"KMK" (space) message & send to 7575

مشاعرے اور آئی پی پی میں مماثلت

ویسے تو ملک ِعزیز میں گزشتہ پچھتر سال سے صرف ڈرامے ہی ہو رہے ہیں تاہم اس وقت تو ڈراموں کی ایسی لائن لگی ہوئی ہے کہ بندہ ایک چینل پر گزارہ ہی نہیں کر سکتا۔ زرعی پیداوار‘ امن و امان‘ معاشی استحکام اوراسی قبیل کی دیگر ذمہ داریاں انہی کو سونپ دی گئی ہیں جن کا ان معاملات سے براہ راست تعلق نہیں بنتا ۔ کسی دفتر میں ایک صاحب نوکری کرتے تھے۔ ہر مہینے جب تنخواہ لے کر گھر آتے تو ان کی زور دار اہلیہ ان کی جیب سے پائی پائی گن کر نکال لیتی اور اپنے پلے باندھ لیتی۔ یہ بندوبست کافی عرصہ تک بخیرو خوبی چلتا رہا تاہم بیگم کو اس دوران شک پیدا ہوا کہ ان کا شوہر ان سے چالاکی کر رہا ہے اور کچھ عرصہ سے تنخواہ میں ہونے والا اضافہ اور مختلف الاؤنسز میں ہونے والے اضافے کی رقم کے سلسلے میں اس سے گڑ بڑ کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کا شبہ بالکل بے بنیاد تھا پر اس نے احتیاطاً مناسب سمجھا کہ اس ساری گڑبڑ کا مکمل سدباب کر دیا جائے لہٰذا وہ یکم تاریخ کو اپنے شوہر کے دفتر گئی اور اس کے باس سے کہنے لگی کہ یہ رہا میرا بینک اکاؤنٹ نمبر ہے‘ آپ اس ماہ سے میرے شوہر کی تنخواہ براہ راست میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیا کیجئے۔ اب یہ درمیانی رابطہ ختم ہو جانا چاہئے۔ میرا خیال ہے ادھر اب درمیانی رابطہ ختم کردیا گیا ہے اور معاملات براہ راست ہی فریق ثانی کے حوالے کردیئے گئے ہیں۔
اس دوران جونہی الیکشن کے ڈرامے کی ڈھنڈیا پٹنا شروع ہوئی پی ڈی ایم کی ہر پارٹی کے درمیان جوتم پیزار شروع ہو گئی ہے۔ جب پی ڈی ایم بنی تھی تب اس عاجز نے لکھا تھا کہ یہ سب لوگ ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ ان سب نے اپنے اپنے کیسز ختم کروانے ہیں تاہم جب الیکشن کا وقت آئے گا تو یہ سب ایک دوسرے سے سر پھٹول بھی کریں گے اور ایک دوسرے کے کپڑے بھی پھاڑیں گے کیونکہ مفاد پرستوں کی آخری لڑائی ان کی باہمی لڑائی ہوتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی ڈراموں کے سب سے بڑے اور مقبول ہدایتکار اور اس قسم کے ڈراموں کے پروڈیوسر آصف علی زرداری نے اس دوران مسلم لیگ (ن) کی اچھے بچے اور برُے بچے والی کامیاب پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی پالیسی سے بھی کہیں زیادہ جارحانہ چال ترتیب دی ہے اور خود میاں شہبازشریف والا کردار سنبھال لیا ہے اور برخوردار بلاول کو میاں نوازشریف کے مقابلے میں لانچ کر دیا ہے۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ زرداری صاحب ایک صلح جُو سیاستدان کے طور پر اچھے بچے کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ بلاول نے اینگری ینگ مین کا روپ دھار رکھا ہے۔ مقتدرہ کے خلاف عوامی جذبات کو کیش کروانے کی ذمہ داری اب بلاول بھٹو کے کاندھوں پر ہے جبکہ مقتدرہ سے بات چیت کرنے اور تابعداری کی یقین دہانی کروانے کا بھاری پتھر خود زرداری صاحب نے اٹھا رکھا ہے لیکن شاید انہیں یہ بات ابھی تک سمجھ نہیں آ سکی کہ مقتدرہ مخالف بیانیے کا اس ملک میں فی الوقت صرف ایک ہی وارث ہے جو فی الحال اندر ہے۔
دوسری طرف مسلم لیگ (ن) اپنی سولہ ماہ کی بدترین کارکردگی کے گند کو میاں نوازشریف کی آمد پر عوامی سیلاب میں بہا کر صاف کرنے کی جو سعی کر رہی ہے اس غبارے سے ہوا کیسے نکلتی ہے یہ بھی سب کے سامنے جلد ہی آ جائے گا‘ لیکن اس کے ساتھ اور بھی بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی کہ میاں صاحب ایئرپورٹ سے جیل جاتے ہیں یا جلوس نکال کر اپنی عوامی مقبولیت کا شو دکھاتے ہیں۔ ویسے تو بہت سے معاملات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن اس کے باوجو دکئی چیزیں ابھی پردۂ غیب میں ہیں جن کے ظاہر ہونے کا وقت قریب آچکا ہے۔ پیمرا نے کئی '' مفروروں‘‘ کے بارے میں الیکٹرانک میڈیا کو ہدایات جاری کی ہیں کہ ان کو کسی چینل پر نہ دکھایا جائے اور نہ ان کے بارے میں کچھ نشر کیا جائے جبکہ میاں نوازشریف عملی طور پر ان پابندی کے شکار ''مفروروں‘‘ سے کہیں پرانے مفرور ہیں‘ مگر راوی حسب ِمعمول اس بارے میں خاموش ہے۔ اس عاجز کو قانون پر دسترس کا دعویٰ ہرگز نہیں تاہم اتنا ضرور علم ہے کہ جب کوئی ضمانت پر آزاد شخص عدالتی حکم کے مطابق طے شدہ وقت پر عدالت میں پیش نہ ہو تو وہ مفرور تصور ہوتا ہے۔ اور عدالت اس کے مفرور ہو جانے پر اس کے ضامن کو پکڑ لیتی ہے‘ لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ پچاس روپے کے اشٹام پر جیل سے نکل کر چار ہفتوں میں اپنا طبی معائنہ کروا کر واپس آنے کا پابند گزشتہ پانچ سال سے واپس آنے سے انکاری ہے۔ اس کی ضمانت دینے والا اور مقررہ وقت پر ملزم کو پیش نہ کرنے والا ان کا برادرِ خورد میاں شہبازشریف مفرور کو بروقت واپس پیش نہ کرنے کے جرم میں اندر ہونے کے بجائے وزیراعظم ہاؤس کے مکین ہو گئے۔ مملکتِ خداداد کے قانون اور نظام انصاف کی اس سے بڑی کسمپرسی اور لاچاری کم از کم اس عاجز کی یادداشت کے کسی خانے میں تو محفوظ نہیں ہے۔
فضل الرحمن صاحب اس دوران وزیراعظم نہ سہی مگر صدرِ مملکت بننے کے لاتعداد خواب دیکھ چکے ہیں اور ان کے خوابوں کی تعبیر صرف اور صرف اسی صورت میں نکل سکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو حکومت سازی کیلئے ان کی پارٹی کے ووٹوں کی ضرورت پڑ جائے۔ موقع کا استعمال کرنا فضل الرحمن صاحب پر ختم سمجھیں۔ وہ اپنے پتے کھیلنے کے ماہر سیاستدان ہیں لیکن ان کے معاملے پر ان سے بھی بڑے پتے باز آصف علی زرداری ہیں جو بلاول بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کا کارڈ کھیل کر چکر بازی کی ٹوپی کے نیچے سے اپنی صدارت کا کبوتر نکالنے کی تاڑ میں ہیں۔ صدارت ایک ہے اور امیدوار دو ہیں اس لئے فضل الرحمن اور آصف علی زرداری کے درمیان انتخابی مصالحت یا اتحاد کا امکان فی الحال دکھائی نہیں دیتا مگر یہ دونوں کسی وقت بھی موقع کی مناسبت سے اپنے پتے بدل سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔
اس وقت سیاسی منظر نامے میں سب سے برُاحال استحکام پاکستان پارٹی کا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ آئی پی پی اس وقت میر تقی میر کے شہرہ آفاق شعر کی عملی تصویر ہے‘ جس میں میر نے کیا تھا
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
خانیوال سے پی ٹی آئی کے دور میں وزارت کے مزے لینے والے سید فخر امام آزاد گروپ بنا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ خانیوال کے علاوہ لودھراں وغیرہ سے بھی پی ٹی آئی کے سابقہ ارکانِ اسمبلی ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہیں۔وہ خود اب خانیوال شہر سے جبکہ اپنی پرانی نشست سے اپنے بیٹے کو الیکشن لڑوانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پتلی حالت دیکھ کر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے جنوبی پنجاب کے بہت سے سابقہ اراکین اسمبلی اب آئی پی پی میں جانے کے بجائے آزاد گروپ کی تشکیل میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ بقول شاہ جی ووٹر گھیر کر لانا ارکانِ اسمبلی کو جہاز پر لاد کر لانے سے کہیں مشکل کام ہے۔
میں گزشتہ دنوں ایک مشاعرے میں شرکت کیلئے کسی شہر میں گیا۔ مشاعرہ آٹھ بجے شروع ہونا تھا مگر سامعین کی جانب سے عدم تعاون کی وجہ سے کرسیاں خالی تھیں۔ نو بجے شب منتظم نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کو انتظام کیسا لگا؟ میں نے کہا :یہ مشاعرہ آئی پی پی کی صورتحال پیش کر رہا ہے۔ شاعروں کا انتخاب عمدہ‘ کھانا بہت لذیذ‘ سٹیج بہت شاندار اور پنڈال بڑا دھانسو ہے۔ بس سامعین نہیں ہیں۔ آئی پی پی میں لیڈرہیں‘ امیدوار ہیں‘ پیسہ ہے‘ جہاز ہے‘ سرپرستی ہے‘ دھوم دھڑکا ہے‘ بس ووٹر نہیں ہیں۔ بالکل اس مشاعرے کے سامعین کی طرح۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں