"KMK" (space) message & send to 7575

بوڈاپسٹ میں کراچی کی گلیوں کی یاد

یہ سارے یورپ کا کمال ہے کہ انہوں نے بے تحاشا جنگوں کے باوجود‘ جس میں پہلی اور دوسری جنگَ عظیم بھی شامل ہے‘ جن میں ایسی خوفناک بمباری ہوئی کہ پورے خطے میں شاید ہی کوئی عمارت مامون و محفوظ رہی ہو‘ ہر متاثرہ عمارت کو اس کی اصل شکل میں بحال کر کے دم لیا۔ یہی حال بوڈا کاسل کا ہے۔ یہ قلعہ دریا کے پار بوڈا میں واقع پہاڑی کے اوپر بنا ہوا ہے۔ اس حصے میں بوڈاپسٹ سیٹاڈیلا‘ کاسل ہل اور اس پر واقع بوڈا کاسل کے علاوہ فشرمینز باسٹین ہے۔ بوڈا میں ہی گل بابا کا مزار ہے۔ شہر کے دونوں حصوں کو ملانے کیلئے کئی پُل ہیں تاہم چین برج کو خصوصی تاریخی اہمیت حاصل ہے۔سیٹا ڈیلا بوڈا کی سب سے اونچی پہاڑی پر واقع پرانے قلعے کے آثار ہیں جس کے انتہائی کنارے پر بلند مینار پر ایک خاتون اپنے اوپر اٹھائے ہوئے کھلے ہاتھوں میں علامتی پر اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ مجسمۂ آزادی ہے جو ملک کو آزادی دلواتے ہوئے جنگ میں مرنے والے روسی فوجیوں کی یاد میں 1947ء میں نصب کیا گیا تھا مگر وقت بدلنے کے ساتھ جیسے ہی ہنگری روسی اثرات اور معاہدۂ وارسا سے نکلا اس مجسمے کی عبارت بدل گئی۔ اب اس پر روسی فوجیوں کو پیش کیا جانے والا خراجِ تحسین تبدیل کر دیا ہے۔ نئی عبارت یوں ہے کہ ''ان تمام کیلئے جنہوں نے ہنگری کی آزادی‘ خود مختاری اور خوشحالی کیلئے اپنی جانیں قربان کیں‘‘۔ مسافر علی الصبح اُٹھ کر سیٹاڈیلا پہنچ گیا مگر وہ مرمت اور مکمل طور پر اپنی اصل شکل میں بحالی کی غرض سے بند تھا۔ پہاڑی کی ایک طرف سے لمبا راستہ طے کر کے جب یہ مسافر اس مجسمۂ آزادی کے قریب پہنچا تو یہاں سے شہر کا ایسا منظر دکھائی دیا کہ نہ صرف چڑھائی کی تھکن اور کلفت دور ہو گئی بلکہ سیٹا ڈیلا بند ہونے کا ملال بھی کافی حد تک کم ہو گیا۔
بوڈاپسٹ میں ایک حیرت انگیز چیز بوڈا کاسل ہل Funicular ہے۔ یہ لوہے کی تار کے ساتھ کھینچ کر چلائے جانے والی ایک ڈبے پر مشتمل ریل گاڑی ہے جو چین برج سے اوپر کاسل ہل تک جاتی ہے۔ 1870ء میں تکمیل پانے والی اس ٹرین کا ٹریک محض پچانوے میٹر لمبا ہے لیکن ان پچانوے میٹرز میں یہ گاڑی اکاون میٹر کی بلندی ڈیڑھ منٹ میں طے کرتی ہے۔ پہلے اس ریل گاڑی کو تار کی دوسری طرف وزن ڈال کر چلایا جاتا تھا لیکن اب یہ بجلی سے چلتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں یورپ والوں نے اپنی ساری پرانی چیزیں نہ صرف سنبھال کر رکھی ہیں بلکہ تباہ ہونے کی صورت میں انہیں اصل شکل و صورت میں بحال بھی کیا ہے۔ یہ عجوبہ بھی دوسری جنگِ عظیم میں ہونے والی بمباری میں مکمل تباہ ہو گیا اور اس کا ملبہ یہاں سے اٹھا لیا گیا۔ بعد ازاں منصوبہ بنایا گیا کہ اس جگہ پرایسکلیٹر لگا دیئے جائیں مگر 1965 ء میں اسے اس کی اصل شکل میں بحال کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اس پر 1975ء میں کام شروع ہوا اور اسے 1986ء میں مکمل کر کے عوام کیلئے کھول دیا گیا۔ اسی پرانی طرز کی ریلوے کوچز ہیں اور اس سے نیچے شہر کا نظارہ ایسا لطف دیتا ہے کہ ادا کیا جانے والا کرایہ جو آج کل کے حساب سے پاکستانی روپوں میں اچھا خاصا بن جاتا ہے دکھ نہیں دیتا۔ایسی ہی ریل گاڑی استنبول میں بھی چلتی ہے تاہم اس کی لمبائی بوڈاپسٹ والی اس ریل گاڑی کے ٹریک سے کہیں زیادہ لمبی ہے۔ استنبول میں یہ ٹرین باسفورس میں واقع گولڈن ہارن کے قریب کراکوئے سٹیشن کو بے اوگلو سٹیشن سے ملاتی ہے۔ 1857ء میں بنا ہوا 573 میٹر طویل ٹریک مکمل طور پر سرنگ کے اندر ہے۔ لندن انڈر گراؤنڈ کے بعد یہ دنیا کا دوسرا پرانا انڈر گراؤنڈ منصوبہ ہے۔ یہ بوڈاپسٹ کی میٹرو سے اکیس سال پہلے تعمیر ہوا تھا۔ دو چار سال قبل جب یہ مسافر سلطان محمد فاتح کی شہرہ آفاق فتح قسطنطنیہ والی جنگ کی جغرافیائی واقفیت کیلئے باسفورس‘ گولڈن ہارن اوریل غلطہ کی آوارہ گردی کر رہا تھا تو غلطہ ٹاور جانے کیلئے اس پر سفر کیا۔ یہ بھی تار سے کھینچ کر چلائی جانے والی ٹرین ہے۔معاف کیجئے گا یہ مسافر بوڈاپسٹ سے استنبول پہنچ گیا مگر ان دونوں میں کبھی فاتح اور مفتوح کا تعلق رہا ہے۔ ایک سو اٹھاون سال تک ترکی کی بوڈاپسٹ پر حکومت رہی مگر اب آپ پورا بوڈاپسٹ گھوم کر دیکھ لیں آپ کو اس شہر میں شاید ہی کہیں ترک تہذیب یا تعمیر کے آثار دکھائی دیں‘ ہاں البتہ گل بابا کا مقبرہ اس پورے شہر میں واحد عمارت یا نشانی ہے جو اِس شہر پر ترک حکمرانی کی یاد دلاتی ہے۔ گل بابا کا اصلی نام جعفر تھا جو 1541ء میں بوڈاپسٹ میں داخل ہونے والی ترک فاتح فوج کے ساتھ آئے تھے اور اسی دوران ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کا مقبرہ 1543ء میں محمد پاشا نے تعمیر کروایا۔ یہ مقبرہ بوڈا کے Rozsadomb ڈسٹرکٹ کی Mecset (مسجد) سٹریٹ میں واقع ہے۔ چھوٹی سی پہاڑی پر واقع یہ مقبرہ جس جگہ پر واقع ہے کبھی اُس جگہ ترک مسلمانوں کا وسیع قبرستان تھا۔ اب اس قبرستان کا تو نام و نشان نہیں مگر مقبرے کے اردگرد کافی ساری جگہ سیڑھیوں والے باغیچے کی صورت میں موجود ہے۔ مقبرے کی سادہ سی ہشت پہلو عمارت کے ساتھ ایک پھولوں بھرے لان میں سیمنٹ سے بنی ہوئی چند پگڑیاں دھری ہیں یہ ان چند قبروں کے نشان ہیں جو کبھی وہاں سینکڑوں کی تعداد میں موجود تھیں۔ اب اس جگہ پر ایک عدد میوزیم اور کافی شاپ ہے۔ حسب عادت کافی پی لیکن مزہ نہ آیا۔ گرم کافی کے عادی اس مسافر کو تجربہ ہوا کہ اس سارے سفر میں ہر جگہ ساٹھ ڈگری گرم کافی بنتی ہے جو کپ سے ہوتی ہوئی جب ہونٹوں تک پہنچتی ہے تو بمشکل چالیس ڈگری رہ جاتی ہے۔ ادھر کافی پینا محض ٹھرک پورا کرنا تھا وگرنہ کافی والی کوئی بات نہیں تھی۔
بوڈاپسٹ کا چین برج بڑا مشہور ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ اس میں پراگ والے چارلس برج جیسی کوئی بات نہیں۔ اس پر سے ٹریفک بھی گزرتی ہے اور کناروں پر پیدل چلنے والوں کی بھی جگہ ہے لیکن ویسی رونق مفقود ہے جو چارلس برج پر ہے۔ قدامت کے اعتبار سے بھی دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں۔ کہاں ساڑھے چھ سو سالہ قدیم محرابی پل اور کہاں محض ایک سو تراسی سال پرانا آہنی پل۔ پتھروں سے تعمیر کردہ محراب دار چارلس برج کی ہر محراب کے اوپر لگے ہوئے نہایت ہی شاندار مجسمے جو خوبصورتی پیدا کرتے ہیں وہ اس پل پر کہاں؟ تاہم اس پل کے پار جاتے ہی پسٹ والی سائیڈ پر ساتھ والی سڑک کے اختتام پر سینٹ سٹیفنز بیسلیکا تک‘پیدل چلنے میں جو مزا ہے وہ صرف محسوس ہی کیا جا سکتا ہے بیان نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں اس مسافر کی رہائش تھی وہ جگہ دن میں بڑی پرسکون تھی مگر جیسے ہی رات پڑنا شروع ہوئی ہر طرف ہنگامہ ہائے زندگی شروع ہو گیا۔ ایسا شور شرابا کہ خدا کی پناہ۔ اپنے کمرے تک آتے ہوئے دن میں جتنی خاموشی اور ویرانی تھی رات کو اس کا الٹ ہو گیا۔ حسبِ معمول رات کو شہر دیکھنے نکلا تو لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی گلی ہے جس میں سے دن کو گزرے تھے۔ گلی سے باہر نکلا تو بائیں طرف یورپ کا سب سے بڑا دوہانی سٹریٹ سیناگوگ (یہودی عبادت گاہ) تھا۔ پیلے رنگ کی روشنیوں میں ڈوبی ہوئی عمارت بڑی شاندار لگ رہی تھی۔ 1859ء میں تعمیر کردہ ا س سیناگوگ میں تین ہزار لوگوں کے عبادت کرنے کی گنجائش ہے۔ میں چلتے چلتے بہت دور نکل گیا۔ واپسی پر گلی میں ایسا سماں تھا کہ دامن بچا کر گزرنا مشکل تھا۔ اگلے روز صبح ٹیکسی والے سے علاقے کی شہرت بارے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یہ ٹورسٹوں کا شہر ہے اور یہاں یہ سب کچھ معمول کی بات ہے۔ دوہانی سٹریٹ سینا گوگ کے پہلو میں واقع یہ گلی رات کو ویسی ہی محفوظ ہے جیسے دن کو ڈینیوب کے کنارے چہل قدمی کرنا۔ اور ہاں! اس شہر میں ٹوٹی کا پانی بے فکر ہو کر پئیں اور سارے شہر میں بلاتردد آوارہ گردی کریں۔ یقین کریں یہ سن کر بوڈاپسٹ میں کراچی کی غیر محفوظ گلیاں بڑی شدت سے یاد آئیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں