"KMK" (space) message & send to 7575

توشہ خانہ سے کھلنے والے نئے کٹے … (2)

مجھ جیسے شخص کی بھلا کیا مجال کہ وہ توشہ خانہ جیسے ''ایلیٹ‘‘ مقام تک رسائی حاصل کر سکے۔ ہم جیسے خاک نشین تو صرف چشمِ تصور سے ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کا حال کیا ہوگا۔ توشہ خانے کے مال و متاع کی لوٹ مار کے بعد کی حالت کا سوچوں تو مجھے مرشدی مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ''آبِ گم‘‘ کے پانچویں حصے کا خیال آتا ہے۔ اس باب کا عنوان ہے ''دھیرج گنج کا پہلا یادگار مشاعرہ‘‘۔ آپ ذرا اس مشاعرے کا اختتامی حصہ ملاحظہ فرمائیں:
''دو ھنڈوں کا تیل پندرہ منٹ پہلے ختم ہو چکا تھا۔ کچھ ھنڈوں میں وقت پر ہوا نہیں بھری گئی۔ وہ پھُس کر کے بجھ گئے۔ کسی شرارتی نے باقی ماندہ ھنڈوں کو جھڑجھڑایا۔ ان کے مینٹل جھڑتے ہی اندھیرا ہو گیا۔ اب مارپیٹ شروع ہوئی لیکن ایسا گھپ اندھیرا کہ ہاتھ کو شاعر سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ چنانچہ بے قصور سامعین پِٹ رہے تھے۔ کچھ لوگ نام بلکہ تخلص لے لے کر گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں کسی نے صدا لگائی‘ بھائیو! ہٹو! بھاگو! بچو! رنڈیوں والے حکیم کی بھینس رسی تڑا گئی ہے۔ یہ سنتے ہی گھمسان کی بھگدڑ پڑی۔ اندھیری رات میں کالی بھینس تو کسی کو دکھائی نہیں دیتی‘ آج تک سمجھ میں نہ آیا کہ چرانے والوں نے ایسے گھپ اندھیرے میں تمام نئے جوتے تلاش کیسے کر لیے... اور جوتوں پر ہی موقوف نہیں‘ ہر چیز جو چرائی جا سکتی تھی چرا لی گئی... پانوں کی چاندی کی تھالی‘ درجنوں انگوچھے‘ ساغر جالونوی کی دگنے سائز کی اچکن جس کے نیچے کرتا یا بنیان نہیں تھا‘ ایک جازم‘ تمام چاندنیاں‘ یتیم خانے کے چندے کی چوبی صندوقچی معِ قفلِ فولادی‘ یتیم خانے کا سیاہ پرچم‘ صدر مشاعرہ کا مخملی گاؤ تکیہ اور آنکھوں پر لگی عینک‘ ایک پٹواری کے گلے میں لٹکی ہوئی چاندی کی خلال اور کان کا میل نکالنے کی منی ڈوئی‘ خواجہ قمر الدین کی جیب میں پڑے ہوئے آٹھ روپے‘ عطر میں بسا ریشمی رومال اور پڑوسی کی بیوی کے نام مہکتا خط... حد یہ کہ کوئی گستاخ ان کی ٹانگوں سے پیوست چوڑی دار کا ریشمی آزار بند ایک ہی جھٹکے میں کھینچ کر لے گیا۔ ایک شخص بجھا ہوا ھنڈا سر پر اٹھاکر لے گیا۔ مانا کہ اندھیرے میں کسی نے سر پر لے جاتے ہوئے تو نہیں دیکھا‘ مگر ھنڈا لے جانے کا صرف یہی ایک طریقہ تھا۔ بیمار مرغیوں کے صرف چند پر پڑے رہ گئے۔ ساغر جالونوی کا بیان تھا کہ کسی نابکار نے اس کی مونچھ تک اکھاڑ کر لے جانے کی کوشش کی جسے اس نے اپنی بروقت چیخ سے ناکام بنا دیا۔ غرض کہ قطع نظر اس کے کہ کارآمد ہے یا نہیں‘ جس کا جس چیز پر ہاتھ پڑا‘ اسے اُٹھا کے‘ اُتار کے‘ نوچ کے‘ پھاڑ کے‘ اُکھاڑ کے لے گیا۔ حد یہ کہ تحصیل دار کے پیش کار منشی بنواری لال ماتھر کے زیر استعمال ڈینچرز بھی! فقط ایک چیز ایسی تھی کہ جس کو کسی نے ہاتھ نہیں لگایا۔ شاعر اپنی اپنی بیاضیں جس جگہ چھوڑ کر بھاگے تھے‘ وہ دوسرے دن تک وہیں پڑی رہیں‘‘۔
''باہر سے آئے ہوئے دیہاتیوں نے یہ سمجھ کر کہ شاید یہ بھی مشاعرے کے اختتامیہ آداب میں داخل ہے‘ مارپیٹ اور لوٹ کھسوٹ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بعد کو بہت دن تک ہر آئے گئے سے بڑے اشتیاق سے پوچھتے رہے کہ اب دوسرا مشاعرہ کب ہوگا؟‘‘
قارئین! اس لمبی نقل شدہ تحریر پر معذرت! مگر آپ ایمانداری سے بتائیں کہ دھیرج گنج کے اس مشاعرے کا اختتامی حال پڑھ کر توشہ خانہ میں ہونے والی لوٹ مار کا سارا منظر آنکھوں کے سامنے نہیں آ جاتا؟ دھیرج گنج کے مشاعرے کے اگلے روز تک میدان میں شعرا کی بیاضیں اسی طرح پڑی رہ گئیں جس طرح توشہ خانہ میں تحفے میں ملی ہوئی کتابیں پڑی رہ گئی ہیں۔ باقی ہر وہ چیز جو لوٹی جا سکتی تھی لوٹ لی گئی۔
تفصیل پڑھی کہ ایک امیرالبحر نے عربوں سے اتنی بار تحفے لیے کہ شک پڑا کہ شاید ان کا بحری بیڑہ مستقل بحیرہ قلزم میں لنگر انداز رہتا تھا۔ اسی طرح کچھ دیگر شخصیات ایسی تھیں جو وزیراعظم کے ساتھ نتھی ہونے کے طفیل تحفوں کی تقسیم کے ہر موقع پر نہ صرف موجود تھیں بلکہ انہوں نے اتنی گھڑیاں سمیٹیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد گھڑیوں کی دکان کھول سکتی تھیں‘ ان میں وزیراعظم کے پرسنل سٹاف افسر اور پرنسپل سیکرٹری نے سب سے زیادہ ہاتھ رنگے۔ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر جو ایک ریٹائرڈ وائس ایڈمرل تھے ایسے ہردورے پر ''نیویں نیویں‘‘ ہو کر تحائف کی تقسیم والی تقریب میں گئے اور ہر بار سرخرو واپس آئے۔
پرویز مشرف کے دور میں قانون تھا کہ کم تنخواہ والے گریڈ ایک سے دس تک کے وہ سرکاری ملازمین جو ایسے دوروں میں وفد کے ہمراہ ہوتے تھے ان کو ملنے والے تحائف انہیں بلامعاوضہ دے دیے جاتے تھے۔ ان میں وفد کے ساتھ جانے والے فوٹو گرافرز‘ گن مین‘ کیمرہ مین وغیرہ اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے تھے لیکن جیسے ہی جمہوری حکومت قائم ہوئی انہوں نے ان ملازمین کیلئے بھی بیس فیصد ادائیگی کی شرط لگا دی۔ بقول ایک دوست کے‘ یہ دراصل ان ملازمین کو ملنے والے تحائف کو ان سے سستے داموں اینٹھنے کا بہانہ تھا۔ تفصیل دیکھیں تو ان کم آمدنی والے سرکاری ملازمین کو ملنے والی انتہائی قیمتی گھڑیوں کی قیمت کا تخمینہ لگاتے ہوئے ڈنڈی ماری گئی اور وہی گھڑی جو کسی جگہ دس لاکھ روپے کے لگ بھگ لگائی گئی تھی ان ملازمین کے نام ایک لاکھ اور ایک لاکھ دس ہزار کی قیمت پر ہتھیا لی گئیں۔ اگر گھڑیوں کی قیمتوں بارے تحقیق کی جائے جو ان کم آمدنی والے ملازمین کو ایک لاکھ روپے میں دی گئی تھیں اور وہ گھڑیاں جو زور آوروں نے نو لاکھ اسی ہزار روپے میں غتربود کیں تو بندے کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں کہ قوم کے نمائندوں اور عوام کے محافظوں نے پہلے تو کروڑوں کی چیز کا تخمینہ لگاتے وقت اسے لاکھوں میں بدل دیا اور پھر اس کا بھی پندرہ بیس فیصد ادا کر کے اسے گھر لے گئے۔ گھڑیوں کی اس لوٹ سیل میں جن لوگوں نے سب سے زیادہ گھڑیوں پر ہاتھ صاف کیا ان میں ہمارے دوست خواجہ آصف کا اپنا ہی مقام ہے جسے شاید ہی کوئی دوسرا وفاقی وزیر حاصل کر پائے۔
1961ء میں امریکی نائب صدر لنڈن بی جانس پاکستان کے دورے پر تھے۔ بیس مئی کو جب وہ کراچی کی سڑک سے گزر رہے تھے ان کی نظر ایک شتربان بشیر احمد پر پڑی۔ اس بشیر احمد نے بعد ازاں بشیر ساربان کے نام سے عالمی شہرت حاصل کی۔ امریکی نائب صدر نے اس ساربان کو امریکہ کے دورے کی دعوت دی۔ بشیر احمد نے اَن پڑھ ہونے کے باوجود امریکی نائب صدر کی انگریزی میں دی گئی دعوت کو اپنی چھٹی حس کے ذریعے محسوس کیا اور قبول کرلیا۔ اس دورے کے دوران فورڈ موٹر کمپنی والوں نے بشیر ساربان کو ایک عدد فورڈ ٹرک تحفے کے طور پر دیا جو بعد ازاں پاکستان پہنچا دیا گیا اور حکومت نے وہ ٹرک بشیر ساربان کو کسی ڈیوٹی وغیرہ سے مستثنیٰ قرار دے کر دے دیا۔ اب کسی خاک نشین کو یہ سہولت نہیں‘ لیکن زور آوری اور دھکے شاہی کا یہ عالم ہے کہ توشہ خانہ سے کسی قسم کی گاڑی کی کسی کو بھی‘ خواہ وہ صدرِ پاکستان ہو یا وزیراعظم‘ لینے کی اجازت نہیں تھی مگر آصف علی زرداری نے بلٹ پروف بی ایم ڈبلیو جس کی قیمت پانچ کروڑ اٹھہتر لاکھ تھی اور دوسری بی ایم ڈبلیو جو پانچ کروڑ کی تھی کل سولہ لاکھ روپے یعنی اصل قیمت کے دو فیصد سے بھی کم ادائیگی کر کے گھر لے گئے۔ پونے تین کروڑ کی ٹویوٹا لیکسس چار لاکھ روپے میں یعنی ڈیڑھ فیصد ادائیگی کر کے گھر لے گئے۔ یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف نے بھی یہی کچھ کیا۔ یہ خریداری نہیں تھی بلکہ یہ کھلی کھلی ڈکیتی تھی جو ہمارے امیر کبیر‘ ارب پتی حکمرانوں نے دن دہاڑے کی اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں