"KMK" (space) message & send to 7575

ہماری انجینئرنگ اور انجینئر

ڈاکٹر صاحب بہت ہی سینئر استاد ہیں۔ بھلے وقتوں میں برطانیہ سے ایف آر سی پی کرکے پاکستان آ گئے۔ ساری عمر نہ صرف یہ کہ پڑھاتے رہے بلکہ اپنے شعبہ تخصیص میں بہت زیادہ پڑھائی جانے والی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔ بطور ڈاکٹر مریضوں میں اور بطور استاد اپنے شاگردوں میں بہت ہی نیک نام اور قابل احترام ہیں۔ اپنے پیشے پر نازاں ہیں اور دکھی بھی۔ نازاں اس لیے کہ انسانی خدمت کے حوالے سے اس پیشے کو بہت مقدس جانتے ہیں اور دکھی اس لیے کہ ہر نیا دن اس پیشے اور اس سے متعلق افراد کے حوالے سے انحطاط کا شکار ہے۔ خدمت والے پیشے کے مکمل طور پر کمائی کا ذریعہ بن جانے پر ملول ہیں اور سب سے بڑھ کر تعلیمی حوالے سے ہونے والی گراوٹ پر افسردہ ہیں۔ میڈیکل کالجز میں قابل فخر اساتذہ کی آخری قبیل سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر صاحب میرے دوست ہیں اور ان سے ان کے شعبے کے علاوہ دنیا بھرکے موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ایک عمر سے پڑھنے کی عادت میں مبتلا ڈاکٹر صاحب آج بھی اپنے شعبہ طب سے متعلق ہر نئی تحقیق سے پوری طرح آگاہ ہونے کے ساتھ ساتھ فی زمانہ دیگر موضوعات از قسم معاشیات، سیاسیات اور سماجیات پر سیرحاصل مطالعہ کے حامل ہیں‘ لیکن کسی بات پر دعویٰ کرنے اور منوانے پر اصرار کرنے سے مکمل اجتناب کرتے ہیں؛ تاہم اپنا ایک منفرد نقطہ نظر ضرور رکھتے ہیں۔
گزشتہ روز مجھے ملنے آئے تو باتوں باتوں میں ملک میں جہاں ڈاکٹری کے گرتے ہوئے معیار پر بات ہوئی وہیں بات انجینئروں کی نالائقیوں پر پہنچ گئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے: ڈاکٹروں کو آپ جو کہیں مان لیتے ہیں‘ مانا کہ بہت سے ڈاکٹر مریض کی کھال اتار رہے ہیں۔ یہ درست کہ اکثر ڈاکٹر فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے غیرملکی دوروں اور کمیشن کے لالچ میں سستی دوائی کی موجودگی میں مہنگی دوائی لکھ رہے ہیں۔ یہ بات بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ کئی ڈاکٹروں نے اپنی اپنی طے شدہ لیبارٹریوں سے ہر ٹیسٹ کی فیس میں اپنا حصہ طے کررکھا ہے۔ یہ تو وہ مسائل ہیں جو نظر آرہے ہیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں اور میں ان خرابیوں کا نہ تو کوئی جواز دوں گا اور نہ ہی ان کا دفاع کروں گا۔ خرابیاں صرف خرابیاں ہوتی ہیں اور ان کیلئے دلائل تراشنا ان کا دفاع کرنے اور انہیں درست سمجھنے کے مترادف ہے۔ میں ان باتوں سے بریت کا اظہار کرتا ہوں اور ان خرابیوں کو غیرمشروط طور پر غلطیاں ہی سمجھتا ہوں لیکن ان تمام باتوں کے باوجود میں یہ ضرور کہوں گاکہ ڈاکٹر کم از کم ڈاکٹری ضرور کررہے ہیں۔ بھلے فیس کے نام پر کسی کی جیب کاٹ لیں مگر مریض کو بطور ڈاکٹر دیکھ ضرور رہے ہیں۔ یہ درست کہ فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے مالی فوائد حاصل کررہے ہیں‘ لیکن مریض کا علاج ضرور کررہے ہیں۔ لیبارٹریوں سے کمیشن لینے جیسی قابل مذمت حرکت کے باوجود مریض کو بطور ڈاکٹر میسر ہیں اور اپنا فرض بھی ادا کر رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں آپ یوں کہہ لیں کہ اپنی تمام تر خرابیوں، کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود بطور ڈاکٹر ان کا جو بنیادی کام ہے وہ سرانجام دے رہے ہیں۔ مہنگا سہی مگر علاج اور لٹیرا سہی مگر ڈاکٹر میسر تو ہے۔ ادھر انجینئروں کے بارے میں کیا کہا جائے؟ کوئی کام ڈھنگ سے کررہے ہیں؟ بلکہ ڈھنگ پر بھیجیں چار حرف، کام ہی کررہے ہوں تو بتائیں؟
ٹریفک انجینئرنگ کی بات کریں تو کارکردگی صفر سے بھی کہیں نیچے ہے۔ ملتان کی کوئی ایک سڑک بتا دیں جہاں ٹریفک انجینئرنگ نے گل نہ کھلا رکھے ہوں۔ کوئی ایک چوک بتا دیں جہاں ٹریفک جام نہ رہتی ہو۔ سڑکوں پر لگے ہوئے چار چار انچ موٹے سٹیل کے سٹڈ گاڑیوں کا بیڑہ غرق کررہے ہیں‘ لیکن باوجود آپ کے شور مچانے اور لکھنے کے اب بھی آدھے شہر میں یہ ٹائروں کو برباد کرنے والے سٹڈ لگے ہوئے ہیں۔ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی بات کریں تو ملتان شہر کا ایک بھی سیوریج پائپ علاقے کی ضرورت کے مطابق نہیں ہے۔ ہر جگہ طے شدہ اصولوں سے کہیں کم اخراج کا پائپ لگا ہے۔ گٹروں کے آدھے ڈھکن سڑک سے اونچے ہیں اور آدھے ڈھکن سڑک کی سطح سے نیچے۔ یہ صرف ملتان کا رونا نہیں‘ سارے پاکستان میں یہی حال ہے۔ جدھر چلے جائیں یہی کیفیت ہے۔ ابھی تک ہمارے انجینئروں کو یہ پتا نہیں لگ سکا کہ سڑک بننے سے پہلے سیوریج کے پائپ بچھانے ہیں۔ ابھی تک انجینئروں کو یہ علم نہیں ہوسکا کہ ٹیلی فون کے تار‘ واٹر سپلائی کے پائپ پہلے ڈالنے ہیں اور سڑک بعد میں بنانی ہے۔ ابھی تک ہمارے انجینئروں پر یہ راز نہیں کھل سکاکہ اس شدید گرم خطے میں مکان کو قدرتی طور پر ممکنہ حد تک ٹھنڈا رکھنے کیلئے کیا ڈیزائن ہونا چاہیے اور کون سا میٹریل استعمال ہونا چاہیے۔ کوئی ایک کام بتائیں جو سیدھا ہورہا ہو؟
ڈاکٹر صاحب کی تھوڑی بہت زمین بھی ہے اور ان کے بھائی ان پر کاشتکاری کرتے ہیں؛ تاہم اپنی تمام تر پیشہ ورانہ مصروفیت کے باوجود ڈاکٹر صاحب عملی طور پر کسی حد تک زراعت سے جڑے ہوئے ہیں اور اس بارے میں تازہ ترین رجحانات سے آگاہی بھی رکھتے ہیں۔ زمین زیادہ نہ سہی مگر وہ کسی طور بھی کسی مثالی کا شکار سے کم نہیں۔ مجھے بتانے لگے کہ آج کل چارے والی گھاس کے طور پر سپر نیپئر (Super napier) بہت منافع بخش اور موزوں چارہ ہے۔ یہ چارہ روایتی قسم کے چارہ جات سے زیادہ بہتر اگائو دیتا ہے اور جلد تیار ہو جاتا ہے۔ تقریباً ہر چالیس روز بعد نئی فصل تیار ہو جاتی ہے۔ اسے کاٹیں تو چند روز میں پھر نئی فصل کٹائی کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ اس کی کٹائی ایک مسلسل اور محنت طلب کام ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ اب کھیت مزدور ملنا ایک کٹھن کام ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے صرف کٹائی کیلئے مستقل لیبر تو نہیں رکھی جا سکتی۔ یہ تو جب کٹائی کروانی ہو گی تبھی بلائی جاتی ہے لیکن روز بروز اس کام کی مخصوص لیبر ملنا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں اس کام کیلئے اب مشینیں آگئی ہیں۔ گھنٹوں کا کام منٹوں میں ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی بہت پیچیدہ یا ہائی ٹیک مشین نہیں ہے۔ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، بہت سادہ سی تکنیک کی حامل مشین ہے اور یہاں اس کو تیار کیا جا سکتا ہے۔ ملتان میں اسی کام کیلئے مخصوص سرکاری ادارہ ایگریکلچرل میکنائزیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ موجود ہے۔ اس کا یہی کام ہے کہ وہ زراعت میں استعمال ہونے والی مشینری کے سلسلے میں تحقیق و ترقی کا کام کرے اور مستقبل میں استعمال ہونے والی زرعی مشینری کی ملک میں تیاری کا اہتمام کرکے خود کار طریقۂ زراعت کو فروغ دے مگر صورتحال یہ ہے کہ یہ ادارہ عملی طور پر صفر جمع صفر برابر ہے صفر کے کا مثالی نمونہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب اس ادارے میں اس چارے کی کٹائی کی مشین کا لٹریچر اور تصاویر لے کر گئے تاکہ اس ادارے کو اس کا اصل کام یاد کروا سکیں مگر ان کے کئی بار لگائے جانے والے چکر سراسر بے سود ثابت ہوئے۔ ادارے کے ڈائریکٹر نے ان سے تصاویر اور دیگر معلومات والے کاغذات لے لیے اور وعدۂ فردا پر ٹرخا دیا۔ ڈاکٹر صاحب کی ساری کاوشیں بیکار گئیں۔ وعدے پر وعدہ کیا گیا اور اسی اثنا میں ڈائریکٹر صاحب ریٹائر ہو کر گھر چلے گئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی وہ ساری تصاویر اور کاغذات ماضی کا حصہ بن گئے اور اس مشین کے بارے میں کسی ممکنہ پیشرفت کا سارا دفتر بند ہو گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے کچھ کرنا تو رہا ایک طرف اس مشین کے بارے میں اپنے عملے کو بتایا ہی نہیں تھا۔ پورے ادارے نے ان کے جانے کے بعد ایسے کسی پروجیکٹ کے متعلق مکمل لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ اس ساری گفتگو کو ایک کالم میں سمیٹنا ممکن نہیں۔ ڈاکٹر صاحب اور بھی ایسی ہی بہت سی چیزوں کا رونا رو رہے تھے۔ لیکن یہ کوئی تازہ واردات نہیں۔ گزشتہ کئی عشروں سے ہماری انجینئرنگ کا شعبہ روبہ انحطاط ہے اور اس میں بہتری کے دور دور تک آثار نظر نہیں آ رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں