"KMK" (space) message & send to 7575

سعادت حسن منٹو کے خطوط اور سید رضی احمد کی میل

سعادت حسن منٹو کی کتاب 'اوپر نیچے درمیان‘ میں چچا سام کے نام نو عدد خطوط ہیں۔ ہلکے پھلکے انداز میں لکھے گئے یہ خطوط خاصے کی چیز اور پڑھنے کے لائق ہیں۔ ایسی ایسی سطریں ہیں کہ پڑھ کر گھنٹوں لطف لیا جا سکتا ہے۔ امریکی ذہنیت کی ایسی عکاسی اور اس پر ایسا طنز کہ طبیعت بشاش ہو جائے۔ سیاست‘ تہذیب و تمدن‘ ادب‘ عالمی تنازعات‘ معیشت‘ ملکی حالات اور اپنی حالتِ زار۔ غرض ان نو خطوط میں ایسی رنگا رنگی اور موضوعات کا تنوع ہے کہ ایک خط ختم کریں تو اگلے خط کو پڑھنے کیلئے دل مچل اٹھے۔
منٹوا پنے پہلے خط میں‘ جو انہوں نے مورخہ 16دسمبر1951ء کو یعنی سقوط ڈھاکہ سے ٹھیک بیس سال قبل لکھا‘ لکھتے ہیں ''میرا ملک غریب ہے... جاہل ہے‘ کیوں؟ یہ تو آپ کو بخوبی معلوم ہے چچا جان‘ یہ آپ اور آپ کے بھائی جان بلکہ مشترکہ ساز کا ایسا تار ہے جس کو میں چھیڑنا نہیں چاہتا۔ اس لیے کہ آپ کی سماعت پر گراں گزرے گا۔ میں یہ خط ایک برخوردار کی حیثیت سے لکھ رہا ہوں اس لیے مجھے اول تا آخر برخوردار ہی رہنا ہے۔ آپ ضرور پوچھیں گے اور بڑی حیرت سے پوچھیں گے کہ تمہارا ملک غریب کیونکر ہے جبکہ میرے ملک سے اتنی پیکارڈیں‘ اتنی بیوکیں‘ میکس فیکٹر کا اتنا سامان جاتا ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے چچا جان مگر میں آپ کے اس سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ اس لیے آپ اس کا جواب اپنے دل سے پوچھ سکتے ہیں (اگر آپ نے اپنے قابل سرجنوں سے کہہ کر اسے اپنے پہلو سے نکلوا نہ ڈالا ہو)۔
میرے ملک کی وہ آبادی جو پیکارڈوں اور بیوکوں میں سوار ہوتی ہے میرا ملک نہیں... میرا ملک وہ ہے جس میں مجھ ایسے اور مجھ سے بدتر مفلس بستے ہیں۔ اس کی غربت کا سب سے بڑا ثبوت میں ہوں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ چچا جان بیس بائیس کتابوں کا مصنف ہونے کے بعد بھی میرے پاس رہنے کیلئے اپنا مکان نہیں۔ اور یہ سن کر تو آپ حیرت میں غرق ہو جائیں گے کہ میرے پاس سواری کیلئے کوئی پیکارڈ ہے نہ ڈوج۔ سیکنڈ ہینڈ موٹرکار بھی نہیں۔ مجھے کہیں جانا ہو تو سائیکل کرائے پر لیتا ہوں۔ اخبار میں اگر میرا کوئی مضمون چھپ جائے اور سات روپے فی کالم کے حساب سے مجھے بیس پچیس روپے مل جائیں تو میں تانگے پر بیٹھتا ہوں اور اپنے یہاں کی کشید کردہ شراب بھی پیتا ہوں‘ یہ ایسی شراب ہے کہ اگر آپ کے ملک میں کشید کی جائے تو آپ اس ڈسٹلری کو ایٹم بم سے اڑا دیں کیونکہ ایک برس کے اندر اندر ہی یہ خانہ خراب انسان کو نیست و نابود کردیتی ہے‘‘۔
اپنے اسی خط میں منٹو اپنے افسانے پر فحاشی کے مقدمے میں عدالتی فیصلے پر لکھتے ہیں کہ ''انگریزوں کی حکومت بھی مجھے فحش نگار سمجھتی تھی۔ میری اپنی حکومت کا بھی میرے متعلق یہی خیال ہے۔ انگریزوں کی حکومت نے مجھے چھوڑ دیا تھا لیکن میری اپنی حکومت مجھے چھوڑتی نظر نہیں آتی۔ عدالت ماتحت نے مجھے تین ماہ قید بامشقت اور تین سو روپے جرمانے کی سزا دی تھی۔ سیشن میں اپیل کرنے پر میں بری ہو گیا مگر میری حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے؛ چنانچہ اب اس نے ہائیکورٹ میں اپیل کی ہے کہ سیشن کے فیصلے پر نظرثانی کرے اورمجھے قرار واقعی سزا دے۔ میں تین ماہ قید بامشقت کاٹنے کو تیار ہوں‘ لیکن یہ تین سو روپے کا جرمانہ مجھ سے ادا نہیں ہوگا۔ چچا جان آپ نہیں جانتے میں بہت غریب ہوں... مشقت کا تو میں عادی ہوں لیکن روپوں کا عادی نہیں۔ میری عمر انتالیس برس کے قریب ہے اور یہ سارا زمانہ مشقت ہی میں گزرا ہے۔ مجھے اپنے ملک سے پیار ہے۔ میں ان شاء اللہ تھوڑے ہی دنوں میں مر جائوں گا۔ اگر خود نہیں مروں گا تو خود بخود مر جاؤں گا۔ کیونکہ جہاں آٹا روپے کا پونے تین سیر ملتا ہو۔ وہاں بڑا ہی بے غیرت انسان ہوگا‘ جو زندگی کے روایتی چار دن گزار سکے‘‘ آٹے کی قیمت سے قطع نظر کہ یہ آج سے اکہترسال پرانی تحریر ہے اس کی آفاقیت پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے کہ اس ملک کے حالات کم از کم سات عشرے قبل بھی ایسے ہی تھے۔
امریکہ کے ساتھ ہمارے فوجی معاہدے پر منٹو اپنے تیسرے خط میں لکھتے ہیں کہ ''ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے اس پر قائم رہیے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجئے‘ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجئے کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کیے تھے۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہیں گے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کشمیری ہیں‘ ان کو تحفے کے طور پر ایسی بندوق ضرور بھیجئے گا جو دھوپ میں رکھنے سے ٹھس کرے۔ کشمیری میں بھی ہوں مگر مسلمان۔ میں نے اپنے لیے آپ سے ننھا سا ایٹم بم مانگ لیا ہے۔
امریکی گرم کوٹ خوب ہیں‘ لنڈا بازار ان کے بغیر بالکل لنڈا تھا‘ مگر آپ پتلونیں کیوں نہیں بھیجتے۔ کیا آپ پتلونیں نہیں اتارتے؟ ہو سکتا ہے کہ ہندوستان روانہ کر دیتے ہیں۔ آپ بڑے کائیاں ہیں‘ ضرور کوئی بات ہے اِدھر کوٹ بھیجتے ہیں‘ اُدھر پتلونیں‘ جب لڑائی ہوگی تو آپ کے کوٹ اور آپ کی پتلونیں‘ آپ ہی کے بھیجے ہوئے ہتھیاروں سے لڑیں گے‘‘۔
منٹو مرحوم کی ان تحریروں کو اکہتر سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر یہ تمام تحریریں آج کے تناظر میں تھوڑے بہت ناموں کے فرق اور زمان و مکان میں ہونے والی تبدیلیوں کے علاوہ اپنے اندر ایسی گہرائی اور ہمہ گیریت سموئے ہوئے ہیں کہ بالکل تازہ اور نئی نکور لگ رہی ہیں۔ امریکہ نے ہمیں تو کسی اور ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے۔
گزشتہ چند روز سے صبح اٹھ کر انٹر نیٹ پر پاکستانی اخبارات پڑھتا ہوں تو سوائے معاشی بدحالی اور سیاسی زبوں حالی کے اور کوئی خبر دکھائی نہیں دیتی۔ ادھر امریکہ میں یہ حال ہے کہ عالمی سطح پر یہاں کے تمام چینلز پر یوکرین روس جنگ اور اس کے عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات کے جائزے‘ تیل و گیس کے بحران اور عالمی منڈی میں اجناس خصوصاً گندم کی قیمتوں میں متوقع ہوشربا اضافے کے علاوہ اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تاہم اندرونِ امریکہ یہ حال ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے اداکار جونی ڈیپ اور اداکارہ امبرہرڈ کے درمیان ہتکِ عزت والا مقدمہ ٹاپ ٹرینڈ تھا اور بیشتر امریکیوں کو عالمی کساد بازاری‘ مہنگائی اور معاشی بدحالی سے زیادہ اس مقدمے سے دلچسپی تھی۔ یہ بات مجھے اس لیے یاد آ گئی کہ سعادت حسن منٹو نے اپنے ان خطوط میں جابجا امریکی اداروں اور خصوصاً اداکاراو ٔں کا بڑا ذکر کیا ہے۔ وہ سب تو کب کے مر کھپ چکے؛ تاہم اگر آج منٹو زندہ ہوتے تو یہ موضوع ان کے خطوں میں بڑا لطف دیتا۔
اداکار جونی ڈیپ اور اداکار امبرہرڈ مجھے اس لیے بھی یاد آ گئے کہ پاکستان سے ایک محبت کرنے والے سید رضی احمد‘ جو اکثر بڑی دلچسپ چیزیں بھیجتے رہتے ہیں‘ نے مجھے امبر ہرڈ کے جونی ڈیپ کے خلاف دائر کردہ ہتک عزت کا مقدمہ ہارنے کے بعد جونی ڈیپ کو مبلغ پندرہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ ڈالر کی ادائیگی کے حکم کے بعد چھتیس سالہ خوبرو حسینہ کی مالی حالت کی خرابی کے بعد ایک ہلکا پھلکا منظر نامہ بھجوایا ہے جس میں جرمانے کی رقم کی ادائیگی میں مشکل کا شکار ہالی ووڈ اداکارہ کی طرف سے مالدار اسامی سے شادی کا امکانی جائزہ لیا ہے اور کہا ہے کہ مذکورہ فرنگی دوشیزہ‘ جو خلع لینے کے باوجود تقریباً نئی ہی ہے‘ نے اس سلسلے میں ٹینڈر طلب کیے ہیں۔ اس میں کنوارے‘ رنڈوے‘ طلاق یافتہ‘ پارٹ ٹائم کی کوئی قید نہیں‘ بس وہ اس کا جرمانہ بھر کر اسے جیل جانے سے بچا لے۔ نوے سال سے زائد عمر کی مستحکم پارٹی‘ ریٹائرڈ بیورو کریٹ یا فوجی کو ترجیح دی جائے گی۔ پاکستان سے بہت سی پارٹیاں ان شرائط پر پوری اترتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں