"KMK" (space) message & send to 7575

اک اور نگر کا توشہ خانہ

اللہ جھوٹ نہ بلوائے تو یہ عاجز اب ملک میں جاری سیاست بازی سے ''اک نک‘‘ ہو چکا ہے مگر مجبوری یہ ہے کہ اس سے کسی طور مفر بھی ممکن نہیں۔ جدھر جائیں ایک ہی موضوع ہے اور وہ بھی ایسا کہ کسی کو نہ کچھ سمجھ آ رہی ہے اور نہ ہی کوئی سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سب کی اپنی اپنی خواہشات ہیں اور وہ پاکستان کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق چلانا چاہتا ہے‘ ایسے میں ہر چند روز بعد کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتا رہتا ہے۔ مہنگائی‘ لاقانونیت‘ عدم عدل و انصاف‘ بے روزگاری اور ملک کی روز افزوں بدتر ہوتی معاشی صورتحال کا ہمارے فیصلہ سازوں نے یہ حل نکالا ہے کہ عوام کو ہر چوتھے دن کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جائے۔ عوام بنیادی طور پر تماش بین ہیں اور وہ ہر نئے شوشے کو اسی طرح انجوائے کرتے ہیں جیسے شوقین مزاج تماشائی فلم میں آئٹم سانگ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
گزشتہ چند دن توشہ خانہ کے چکر میں گزر گئے۔ توشہ خانہ سے یاد آیا کہ ملتان کینٹ میں ایک بہت پرانی مٹھائی کی دکان حاجی سویٹ ہے۔ پرانی اس طرح کہہ رہا ہوں کہ اور کچھ بھی نہ ہو یہ کم از کم پینسٹھ ستر سال پرانی تو ضرور ہوگی۔ جنرل (ر) محمد ایوب خان نے ملک عزیز میں پہلا باقاعدہ مارشل لاء سات اکتوبر 1958ء کو یعنی قریب پینسٹھ سال پہلے لگایا اور بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر حکم نامہ جاری کیا کہ تمام کھانے پینے والی دکانوں کے باہر کی طرف جالی لگائی جائے۔ ہمارے پرانے گھر کے پاس چاچا یاری کی دودھ دہی کی دکان کے سامنے بھی یہی جالی لگی ہوتی تھی اور درمیان میں ایک لکڑی کے فریم والی ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جس میں سر گھسا کر ہم چاچا یاری سے دودھ دہی لیتے تھے۔ یہ جالی بھی ستر کے عشرے تک برقرار رہی پھر لکڑی اور اینٹوں کے ملغوبے سے تیار شدہ یہ دکان گرا کر نئی پختہ دکان بنائی تو یہ جالی قصۂ ماضی ہو گئی۔
حاجی سویٹ اس سلسلے میں زیادہ ثابت قدم تھی۔ یہ جالی‘ جس پر سبز رنگ کیا ہوا تھا‘ چند سال پہلے تک موجود تھی۔ اس جالی والے فرنٹ میں بھی ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جس کے ذریعے سارا لین دین ہوتا تھا۔ حاجی سویٹ کی خاص چیز اس کا ''توشہ‘‘ ہے۔ اب تو کئی سال ہو گئے میٹھے کے ڈر سے ادھر کا رُخ نہیں کیا مگر پہلے ہر دوسرے تیسرے مہینے یہاں سے توشہ لیا جاتا تھا۔ تب یہ عالم تھا کہ بمشکل دو تھال توشہ بنتا تھا جو شام سے پہلے ختم ہو جاتا تھا۔ کوئی گاہک زیادہ مقدار میں اکٹھا توشہ مانگ لیتا تو حاجی صاحب صاف انکار کر دیتے کہ باقی گاہکوں کو کیا دوں گا۔ اگر کہتے کہ زیادہ بنا لیا کریں تو آگے سے صاف انکار ہو جاتا کہ اچھی کوالٹی میں بس اتنا ہی بنا سکتا ہوں۔ ساٹھ سال کے استقلال کے بعد ایوب خان کے مارشل لاء کی یہ آخری نشانی بھی شہر سے رخصت ہو گئی۔ اللہ جانے حاجی صاحب کے مٹھائی کی مقدار اور معیار کے بارے میں اصول ابھی قائم ہیں یا جالی کے ساتھ رخصت ہو گئے ہیں مگر اس کمبخت توشہ خانہ کے طفیل حاجی سویٹ کا توشہ یاد آ گیا۔ سوچ لیا ہے کہ آج واپسی پر توشہ گھر لے کر جاؤں گا۔
اسی توشہ سے ایک اور توشہ یاد آ گیا۔ یہ ہمارے شکیل عادل زادہ کے سب رنگ میں وہ خاص کہانیاں ہوتی تھیں جو دنیا بھر کے ادب سے کشید کی جاتی تھیں اور ان کے ساتھ ہندی ادب سے توشۂ خاص‘ روسی یا فرانسیسی ادب سے توشۂ خاص وغیرہ کا کیپشن لگا ہوتا تھا۔ آج کل میرے سرہانے دو تین کتابیں ہیں جو میں ادل بدل کر پڑھتا رہتا ہوں۔ ایک ہمارے ملتان کے شاعر‘ ادیب‘ کالم نگار‘ خاکہ نویس اور نقاد رضی الدین رضی کی کتاب ''کالم ہوتل بابا کے‘‘ ہے۔ مرحوم بابا ہوٹل ملتان کی ادبی بیٹھک تھی۔ ملتان میں ادیبوں کے بیٹھنے کے حوالے سے کئی ہوٹلوں‘ ریستورانوں اور ڈیروں نے شہرت پائی مگر جو پذیرائی اور شہرت بابا ہوٹل کو حاصل ہوئی وہ کسی کے نصیب میں نہ آئی۔ رضی ملتان کے ادبی منظرنامے کا شاہد بھی ہے اور مشہود بھی۔ وہ اس منظرنامے کی صرف عکاسی نہیں کرتا بلکہ وہ اس منظر کا باقاعدہ حصہ بھی ہے۔ ملتان کی ادبی معرکہ آرائی میں وہ بہت سے فسادات میں باقاعدہ بلوائی بھی ہے اور وجۂ بلوہ بھی۔ سچ پوچھیں تو اگر ملتان کے ادبی محاذ پر مرحوم حسن رضا گردیزی‘ مرحوم مقبول تنویر‘ شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی وغیرہ جیسے جنگجو نہ ہوتے تو ملتان کا ادبی منظرنامہ بڑا پھیکا‘ بہت ہی بے رنگ‘ بے بُو اور بے ذائقہ ہوتا۔ ان لوگوں کے طفیل یہ زندہ دکھائی دیتا ہے۔
یہ کتاب ملتان کے پینتیس سال پرانے ادبی مناقشوں میں سے 1986ء سے 1991ء تک کے پانچ سال کی ادبی تاریخ ہے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ یہ ادب کی کوئی ایسی پُرامن داستان نہیں جسے پڑھ کر جماہیاں آئیں۔ اب آپ ذرا ان کالموں کے عنوانات ملاحظہ فرمائیں۔ خانیوال کی ادبی کانفرنس اور ماموں بھانجے کا احوال‘ ا قبال ساغر صدیقی کی تنہائی اور طوطا چشم ملتانی‘ بیورو کریٹ ادیب کیسے بنتے ہیں؟ کھمبیوں کی طرح اُگتے ڈاکٹر اور ہمارے امین صاحب۔ غرض اکثر کالم اسی قسم کی شرانگیزی سے بھرپور ہیں۔ ملتان کے ادبی منظر نامے پر جس جوڑی نے سب سے زیادہ شرانگیز اثرات مرتب کئے وہ رضی الدین رضی اور شاکر حسین شاکر کی ہے اگریہ دو نوجوان (انہی حرکتوں کے باعث) ادھر ادبی ہلچل نہ مچائے رکھتے تو بوریت سے ہماری تو جان ہی نکل گئی ہوتی۔
دوسری کتاب رضی کے اسی جوڑی دار شاکر حسین شاکر کی ''علی منزل‘‘ ہے۔ یہ بظاہر تو ایک عام سے گھر کی کہانی ہے جو مہاجر ہو کر پاکستان آنے والے ایک خاندان کو الاٹ ہوا مگر اس گھر کی ایک تاریخی حیثیت بھی ہے اور ایک ادبی رونق گاہ کے حوالے سے اپنا مقام ہے۔ یہ گھر سابق بھارتی وزیراعظم وی پی سنگھ کی جائے پیدائش بھی ہے اور ملتان آنے والی بے شمار ادبی شخصیات‘ جن میں احمدفراز‘ رضا علی عابدی اورمستنصر حسین تارڑ شامل ہیں‘ کی میزبانی کا مرکز بھی رہا ہے۔ میں خود اس گھر میں بے شمار مرتبہ گیا ہوں اور شاکر کی میزبانی کا لطف اُٹھا چکا ہوں۔ چاہ بوہڑ والا کی سڑک پر موجود اس گھر کے سامنے سے گزریں تو یہ بالکل عام سا ایسا گھر ہے جس پر آپ دوسری نظر ڈالے بغیر گزر جاتے ہیں لیکن یہ گھر اپنی یادوں کے حوالے سے ایک ایسا منفرد گھر ہے جو اپنے اندر ملتان کی ادبی تاریخ کے کئی عشرے چھپائے بیٹھا ہے۔ شاکر اب اس گھر سے ہجرت کر کے ایک نئی بننے والی کالونی میں شفٹ ہو چکا ہے اور اس گھر کے نئے مکینوں کو شاید علم بھی نہیں ہوگا کہ یہ گھر جو کبھی حویلی تھا اس کی کیا تاریخی اور ادبی اہمیت ہے اور بھلا اس گھر کے نئے مکینوں پر ہی کیا موقوف اب تو اس علاقے کے لوگ یہ بھی بھول چکے ہیں کہ کبھی چاہ بوہڑ والا روڈ چودھری نرائن سنگھ سٹریٹ کہلاتا تھا جو وی پی سنگھ کے دادا کے نام پر تھی۔
یہ بالکل عام سے ایسے گھر کی کہانی ہے جس میں علاوہ اس کے اور کوئی خوبی نہیں ہوتی کہ اس گھر کے دروبام نے بڑے لوگوں کا لمس محسوس کیا ہوتا ہے اور اس کا فرش بہت سے ایسے قدموں کا امانت دار ہوتا ہے جن سے ملنا ہمارے لئے اعزاز کی بات ہوتا ہے‘ لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک ایسا عام سا گھر ہے جسے خاص لکھنے والا میسر آیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ ہم لوگ اپنے گھروں کو تو اس نظر سے دیکھ ہی نہیں پاتے جس نظر سے شاکر نے اپنے گھر کو دیکھا‘ محسوس کیا اور لکھا۔ بقول شاعر:
ہر ایک شخص کی قسمت میں گھر نہیں ہوتا
بہت سے لوگ زمیں پر مکاں بناتے ہیں
اس گھر کی کہانی پڑھ کر مجھے قیصرہ شفقت کی خود نوشت ''قصہ دو شہیدوں کا‘‘ یاد آئی کہ بالکل عام سی گھریلو خاتون کی آپ بیتی میں بھی کیسی ندرت اور ایک عام سے گھر میں کیسی رعنائی ہو سکتی ہے جیسا کہ ''علی منزل‘‘ میں ہے۔ اس دور ِناپرساں میں اچھی کتاب کسی اور ہی نگر کا توشہ خانہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں