوال میں ایک دوسرے کو اپنی عمر بتا رہے تھے اور پوچھ بھی رہے تھے۔ سیفان نے اپنے ساتھ سلائیڈ لینے والے بچے کو اپنا نام بتانے کے بجائے بتایا کہ اس کی عمر چار سال ہے اور پھر پوچھے لگا کہ اس کی عمر کیا ہے؟ اس بچے نے بتایا کہ وہ پانچ سال کا ہے۔ میرے ٹرین کے پہلے سفر سے ہی کیا‘ میں کوئی واقعہ بھی سناؤں تو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ تب میری عمر کیا تھی؟میں نے سیفان کو بتایا کہ تب میری عمر شاید چار سال ہوگی۔ ضوریز بتانے لگا کہ وہ بھی چار سال کا ہے۔ میں نے اس کے گال تھپتھپائے اور اسے بتایا کہ ہاں! میں آپ جتنا تھا جب میں نے ٹرین کا سفر کیا۔ ممکن ہے میں نے اس سے پہلے بھی کئی بار ٹرین کا سفر کیا ہو مگر مجھے جو سفر یاد ہے وہ کراچی کا سفر تھا اور میں تب چار سال کا تھا۔ میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ جب ابا جی اور میں اس سفر پر روانہ ہوئے تو ہمارے ساتھ ایک عدد اٹیچی کیس‘ ایک عدد بھاری بھر کم بستر بند اور ایک چار خانوں والا سٹین لیس سٹیل کا ٹفن کیریئر بھی تھا۔ اگر میں انہیں یہ سب کچھ بتاتا تو وہ مزید سوالات کرتے اور میرے لئے ان کو بہت سی چیزیں سمجھانا مشکل ہو جاتا کہ بھلا ہم بستر بند اپنے ساتھ اٹھا کر کیوں لے گئے تھے؟ اور ٹفن اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ راستے میں پیزا بھی تو لیا جا سکتا تھا۔ لیکن میں نے انہیں اس سفر کے دوران سمہ سٹہ سٹیشن پر ہونے والا واقعہ سنایا تو دونوں ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں