"KMK" (space) message & send to 7575

دو گھنٹے کا سفر…(2)

میں نے کہا کہ میرے نزدیک پیپلزپارٹی کے جیالے مسلم لیگ (ن) کے متوالے اور پی ٹی آئی کے کھلاڑی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اپنے اپنے لیڈر سے غیر مشروط وفاداری اور اندھی تقلید کرنے میں تینوں پارٹیوں کے ورکر اور حامی ایک جیسے ہیں۔ جہالت کے ایک ہی مرتبے پر فائز اور براجمان۔ وہ کہنے لگا: آپ زیادتی کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور پڑھے لکھے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں نے جہالت کی بات کی ہے‘ تعلیم کی نہیں کی۔ تعلیم کی حد تک آپ ضرور ٹھیک کہتے ہوں گے لیکن آپ کی بات مان لیں کہ پی ٹی آئی والے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں تو ان سے کم از کم وہ توقع تو نہیں ہونی چاہئے تھی جو وہ کر رہے ہیں اور جس قسم کا رویہ انہوں نے ظاہر کیا ہے۔ کم از کم وہ تو دیگر سیاسی پارٹیوں کے ورکرز اور حامیوں سے کچھ مختلف ہوتے۔ اس تعلیم یافتہ ہونے سے کوئی فرق تو دکھائی دینا چاہئے تھا۔ ان میں اور اَن پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ‘ دیگر پارٹیوں کے حامیوں کوئی تو ایسی بات ہونی چاہئے تھی جو انہیں ممتاز کرتی‘ مگر کیا ہوتا ہے؟ مجھے آج تک پیپلزپارٹی کا کوئی جیالا ایسا نہیں ملا جو زرداری اینڈ کمپنی کو کرپٹ مانتا ہو۔ اسی طرح ابھی تک میری ملاقات کسی ایسے مسلم لیگی متوالے سے نہیں ہوئی جو میاں نوازشریف اینڈ سنز کو پیسہ لوٹ کر لندن میں جائیداد بنانے والا خاندان تسلیم کرے۔ اسی طرح مجھے اب تک کوئی ایسا پی ٹی آئی کا کھلاڑی نہیں ملا جو موجودہ حکومت کو نااہل‘ نالائق اور گزشتہ حکومتوں سے فارغ التحصیل بے ایمان وزرا کا ٹولہ تسلیم کرلے۔ آپ خود بتائیں تعلیم نے پی ٹی آئی کے حامی کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ مغرب کی جمہوری اقدار نے ان ملکوں میں رہنے والے پاکستانیوں کی کتنی جمہوری تربیت کی ہے؟
وہ کہنے لگا :میرا تعلق پی ٹی آئی سے نہیں ہے البتہ میں عمران خان صاحب کا ضرور حامی ہوں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں نے خان صاحب سے جو توقعات وابستہ کی تھیں وہ پوری ہو رہی ہیں؟وہ کہنے لگا: آپ انہیں وقت دیں۔ یہ تیس سال کا گند ہے بلکہ چوہتر سال کا گند ہے جو ساڑھے تین سال میں صاف نہیں کیا جا سکتا۔ آپ لوگوں کو اندازہ ہی نہیں کہ پاکستان میں سابقہ حکمرانوں نے کتنا گند ڈالا تھا۔ میں زور سے ہنسا اور کہا کہ آخر آپ کے منہ سے وہ بات نکل ہی گئی جس کی میں کافی دیر سے توقع کر رہا تھا کہ ہم پاکستانیوں کو پتا ہی نہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور آپ جو گزشتہ ستائیس سال سے امریکہ میں ہیں اور گزشتہ چار سال سے پاکستان میں گئے تک نہیں ہمیں یہ بتائیں گے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور ہماری کم عقلی اور لاعلمی کا مرثیہ پڑھیں گے۔ وہ ایک دم گڑبڑا گیا اور کہنے لگا :میرا مطلب یہ نہیں تھا‘ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ لوگ اس بات کو محسوس نہیں کر رہے کہ گزشتہ حکمرانوں نے پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ یہ گزشتوں حکومتوں کا کیا دھرا ہے کہ آج ملک معاشی طور پر بحران کا شکار ہے۔ اسحاق ڈار نے مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول کر رکھا تھا اب اوپن ہوا ہے تو معاملہ خراب ہو گیا ہے۔ میں نے کہا :بہرحال آپ کو ایک داد تو دوں گا کہ آپ نے میرے ارادے کا ستیاناس کرتے ہوئے مجھے بالآخر سیاسی گفتگو میں گھسیٹنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
وہ میری بات سے حوصلہ پا کر پھر پوچھنے لگا کہ کیا پاکستان میں واقعی مہنگائی ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ آخر یہ سوال کرنے سے آپ کا کیا مقصد ہے؟ وہ کہنے لگا: خان صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے۔ فواد چودھری نے کہا ہے کہ ملک میں ہر چیز سستی ہوئی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے وزیراعظم اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات غلط بیانی کر رہے ہیں؟ میں نے کہا :آپ رعایت سے کام لے رہے ہیں۔یہ حضرات غلط بیانی نہیں کر رہے بلکہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ کہنے لگا: دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ میں نے کہا :آپ کی بات درست ہے لیکن غلط بیانی دراصل شوگر کوٹڈ لفظ ہے جبکہ جھوٹ تھوڑی کڑوی گولی ہے؛ تاہم موجودہ حکمرانوں میں ایک بات بڑی شاندار ہے کہ صرف جھوٹ نہیں بولتے بلکہ اتنے یقین‘ اعتماد اور دھڑلے سے بولتے ہیں کہ سننے والا حیران و پریشان رہ جاتا ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔
ایک سکول ٹیچر نے اپنی کلاس کے ایک بچے کی ماہانہ پراگریس رپورٹ پر لکھا کہ نہ صرف یہ کہ بچہ نہایت بدتمیز ہے بلکہ کبھی غیر حاضر بھی نہیں ہوتا۔
میرے دوست کا وہ دوست کہنے لگا کہ مہنگائی تو پوری دنیا میں ہے اور بھلا ادھر یہاں امریکہ میں کون سی کم ہے؟ آپ کو اندازہ ہے کہ یہاں مہنگائی اور بیروزگاری کتنی بڑھ گئی ہے؟ میں نے کہا مجھے آپ کی طرح یہ دعویٰ تو ہرگز نہیں کہ مجھے امریکہ کے حالات کا آپ سے زیادہ اور بہتر علم ہے؛ تاہم یہاں آنے جانے اور اس سے بڑھ کر یہاں موجود واقفانِ حال اور صاحب علم دوستوں سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر آپ کے حالات سے کسی حد تک آگاہی ضرور ہے۔ میرا خیال ہے کہ بے روزگاری اس لیے بڑھی ہے کہ کورونا کی وبا کے نتیجے میں سرکار کی جانب سے لوگوں کو گھر بیٹھے تقریباً دو ہزار ڈالر ماہانہ حکومتی امداد مل رہی ہے لہٰذا وہ کام کرنے کے بجائے گھر بیٹھ کر اس رقم سے مزے اڑا رہے ہیں۔ ایک ایسے ہی مفت بر سے ملاقات ہوئی تو اس سے پوچھا کہ کہ وہ کام کیوں نہیں کر رہا؟ اس نے جواب دیا کہ پانچ چھ سو ڈالر زائد کما کر اسے کام پر آتے جاتے پٹرول کی مد میں اڑانے سے کہیں بہتر ہے کہ بے روزگاری الاؤنس لے کر گھر میں مزے اڑاؤں۔ حالت یہ ہے کہ میری پسندیدہ کافی ''ٹم ہارٹنز‘‘ کی دکانیں جو کبھی رات تک کھلی رہتی تھیں اب دوپہر دو بجے صرف اس لیے بند ہو جاتی ہیں کہ ان کے پاس ورکروں کی شدید کمی ہے۔اس نے دخل اندازی کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پٹرول پاکستان سے مہنگا ہے۔ میں نے کہا: اب پٹرول کی بھی سن لو۔ یہاں امریکہ میں پٹرول کی قیمت مختلف ریاستوں اور مختلف پٹرول پمپوں پر جسے آپ گیس سٹیشن کہتے ہو‘ مختلف ہے؛ تاہم اوسطاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ میں پٹرول کی قیمت تین اعشاریہ اسی ڈالر فی گیلن ہے۔ آج کے حساب سے پاکستانی روپوں میں یہ چھ سو اسی روپے فی گیلن بنتی ہے۔ ایک امریکی گیلن میں تین اعشاریہ اٹھہتر لیٹر ہوتے ہیں۔ یعنی اس حساب سے ایک لیٹر پٹرول کی قیمت پاکستانی روپوں میں ایک سو اسی روپے بنتی ہے۔ یعنی ایک ڈالر فی لیٹر۔ پاکستان میں فی لٹر پٹرول کی قیمت آج کل ایک سو چالیس روپے فی لیٹر ہے۔ اس حساب سے بظاہر پاکستان میں پٹرول کی قیمت امریکہ کے مقابلے میں فی لیٹر چالیس روپے کم ہے لیکن یہ حساب صرف قیمت کی حد تک ہے۔ اگر بات مہنگائی کی جائے تو مہنگائی کا دارومدار قیمت خرید پر نہیں‘ قوتِ خرید پر ہوتا ہے۔ آپ کی آمدنی اور آپ کی قوت ِخرید کے درمیان نسبت دراصل کسی چیز کے مہنگا ہونے یا سستا ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔
گزشتہ دنوں میرا ایک دوست برطانیہ سے آیا۔ بازار سے گزرتے ہوئے پوچھنے لگا کہ انگور کا کیا ریٹ ہے؟ میں نے کہا: کافی مہنگے ہیں۔ آج کل ان کا ریٹ ساڑھے تین سو روپے کلو ہے۔ حساب کرکے کہنے لگا: یعنی ڈیڑھ پونڈ کے ایک کلو؟ یہ تو بہت ہی سستے ہیں۔ اس نے اتنے سستے انگوروں کا سن کر حیرانی سے Damn cheapکالفظ استعمال کیا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں