"KMK" (space) message & send to 7575

ہم تو صرف لکھ ہی سکتے ہیں!

ایمانداری کی بات ہے کہ کبھی کبھی تو مجھے بالکل بھی سمجھ نہیں آتا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے اور کیا ہم اتنے ہی احمق اور بے وقوف ہیں جتنا ہمیں سمجھا جا رہا ہے؟ مارک ٹوئین کا ایک جملہ بڑا شاندار ہے۔ اس کا ترجمہ اس کی اصل کاٹ کا حق نہیں کر سکتا۔ اس لیے پہلے اصل والا یعنی انگریزی والا جملہ اور پھر اس کا جیسا تیسا ترجمہ:
It's easier to fool people than to convince them that they have been fooled.
یعنی لوگوں کو یہ سمجھانے سے کہ انہیں بے وقوف بنایا گیا ہے‘ یہ کہیں آسان ہے کہ انہیں بے وقوف بنایا جائے۔ یہی حال ہمارا ہے۔ یہاں پر بے وقوف بنایا جانے والا ہر شخص خود کو اتنا عقل مند، ذہین و فطین اور آفت کا پرکالہ سمجھتا ہے کہ خدا کی پناہ۔ اب ایسے شخص کو یہ باور کرانا کس قدر مشکل ہے کہ اسے بے وقوف اور احمق بنایا جا رہا ہے۔ عوام کو اور لوگوں کو یہ بات سمجھانا اس لیے مشکل ہے کہ دراصل انہیں اس قدر بے وقوف بنایا جا چکا ہے کہ وہ اب کوئی سمجھ داری کی بات سننے کو تیار ہی نہیں۔
مثلاً مجھے ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ ہمارے ملک میں ہر جگہ، ہر طرف سمگلنگ کے ذریعے لائی گئی اشیا کا طوفان آیا ہوا ہے اور میرے جیسے کم علم شخص کو بھی یہ معلوم ہے کہ یہ سب کہاں سے اور کیسے آ رہا ہے تو یہ ملکی سرحدوں کے چور راستے بند کرنے والوں اور باقاعدہ طور پر منظور شدہ درآمدی مقامات یعنی بندرگاہوں اور ایئرپورٹس وغیرہ کے ذریعے آنے والی غیر قانونی اشیا کی روک تھام پر مامور سرکاری اداروں کو کیسے نظر نہیں آ رہا؟
ملک میں کچھ عرصہ پہلے جب کھاد کی شدید قلت پیدا ہوئی اور گندم کی فصل کے حوالے سے یوریا کھاد کے حصول کے لیے جب کاشت کار اور زمین دار قطاروں میں کھڑے دو دو چار چار بوریوں کے لیے ذلیل و خور ہو رہے تھے‘ تب میں نے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے موٹے موٹے سرمایہ کاروں نے کھاد فیکٹریوں سے ایڈوانس کیش پر یوریا کھاد اٹھا لی ہے اور اب وہ اسے وسطی ایشیا کی ریاستوں میں سمگل کر رہے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ پاکستان میں یوریا کھاد کی بوری کی قیمت ساڑھے تین ہزار روپے کے لگ بھگ تھی اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں یوریا کی ایک بوری ساڑھے نو دس ہزار روپے میں بک رہی تھی۔ یار لوگوں نے پاکستان سے سستی یوریا خریدی اور اس پر کرایہ بھاڑہ ڈال کر بھی دُگنے سے زیادہ ریٹ پر نقد کیش پر بیچ دی۔ اس ساری گیم میں بہت سے لوگ حصہ دار تھے۔ سب نے اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے اور جیبیں بھریں اور اس کے عوض پاکستانی کاشت کار رل گیا۔ اب اگر پاکستان میں گندم کی کمی ہوئی تو انہی ریاستوں سے مہنگے داموں خرید کر درآمد کی جائے گی۔
جب یوریا کھاد بیرون ملک سمگل ہو رہی تھی تب کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اپنی رخصتی سے چند روز قبل ہمارے لائق فائق اور انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ سابقہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے فرمایا کہ کھاد ملک سے دھڑا دھڑ باہر سمگل ہو رہی ہے جس پر انہیں بڑی تشویش ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جہاں تک اس تشویش کا تعلق ہے تو میرا اور سابقہ وزیر خزانہ کا ''تشویشی درجہ‘‘ برابر ہے کہ ہم دونوں کو ہی اس سلسلے میں تشویش نامی مرض لاحق تھا؛ تاہم مجھے صرف یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے، صاحبِ اختیار اور صاحب اقتدار شخص کا صرف تشویش میں مبتلا ہونا چہ معنی دارد؟ چلیں میری تشویش تو وارے کھاتی ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے ہاتھ میں لکھنے کے لیے قلم کے علاوہ اور کوئی طاقت یا اختیار نہیں تشویش کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے‘ لیکن ملک کا وزیر خزانہ بھی بعد ازاں صرف تشویش کا اظہار کر کے اپنی ذمہ داری پوری کرے تو بندہ کہاں اپنا سر پھوڑے؟
اس سے ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں ٹن کھاد اس ملک سے باہر گئی کیسے؟ ظاہر ہے کھاد کوئی افیم کی ڈلی یا ہیروئن کی پڑیا تو نہیں تھی کہ لوگ اسے جیب میں ڈال کر، بریف کیس کے خفیہ خانوں میں چھپا کر جوتے کے تلوے میں سلوا کر سرحد پار لے گئے۔ یہ سب کچھ ٹرکوں پر بلکہ ٹرکوں کے بزرگوار‘ ٹرالوں پر لاد کر لے جائی گئی۔ اگر تو یہ ساری کھاد باقاعدہ طور پر برآمد کی گئی ہے تو اس ملک کے پالیسی ساز ادارے، کھاد کی مانیٹرنگ کرنے والے محکمے، ملک میں کھاد کی ضرورت کا تخمینہ لگانے والے شماریاتی دفاتر اور نیشنل فوڈ سکیورٹی کے کارپردازان کہاں بھنگ پی کر سو رہے تھے‘ اور اگر یہ کاغذوں اور ضابطوں کو بائی پاس کرکے کی جانے والی عام سمگلنگ تھی تو سرحدوں کی حفاظت پر مامور ادارے اور افراد کس خواب آور دوائی کا استعمال کر کے سوئے ہوئے تھے۔ اگر تو یہ کھاد باقاعدہ سرحدی چوکیوں والے راستوں پر ٹرالرز کے ذریعے گئی ہے تو ظاہر ہے وہاں مامور عملے اور اداروں کی ملی بھگت کے علاوہ یہ کام ناممکن تھا اور اس میں ایک سے زیادہ محکمے ملوث ہو سکتے ہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ ساری کھاد ان راستوں سے گئی ہے جو باقاعدہ سرحدی راہداری کے زمرے میں نہیں آتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سرحد پر مامور لوگ کیا کر رہے ہیں اور اربوں روپے سے لگائی جانے والی باڑ کس مصرف کے لیے ہے؟ اگر اس باڑ کے باوجود لاکھوں ٹن کھاد ادھر سے اُدھر چلی گئی ہے تو بھلا یہ باڑ افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں اور در اندازوں کو کیسے روک سکے گی؟ اگر یہ باڑ اپنا مقصد ہی پورا نہیں کر رہی تو اس پر اربوں روپے خرچ کرنے کا کیا فائدہ ہوا؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری سمگلنگ جو بھاری ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہوتی رہی دراصل ان راستوں کے ذریعے ہوئی جو حکومتی طور پر باقاعدہ آمدورفت اور درآمد و برآمد کے لیے مقرر کئے گئے ہیں اور یہاں پر چیک پوسٹ اور چوکیاں بھی موجود ہیں اور سات آٹھ قسم کے محکموں کا عملہ اور محافظ بھی موجود ہیں۔
میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی گیم ہے اور اس میں روزانہ کا کروڑوں روپے کا دھند ہو رہا ہے اور کئی محکمے اور ادارے اس میں شامل ہیں۔ ایران سے آنے والا پٹرول بھی ظاہر ہے پرفیوم کی بوتل میں تو نہیں آتا کہ بریف کیس میں ڈال کر لایا جاتا ہو‘ ٹینکروں کے ٹینکرز آتے ہیں اور سب کو علم ہے کہ کیسے آتے ہیں، کس روٹ سے آتے ہیں اور اس میں کون کون سہولت کار ہے اور کون کون فیض یاب ہو رہا ہے۔ کسٹم کے عملے کا یہ عالم ہے کہ خیر آباد پل کے اطراف میں لگائے گئے ناکوں پر کاریں، ویگنیں اور بسیں روک کر لوگوں کی تلاشی لینے والوں کو لاکھوں ٹن کھاد ملک سے باہر چلی جائے تو خبر نہیں ہوتی اور کروڑوں لٹر پٹرول ملک کے اندر آ جائے تو دکھائی نہیں دیتا۔ سرحد پر کھڑے محافظوں کو پار جاتے ہوئے ٹرالر اور اندر آتے ہوئے ٹینکر دکھائی نہیں دیتے۔ نیچے سے اوپر تک اس سپلائی لائن کو جاری و ساری رکھنے والی چین، اور اوپر سے نیچے تک فیض یاب ہونے والوں میں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں مگر کیا عجیب ملک ہے کہ یہ سارا دھندہ سب کو دکھائی دیتا ہے لیکن جنہیں دکھائی دینا چاہئے انہیں ہی دکھائی نہیں دے رہا‘ جیسے سب نے آنکھوں میں الو کا سرمہ لگا رکھا ہے۔ ظاہر ہے جہاں معاملہ اربوں سے بھی کہیں اوپر ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے ہم تو صرف لکھ ہی سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں