"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ ایک شہرِ قدیم کا… (7)

وقت کتنی تیزی سے گزر رہا ہے‘ اس بات کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ اس شہر کی پرانی یادوں کے حوالے سے میں اب آخری جنریشن ہوں۔ میری جنریشن کے رخصت ہوتے ہی یادوں کا یہ دریچہ بند ہو جائے گا اور یہ باتیں صرف کتابوں میں رہ جائیں گی۔ کوئی شخص یہ نہیں کہے گا کہ اس نے کھتی چور میں خالد ولید کے مقبرے پر لگی پکی اینٹوں سے پکائی ہوئی قرآنی آیات والی محراب لگی ہوئی دیکھی تھی۔ کوئی شخص اپنے بچوں کو یہ نہیں بتائے گا کہ اس نے پرانے قلعے کے دمدمے کے ساتھ نگارخانے میں توپوں کے گولے اور پتھر کی فارسی تحریر والی صدیوں پرانی منوں وزنی تختیاں دیکھی تھیں‘ اور کوئی شخص یہ بیان نہیں کرے گا کہ اس نے پرہلاد مندر کی اوپر والی منزل میں پتھر کے درمیان میں سے پھٹے ہوئے ستون کے سامنے کھڑے ہو کر ہولیکا دیوی کی کہانی سنی تھی۔ ہندوؤں کے تہوار ہولی کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔ کون شخص یہ گواہی دے گا کہ اس نے قبل از مسیح ہیروڈوٹس کے بیان کردہ سورج دیوتا کے مندر کا تالاب خود دیکھا تھا۔ یہ چیزیں تجاوزات، لاپروائی اور نالائقی نے صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیں۔ میری جنریشن کے رخصت ہو جانے کے بعد کوئی باپ اپنے بچوں کو یہ نہیں کہہ سکے گا کہ وہ دمدمے کی مغربی سمت سیمنٹ کی جھالروں والے سنگی تخت پر بیٹھ کر خود کو اس دور میں محسوس کرتا تھا جب ملتان اس خطے کا سب سے وسیع اور اہم صوبہ تھا۔ ویسے تو تین ڈویژنز پر مشتمل مجوزہ صوبہ جنوبی پنجاب بھی ایک خواب ہے لیکن خواب دیکھنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔
2006ء میں ورلڈ بینک کی مدد سے شروع ہونے والے اندرون لاہور کی بحالی کے پروگرام کو 2012ء میں اتھارٹی بنا دیا گیا جس کی ذمہ داری پورے اندرون لاہور بشمول 20800 گھروں کی مکمل بحالی اور تزئینِ نو تھی؛ تاہم گزشتہ پندرہ سالوں میں گلی سرجن سنگھ، شاہی حمام، مسجد وزیر خان، حویلی دینا ناتھ اور شاہی قلعہ سے دہلی دروازے تک شاہی گزرگاہ کے علاوہ چند سو گھروں‘ دس بارہ گلیوں اور چند چیزوں پر کام ہوا ہے یہ کل پروجیکٹ کا شاید دس پندرہ فیصد ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر آغا خان فاؤنڈیشن کے ماہرین نہ ہوتے تو یہ کام بھی نہ ہو پاتا۔ اس کام کا سارا سہرا آغا خان فاؤنڈیشن کے سر جاتا ہے کیونکہ اٹھارتی کے پاس نہ ماہر تعمیرات ہیں، نہ تکنیکی کام کے ماہر کاریگر ہیں نہ ہی ہنرمند ورکر جو کنزرویشن یا بحالی کا کام کر سکتے ہوں۔ پندرہ سال میں صرف ایک قابل ذکر کام ہوا ہے اور وہ گلی سرجن سنگھ کی Conservation اور Restoration ہے۔ اس کے علاوہ بھی چند گلیوں میں کام ہوا ہے مگر عوامی سطح پر بتانے اور دکھانے کیلئے اس اتھارٹی کے پاس جو فلیگ شپ سٹریٹ ہے وہ گلی سرجن سنگھ ہی ہے۔ اتھارٹی نے اس دوران سوائے مارکیٹنگ، اشتہار بازی اور ٹھیکے Sub Let کرنے کے عملی طور پر یوں سمجھیں ککھ توڑ کر دوہرا نہیں کیا‘ اور چلے ہیں ملتان، بہاولپور اور فیصل آباد کی شکل سنوارنے۔
اب اس اتھارٹی کو مزید تین شہر عطا کر دیئے گئے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جنوبی پنجاب کیلئے بالکل علیحدہ اور مکمل خود مختار اتھارٹی بنائی جائے جو اس خطے کے شہروں کو ان کی عظمت رفتہ کے شایان شان بحال کرے۔ ملتان کا قصہ تو آپ کو سنا ہی چکا ہوں۔ ملتان کے نواح میں پرانے ملتان کے آخری حکمران نواب مظفر خان کا آباد کردہ شہر مظفر گڑھ ہے۔ چار دروازوں اور ایک دیوار کے درمیان یہ ایک محفوظ شہر تھا۔ 1794 میں نواب مظفر خان سدوزئی کے نام پر قائم ہونے والے اس شہر کی دیوار والی جگہ پر تجاوزات قائم ہو چکی ہیں اور دروازے تقریباً برباد ہو چکے تھے۔ مشرق میں تلیری دروازہ یا ملتانی دروازہ تھا۔ مغرب میں رنگپور دروازہ تھا، شمال میں خان گڑھ دروازہ اور جنوب میں بصیرہ دروازہ تھا۔ فصیلِ شہر کو تجاوزات کھا گئیں اور دروازوں کو کہنگی نے برباد کر دیا۔ سابقہ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ امجد شعیب نے ذاتی کاوشوں سے رنگپور دروازے کو بحال کیا۔ اب اس دروازے کا نام عمر فاروق گیٹ ہے۔ 1890ء کی جمع بندی کے مطابق چاروں دروازوں اور فصیل شہر کا سارا رقبہ ریاست کی ملکیت ہے مگر اسے کون چھڑوائے؟ یہ کام سیاسی مصلحتیں پایہ تکمیل کو نہیں پہنچنے دیتیں‘ لہٰذا قابضین نے سرکار کی زمین کھا لی ہے اور ڈکار بھی نہیں مارا۔
یہی حال بہاولپور کا ہے۔ شہر کے سات دروازے تھے اور شہر کے گرد فصیل۔ اب فصیل تو باقی نہیں رہی؛ تاہم دروازے کسی نہ کسی صورت یا تو موجود ہیں یا ان کا مقام‘ جو داخلی سڑک کی صورت میں ہے‘ اب بھی موجود ہے۔ یہ دروازے فرید گیٹ، شکار پوری گیٹ، احمد پوری گیٹ، ملتانی گیٹ، دراوڑی گیٹ، بوہڑ گیٹ اور موری گیٹ تھے۔ فرید گیٹ کا قدیمی نام بیکانیری دروازہ تھا اور میں نے بچپن میں اس دروازے پر یہی نام دیکھا تھا۔ ادھر سے ریاست بیکانیر کو راستہ جاتا تھا۔ پھر راستہ بند ہوا تو یار لوگوں نے اسے خواجہ فرید کی نسبت سے نیا نام عطا کر دیا۔ فصیل تو بالکل ہی غائب ہو چکی ہے اور وہاں گھر بن چکے ہیں؛ تاہم دروازے بحال ہو سکتے ہیں۔ نواب شجاع خان کے نام پر آباد ملتان کی نواحی تحصیل شجاع آباد بھی اسی طرح دروازوں اور فصیل کے اندر آباد شہر تھا۔ ابھی اس فصیل کی باقیات موجود ہیں لیکن آہستہ آہستہ قبضہ گروپوں کی دست اندازیوں کے باعث غائب ہو رہی ہے۔ اس کو بچایا جا سکتا ہے اور محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے مگر یہ کام نہ کسی کی ترجیحات میں ہے اور کوئی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔
بچپن میں ایک بار ابا جی مرحوم کے ساتھ ان کے کسی دوست کی وفات پر موضع ترگڑ گیا تھا۔ غالباً ان کے دوست کا نام رائو جنگ شیر تھا۔ قصبے کے باہر ایک قدیمی دروازہ تھا اور اس دروازے پر سکھوں سے جنگ کے دوران لگنے والی گولیوں کے نشانات موجود تھے۔ پچپن چھپن سال پرانی بات ہے‘ خدا جانے اب اس قدیمی موضع کی فصیل اور دروازہ موجود ہے یا نہیں۔ اسی طرح اپنے ڈاکٹر طارق جمیل کے قصبے تلمبہ میں بھی فصیل اور دروازے تھے۔ فصیل کا کافی حصہ اب بھی باقی ہے۔ کئی فٹ موٹی اور بلند و بالا دیوار آج بھی اس قصبے کی عظمتِ رفتہ کی امین ہے۔ قدیمی دروازوں کا تو نام و نشان بھی موجود نہیں؛ تاہم اس دیوار کے اندر اب گرلز سکول، کالج اور سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ یہ شاید پرانا قلعہ تھا جو اب بھی بحال کیا جا سکتا ہے۔ اگر دیر ہو گئی تو دیوار کی اینٹیں گھروں میں کھپ جائیں گی‘ یہ چھ سات فٹ سے زیادہ موٹی دیوار حسبِ معمول تجاوزات کی نذر ہو جائے گی اور معاملہ صاف ہو جائے گا۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے گائوں بارتھی سے چند کلومیٹر پہلے منگروٹھہ کے قصبے میں ایک چھوٹے سے قلعے کے آثار تھے۔ اب وہاں آبادی ہے اور قلعہ نامی کسی چیز کا وجود بھی باقی نہیں۔ مظفر گڑھ کے قصبہ محمود کوٹ میں محمود خان کا کچا قلعہ ایک عرصے سے مٹی اٹھانے والوں کی دسترس میں ہے۔ بھلا یہ سب کچھ لاہور میں بیٹھے ہوئے بابو کب ٹھیک کر سکتے ہیں اور خود اپنے کام نہ کر سکنے والی والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی وسیب کے تاریخی آثار اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت اور بحالی کا فریضہ کیونکر سرانجام دے سکتی ہے؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں