"KMK" (space) message & send to 7575

ناجائز تعمیرات کی راکٹ سائنس

اس ملک میں کوئی ایک مسئلہ ہو تو بندہ اسے ٹھیک کرنے کی بات کرے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑ چکا ہے۔ کوئی ایک کل خراب ہو تو اسے ٹھیک کریں یہاں تو نظام کو ایسا کینسر لاحق ہو چکا ہے جس نے جسم کے ہر عضو کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بندہ کس کس بات کا رونا روئے؟
ناجائز تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کی با ت کریں تو حالات اس حد تک خرابی کی طرف جا چکے ہیں کہ اب ان کے سدھارنے کی بات کریں تو اس سدھار کیلئے پکڑنے کو پہلا سرا ہی نہیں ملتا۔ کس سے بات کریں اور کیا کہیں؟ ملتان کے ایک بڑے انتظامی افسر سے ناجائز تعمیرات اور تجاوزات کی بات کی تو ان کی بے بسی دیکھنے کے لائق تھی۔ میں ایسے معاملات میں ذاتی طور پر درپیش مشکلات کے بارے میں عموماً خاموش رہتا ہوں اور ذاتیات کے بجائے اجتماعی معاملات پر بات کرنا اپنا ذمہ داری سمجھتا ہوں۔ ایک ذمہ دار شہری کی مانند میری کوشش ہوتی ہے کہ ہم کم از کم آنے والی نسل کیلئے اتنا تو کر جائیں کہ ان مشکلات کا سامنا نہ کریں جو ہمیں درپیش ہیں۔ چلیں ان خرابیوں کو اگرکم نہ کر سکیں تو انہیں مزید بڑھنے تو روک دیں تو یہ بھی غنیمت ہے۔میں جب بیس سال قبل زکریا ٹاؤن میں رہائش پذیر ہوا تو بوسن روڈ سے میرے گھر تک آدھ کلو میٹر لمبی سڑک پر گنتی کی چار پانچ دکانیں تھیں۔ آج بیس سال بعد یہ عالم ہے کہ ایک دو بار گزرتے ہوئے دکانیں گننے کی کوشش کی مگر ہر بار یہ گنتی درمیان میں رہ گئی کہ ہر بار کی جانے والی اس گنتی کے دوران کسی نہ کسی دکان کی دیوار کے عقب میں مزید تعمیر ہوتی ہوئی دکانوں نے گنتی کا یہ عمل برباد کر دیا۔ ایک سڑک ہے جو بلامبالغہ دو اڑھائی کلو میٹر طویل ہے اور اس تنگ سی سڑک پر اب تک کم از کم پینتالیس ذیلی گلیاں اور ڈیڑھ سو دکانیں بن چکی ہیں۔ یہ صرف زکریا ٹاؤن کا نہیں ہر جگہ کا حال ہے‘ بنی گالا کا معاملہ تو زور آوروں کے طفیل ریگولرائز ہو گیا ادھر یہ عالم ہے کہ نہ کوئی پوچھ تاچھ ہے اور نہ ہی کسی کو ریگولرائزیشن کا مسئلہ درپیش ہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے کر لیتا ہے۔ بڑی بڑی ایک دو ہاؤسنگ سکیموں کے معاملات کو سیدھا کرنے کی غرض سے ہمارے پیارے وزیر خارجہ نے ملتان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا چیئر مین اپنا خاص بندہ لگوایا ہوا ہے۔ یہ وہی شخص ہے جسے تھوڑا عرصہ پہلے اسی عہدے سے کرپشن کے الزامات پر فارغ کیا گیا تھا اور یہ محض الزامات نہیں تھے اس پر ایک انکوائری ہوئی تھی اور اس انکوائری کے نتیجے میں اسے فارغ کیا گیا مگر عام طور پر کسی دوسرے شخص کیلئے رسک نہ لینے کی شہرت کے حامل شاہ محمود قریشی اپنے چہیتے رانا جبار کی خاطر وزیراعلیٰ پر چڑھ دوڑے اور انہیں استعفے کی دھمکی دے کر کرپشن میں ایک بار فارغ ہونے والے شخص کو دوسری بار ایم ڈی اے کا چیئرمین مقرر کروا دیا۔
عالم یہ ہے کہ تعمیر سے پہلے منظوری اور بائی لاز کی پابندی جیسی چیزوں کا کوئی وجود باقی نہیں رہا۔ گھر کے صحن کی دیوار کے عقب میں خاموشی سے دکانیں تعمیر ہوتی ہیں اور ایک دن صبح سویرے گھر کی دیوار گرتی ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ پانچ نئی دکانیں ظہور پذیر ہو چکی ہیں۔ میں بات کر رہا تھا ملتان کے توپ انتظامی افسر سے اپنی ملاقات کا۔ ان سے کہا کہ میں کل ملتان پبلک سکول سے گزرا ہوں وہاں بھی بے تحاشا غیر قانونی تعمیرات ہو رہی ہیں۔ نہ کوئی اجازت لے رہا ہے نہ کوئی نقشہ منظور کروا رہا ہے‘ آپ اس سلسلے میں کیا کر رہے ہیں؟ آگے سے جواب ملا کہ ہم اس سڑک کو کمرشل کر رہے ہیں۔ حیرانی سے میری سانس رک سی گئی کہ میں اس سڑک کو صاف ستھرا رکھنے کی بات کرنے آیا تھا اور آگے سے اس سڑک کے کمرشل ہونے کی خوشخبری مل رہی ہے۔ میں نے کہا کہ اس شہر کی پرانی آبادی میں تو جو ہو چکا ہے‘ ہوچکا ہے‘ اب کم از کم نئی آبادیوں کو تو اس دکان مارکہ کلچر سے بچا لیں۔ ساری سڑکیں‘ ساری کالونیاں‘ دکانوں کا خود رو جنگل بنتی جا رہی ہیں‘ نہ پارکنگ کی جگہ ہے نہ گاڑی کھڑی کرنے کی تمیز ۔ نہ گزرنے کی جگہ ہے اور نہ کوئی گنجائش ‘ مگر دکان پر دکان بنائے جا رہے ہیں۔ وہ افسر کہنے لگا: ہم اس سڑک کو اس لئے کمرشل کرنا چاہتے ہیں کہ چلیں اس بہانے حکومت کو فیس کی مد میں پیسے مل جائیں گے وگرنہ ان تعمیرات کو تو ہم روک نہیں سکتے ۔سوچا کہ پھرکمرشلائزیشن کی فیس ہی کھری کر لیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ آپ روک کیوں نہیں سکتے؟ جواب ملا کہ ہم روکتے ہیں تو دوسرے دن وہ عدالتوں سے حکم امتناعی لے کر آ جاتے ہیں۔ نہ فیس ملتی ہے‘ نہ تعمیر رکتی ہے تو بھلا ہم کیا کریں؟ میں نے کہا: قانون میں حالات کے موقع مناسبت کے مطابق ترمیم کریں اور حکومتی رٹ قائم کریں۔ انہوں نے کہا یہ موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں۔ اب اس جواب کے بعد مزید کیا کیا جا سکتا تھا؟
یہ صرف ملتان کا مسئلہ نہیں‘ جہاں چلے جائیں یہی حال ہے۔ کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد وغیرہ کے بعد صاحبانِ اقتدار کی ناک تلے موجود اسلام آباد میں جو حال ہوا ہے اب اس کے بعد دیگر شہروں میں کسی بہتری کی توقع ہی فضول ہے۔ اور تو اور تعمیرات کے سلسلے میں بہت زیادہ قوانین اور پابندیوں کے حامل مری کا حال بھی ایسا ہو گیا ہے کہ سیمنٹ اور کنکریٹ نے اس ہل سٹیشن کیلئے گورے کے طے شدہ قوانین کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے ہیں۔ کاغذوں اور ضابطوں میں ابھی تک یہ بات قانون کا درجہ رکھتی ہے کہ یہاں تین منزلوں یا اڑتیس فٹ سے زیادہ بلند عمارت تعمیر نہیں ہو سکتی۔ اب یہ کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں‘تین منزلیں نرسری کلاس کا بچہ بھی گن سکتا ہے اور اڑتیس فٹ کوئی ان پڑھ مزدور بھی ناپ سکتا ہے لیکن یہ اگر نظر نہیں آتا تو مری کی انتظامیہ کو نظر نہیں آتا۔ ڈپٹی کمشنر‘ اسسٹنٹ کمشنر‘ عوامی نمائندے اور منتخب ارکانِ اسمبلی سب مل کر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔
بانسرہ گلی مری کا حصہ ہے اور یہاں بھی یہی قانون لاگو ہے مگر وہاں شہزاد سیال نامی شخص ایک سات منزلہ عمارت تعمیر کر رہا ہے۔ شنید ہے کہ یہ شخص منڈی بہاء الدین سے پی ٹی آئی کے ایم این اے حاجی امتیاز اور اس کے بھائی چودھری اعجاز کا فرنٹ مین ہے‘ اگرفرنٹ مین نہیں بھی تواسے ان حضرات کی اشیر باد ضرور حاصل ہے۔ اس گھر کے عقب میں رہائشی خاتون فرزانہ اعجاز نے اس غیر قانونی طور پر تعمیر ہونے والی سات منزلہ عمارت کی تعمیر رکوانے کیلئے ڈپٹی کمشنر مری سے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ آپ اپنے گھر میں خوش ہیں آپ کو اس عمارت کی سات منزلوں سے کیا مسئلہ ہے؟ وزیراعظم پورٹل پر شکایت کی تو ساتویں منزل کے چند ستون گرا دیے گئے جو دو تین دن بعد دوبارہ بن گئے۔ دوبارہ وزیراعظم پورٹل سے رابطہ کیا تو جواب ندارد۔ بار بار رابطہ کیا تو انہوں نے سرے سے بلاک کر دیا۔ ٹی ایم اے سے بات کی تو وہ کہنے لگا کہ اس پر دباؤ ہے۔ ایم این اے صداقت عباسی سے رابطہ کیا مگر وہ صرف ٹال مٹول کرتے رہے کہ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں مگر اے سی یہ کہتا ہے‘ وہ کہتا ہے۔ اس دوران دو بار ساتویں منزل کی تعمیرات میں تھوڑی سی توڑ پھوڑ کی گئی مگر دوسرے چوتھے دن دوبارہ شروع ہو گئی۔ قانون کہتاہے کہ تین منزلوں یا اڑتیس فٹ سے زیادہ بلند عمارت مری میں تعمیر نہیں ہو سکتی مگر صورتحال یہ ہے کہ بانسرہ گلی میں شہزاد سیال کی عمارت کی چھ منزلیں تیار ہوچکی ہیں اور ساتویں زیر تعمیر ہے مگر یہ کسی کو نظر نہیں آ رہیں۔ تین منزلوں اور سات منزلوں میں فرق کرنا ظاہر ہے راکٹ سائنس سے زیادہ مشکل اور پیچیدہ سائنسی مسئلہ ہے جو ان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مقابلے کا امتحان پاس کر کے آنے والے افسران کو سمجھ نہیں آ رہا۔ میرا خیال ہے اگر یہ ذمہ داری کسی نرسری کے بچے اور ایک عام سے مزدور پر مشتمل کمیٹی کے سپرد کردیں تو یہ معاملہ کل ہی حل ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا کریں؟ جہاں پورا صوبہ ایک وسیم اکرم پلس کے سپرد ہو وہاں باقی لوگوں کی کارکردگی کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں