"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ دو صاحبِ ضمیر ملتانی ایم این ایز کا

میں نے اپنی بھانجی کو فون کرکے بتایا کہ جس رکن قومی اسمبلی کو اس نے ووٹ دیا تھا وہ لوٹا بن گئے ہیں۔ وہ فوری طور پر میری بات نہ سمجھ سکی اور پوچھنے لگی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟ میں نے دوبارہ تھوڑی تفصیل سے سمجھانے کی کوشش کی اور اسے بتایا کہ گزشتہ یعنی 2018 کے الیکشن میں اس نے قومی اسمبلی کے اپنے حلقہ این اے 154 سے تحریک انصاف کے جس امیدوار کو ووٹ دیا تھا وہ حالیہ تحریک عدم اعتماد والے گھڑمس میں پی ٹی آئی چھوڑ کر اپوزیشن کے پاس پناہ گزین ہو گئے ہیں اور اس وقت زرداری صاحب کے زیر سایہ اپنے نام نہاد اور غیر موجود ضمیر کی آواز پر لوٹا بن گئے ہیں۔ بھانجی کہنے لگی: ماموں! اس صاحب کا نام کیا ہے؟ میں نے کہا: وہ تمہارے نمائندے ہیں، تم نے انہیں ووٹ دے کر کامیاب کیا اور اسمبلی میں بھجوایا اور تمہیں ان کا نام تک نہیں آتا؟ وہ صدمے اور دکھ بھری آواز میں کہنے لگی: ماموں! میں نے اپنا ووٹ اس بندے کو تھوڑا دیا تھا‘ میں نے تو بلے پر مہر لگائی تھی اور ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے وقت بھی اس کا نام نہیں پڑھا تھا۔ مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ قومی اسمبلی کا امیدوار کون ہے اور صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر کون کھڑا ہے۔ میں نے تو عمران خان کے امیدوار کو ووٹ دیا تھا۔
میری اس بھانجی کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں اور روزمرہ کی سیاست سے تو اس کا دور دور کا کوئی لینا دینا ہی نہیں؛ تاہم دیگر بہت سے نوجوانوں کی طرح وہ عمران خان کی فین تھی اور نئے پاکستان کیلئے پُرجوش بھی۔ 2013 کے الیکشن میں خاندان کے نوجوانوں اور بچوں میں سیاسی شعور پیدا کرنے اور انہیں سرگرم کرنے کا کارنامہ میری منجھلی بیٹی نے سرانجام دیا تھا اور اس کی اس مہم کا یہ نتیجہ نکلا کہ خاندان کا ہر وہ بچہ جو ووٹ دینے کی عمر کا حامل تھا‘ عمران خان کا ووٹر اور دیگر چھوٹے بچے عمران خان کے سپورٹر تھے۔ میں تو الیکشن والے دن لاہور میں دنیا ٹی وی کی الیکشن ٹرانسمشن میں مصروف تھا اور الیکشن کے دوسرے دن واپس ملتان پہنچا تھا۔ میں نے ازراہ مذاق اپنی بیٹی سے پوچھا کہ اس نے کس کو ووٹ دیا تھا۔ اس نے جھٹ سے بتایا کہ بلے کو ووٹ دیا ہے۔ میں نے کہا: انتخابی نشان نہیں، امیدوار کا نام پوچھا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ اسے پی ٹی آئی کے امیدوار کے نام کا علم نہیں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اپنی بیٹی کے جواب پر قطعاً کوئی حیرت نہ ہوئی کیونکہ 2013 میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار ایک انتہائی گمنام اور اس حلقے کیلئے قطعاً اجنبی شخص تھا۔ یہ سلمان قریشی تھا جو مظفر گڑھ سے تعلق رکھتا تھا اور غالباً اس حلقے میں اس کی ننہیال کی طرف سے وراثت میں ملنے والی زمین تھی اور تب اس حلقے سے سکندر بوسن اور عبدالقادر گیلانی کے مقابلے میں کوئی مناسب اور تگڑا امیدوار دستیاب نہیں تھا‘ لہٰذا سلمان قریشی کی لاٹری نکل آئی؛ تاہم اس گمنام اور اجنبی امیدوار نے پی ٹی آئی کی طرف سے چالیس ہزار ووٹ لے کر سب کو حیران و پریشان کر دیا۔ 2018 میں جب پی ٹی آئی کا ہر طرف شور و غوغا تھا‘ تب سکندر بوسن اور احمد حسین ڈیہڑ‘ دونوں پی ٹی آئی کی ٹکٹ کے امیدوار تھے۔ ان دونوں کی موجودگی میں سلمان قریشی کی دال نہ گلی اور وہ مایوس ہو کر مسلم لیگ (ن) کی طرف لڑھک گیا۔ تب مسلم لیگ (ن) کے پاس بھی کوئی کام کا امیدوار نہیں تھا‘ یعنی 2018 میں اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا وہی حال تھا‘ جو 2013 میں پی ٹی آئی کا تھا۔ مسلم لیگ (ن) نے 2018 میں اس امیدوار کو ٹکٹ دے دیا‘ جو 2013 میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کا امیدوار تھا۔
اس حلقے میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے کیلئے ملک سکندر حیات بوسن اور احمد حسین ڈیہڑ میں بڑا ہی سخت جوڑ پڑا۔ پہلے پہل ٹکٹ سکندر بوسن کو مل گیا۔ تب ڈیہڑ نے‘ جو پی ٹی آئی کے ٹکٹ کیلئے دیوانہ ہوا پھر رہا تھا‘ ملتان سے اپنے لوگوں کی بسیں بھریں اور بنی گالا میں عمران خان کے گھر کے سامنے ٹکٹ نہ ملنے کے خلاف احتجاجی دھرنا دے دیا۔ دھرنا اتنا لمبا ہواکہ اس کے ملتان سے آنے والے بندے تنگ پڑ گئے۔ ڈیہڑ نے اس کا حل یہ نکالا کہ تازہ دم بندوں کی ایک نئی کھیپ بسوں پر اسلام آباد بھجوا دی گئی جو ان کو بنی گالا اتار آئی اور تھکی ہوئی بٹالین کو واپس ملتان لے آئی۔ بقول شاہ جی‘ احمد حسین ڈیہڑ کے ان نئے جانثاروں کی اکثریت یومیہ کرایہ پر لائی گئی تھی‘ اس لئے انہیں اس بات کی فکر نہیں تھی کہ احتجاجی دھرنا کتنے دن دینا ہے۔ ان کی روزانہ دیہاڑی بن رہی تھی لہٰذا وہ بڑی دلجمعی سے ڈٹ کر بیٹھے رہے تاوقتیکہ عمران خان نے احمد حسین ڈیہڑ کے اخلاص سے تنگ آکر اسے ٹکٹ دے دی۔ ڈیہڑ صاحب نہایت فاتحانہ نشان سے خوش خوش ملتان آئے اور اپنی انتخابی مہم شروع کردی۔
موصوف پہلے پہل پیپلز پارٹی میں تھے اور یوسف رضا گیلانی کے فنانسروں میں اعلیٰ مقام کا حامل ہونے کی وجہ سے گیلانی صاحب کے نیچے صوبائی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ شنید ہے‘ تب اس حلقے میں یوسف رضا گیلانی کے الیکشن کا بیشتر خرچہ احمد حسین ڈیہڑ نے اٹھایا تھا۔ ڈیہڑ کی زمینیں ہائوسنگ کالونیوں میں آ گئی تھیں اور اس نے وہاں سے کافی پیسے بنا لئے تھے۔ مزید برآں ڈیہڑوں کے بارے میں یہ بات سارے علاقے میں مشہور ہے کہ وہ زمین بیچنے تک کئی پارٹیوں کے بیعانے ہضم کرچکے ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
احمد حسین ڈیہڑ 2008 میں ملتان کے صوبائی حلقہ پی پی 200 سے پیپلز پارٹی کی طرف سے یوسف رضا گیلانی کے نیچے امیدوار تھے۔ یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے تو ان کا بیشتر وقت وزیراعظم ہائوس کے طواف کرنے میں گزر جاتا تھا۔ 2013 کے انتخابات میں وہ پیپلز پارٹی کی طرف سے عبدالقادر گیلانی کے نیچے صوبائی کے امیدوار تھے مگر الیکشن ہار گئے۔ گیلانی صاحب کا سورج گہنا چکا تھا لہٰذا کچھ ہی دنوں کے بعد ان کی گیلانی صاحب کے بچوں سے کافی بدمزگی ہوئی تو ان کا ضمیر جاگ پڑا اور وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر دربدر ہو گئے۔ بعد والا سارا قصہ میں لکھ ہی چکا ہوں۔
میری بھانجی مجھ سے پوچھنے لگی کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میرے حلقے سے پی ٹی آئی کی ٹکٹ اور پی ٹی آئی کے ووٹروں کے طفیل اسمبلی میں جانے والا رکن اپنے سارے ووٹروں کے اعتماد اور ووٹوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر اپنی جیب گرم کرے اور اپنا ووٹ عدم اعتماد کی تحریک میں عمران خان کے خلاف استعمال کرلے؟ میں اسے ازراہ مذاق کہا کہ دراصل احمد حسین ڈیہڑ کا ضمیر جاگ اٹھا ہے۔ بھانجی کہنے لگی: اگر اس میں ضمیر نام کی کوئی چیز واقعی موجود ہے تو وہ استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ دوبارہ اس حلقے کے ووٹروں کے پاس کیوں نہیں جاتا؟ میں نے اسے بتایا: اس کا کہنا ہے کہ اس کے کام نہیں ہو رہے تھے۔ وہ کہنے لگی: اگر کام نہیں ہورہے تھے تو رکنیت پرچار حرف بھیجتے کہ جب کام ہی نہیں کروا سکتا توایسی رکنیت کا فائدہ؟ میں نے کہا: انہوں نے الیکشن پر جو پیسے لگائے تھے وہ کون بھرتا؟ میری بھانجی کہنے لگی: اب توان کے پاس اگلے کئی الیکشنوں کے پیسے آگئے ہوں گے۔ میں ہنس پڑا۔ اس نادان کو اندازہ ہی نہیں کہ ڈیہڑ نے الیکشن پر کتنے پیسے لگائے تھے۔ اب لگے ہاتھوں ملتان سے احمد حسین ڈیہڑ کے علاوہ حلقہ این اے 159 والے رانا قاسم نون کا ضمیر بھی جاگ پڑا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں