"KMK" (space) message & send to 7575

چڑیاں‘ پرندے‘ ریل کی سیٹی اور اُردو شاعری

گزشتہ دو دن سے صبح کا آغاز ایسا خوشگوار ہوتا ہے کہ آنکھ کھلنے کا مزہ آ جاتا ہے۔ ہوٹل کا کمرہ اتنا مختصر اور چھوٹا سا ہے کہ دس منٹ ہیٹر چلے تو گرمی سی ہو جاتی ہے‘ خنکی ایسی ہے کہ رضائی کے بغیر سردی لگتی ہے۔ رضائی لے کر سونے سے پہلے سرہانے کے قریب والی کھڑکی کو چار پانچ انچ کھول دیتا ہوں۔ اس کھلی ہوئی جگہ سے صبح صبح آنے والی یہ آوازیں اس سارے ماحول کو ایسا بنا دیتی ہیں کہ آنکھ کھلنے پر کسی کسلمندی یا سستی کے بجائے ایک خوشگوار سا اثر ڈالتی ہیں۔
ملتان میں صبح کا آغاز عموماً دروازے پر بجنے والی گھنٹی کی منحوس آواز سے ہوتا ہے۔ یہ گھنٹی میرے گھر کی نہیں بلکہ اکثر اوقات ساتھ والے دو گھروں کی ہوتی ہے۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے ہمسایوں کی گھنٹی سے کہیں زیادہ پچھلے گھر والوں کے ہمہ وقت مستعد اور بے وقت اذان دینے پر قادر مرغ نے تنگ کر رکھا ہے۔ اگر یہ مرغ میرا ہوتا تو عرصہ پہلے میں اسے ذبح کر چکا ہوتا مگر مجبوری ہے۔ یہ مرغ دن کے کسی بھی وقت اذان دینے میں نہ تو شرم محسوس کرتا ہے اور نہ ہی اسے ایسا کرنے میں مرغوں کی اخلاقیات ہی آڑے آتی ہیں۔ مرغ کی آواز نکالنے کو اذان جیسا مقدس لفظ ہی اس لیے عطا کیا گیا کہ یہ متقی پرندہ علی الصبح آواز نکال کر سوئے ہوؤں کو جگانے کا فریضہ سرانجام دیتا تھا لیکن میرے پڑوس کا مرغا اس قسم کے کسی بھی ٹائم ٹیبل وغیرہ سے قطعاً آزاد اور بے پروا ہے۔
میرا کمرہ گھر کے سب سے پچھلے حصے میں واقع ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ باہر سڑک کی ٹریفک اور ہر قسم کے شور شرابے سے بچا رہتا ہوں مگر اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ گھر کے پچھلے صحن سے متصل گھر کا مرغ سڑک کی آوازوں سے ہونے والی بچت کا تختہ کر دیتا ہے۔ اس آزاد منش پرندے کا دل کرے تو دوپہر دو بجے با آواز بلند اپنے ہونے کا اعلان کرنے لگے جائے اور جی میں آئے تو اپنی مستقل مزاجی کا ثبوت دینے کیلئے شام چھ بجے‘ پھرصبح پانچ بجے‘ پھر چھ بجے اور پھر سات یا آٹھ بجے جب چاہے بانگیں دینی شروع کردے۔ اوپر سے اس کے پھیپھڑے اس قدر مضبوط ہیں کہ مسلسل ایک گھنٹہ اذان دینے پر بھی نہ تو اس کا دم پھولتا ہے اور نہ ہی گلے میں خراش پڑتی ہے۔
ادھر یہ عالم ہے کہ گزشتہ دو دن سے صبح کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ پچھلی کھڑکی سے متصل باغیچے میں چھ سات مختلف اقسام کے خوش گلو اور خوش آہنگ پرندے چہچہا کر کانوں میں رَس گھولتے ہیں۔ ایک پرندہ تو ایسی آواز نکالتا ہے جیسے کانسی کی کٹوری پر کوئی چمچ سے ہلکی ہلکی چوٹ لگا رہا ہو۔ ایسی مدھر اور سریلی آواز کہ نیند کو اچاٹ کرنا تو رہا ایک طرف دوبارہ سے سونے کو دل کرتا ہے اور کہیں پس منظر میں ٹریفک کا مدہم سا شور بھی سنائی دیتا ہے مگر اتنا مدہم کہ پرندوں کی آوازوں میں دب سا جاتا ہے۔ سورج صبح پونے سات بجے نکلتا ہے مگر ٹرین سروس اس سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ ریلوے سٹیشن ادھر سے پانچ منٹ کی پیدل دوری پر ہے اور ہر چند منٹ کے بعد آنے اور جانے والی ٹرینوں کی آواز بھی سارے ماحول کا حصہ ہے لیکن مجال ہے کوئی ٹرین سیٹی بجائے۔ ممکن ہے لندن کے شہریوں کے مطالبے کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہو مگر میرے ریل گاڑی کی سیٹی سے جڑے ہوئے رومان کا کیا کیا جائے؟ بغیر سیٹی کے بھی بھلا کوئی ٹرین ہوتی ہے؟
میرے گھر کے صحن میں گلاب کی بیل ہے۔ اس گھنی بیل پر مارچ کے مہینے میں گلابی پھولوں کے گچھے کھلتے ہیں۔ ایسے گتھے ہوئے اور بھرے بھرے کہ دیکھ کر دل خوش ہو جائے۔ لیکن اتنے ناپائیدار کہ صرف پندرہ دن کی بہار دکھا کر مرجھا جاتے ہیں‘ مگر ان پندرہ دنوں میں ایسا نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ پھر اس کیلئے ایک اور سال انتظار کرنا بھی مہنگا نہیں لگتا۔ پھر اس دوران اس بیل پر شام کو چڑیوں کی ایسی حکمرانی ہوتی ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ چڑیوں کے یہ غول کہاں سے آئے۔ سارا دن اداس پڑی اس بیل پر شام کو ایسی رونق بھلا کیسے لگتی ہے اور یہ ڈھیروں چڑیاں آخر دن بھر کہاں رہتی ہیں جو شام کو ادھر آکر ایک جلترنگ سی مچاتی ہیں۔
چار چھ ماہ پہلے ادھر برطانیہ آیا تو برمنگھم میں عزیزم گلاب خان کے ساتھ سٹن پارک (Sutton Park)چلا گیا۔ جگہ جگہ پرندوں کی ایسی آوازیں کہ چلتے قدم تھم جائیں۔ میں نے اپنے موبائل فون پر ان پرندوں کی آوازوں کو ٹیپ کیا اور واپسی پر انہیں سنا مگر وہ مزہ کہاں جو چھتنار درختوں تلے کھڑے ہو کر ان آزاد پنچھیوں کو سننے کا تھا۔ بھلے سے دکھائی تو نہ دیے مگر محسوس تو ہوئے۔ کبھی اسی طرح چوک شہیداں والے گھر کے پاس حاجی بٹے کے باغ میں علی الصبح ابا جی مرحوم کے ساتھ سیر کو جاتا تھا تو قسم قسم کے پرندے دکھائی دیتے اور ان کی آوازیں کانوں میں رس گھولتیں۔ چڑیاں‘ طوطے‘ ہد ہد‘ نیل کنٹھ‘ کال کلیچیاں‘ تلیئر‘ بلبل اور کبھی کبھار دکھائی دینے والے چھوٹے چھوٹے ہمنگ برڈ‘ نر ہمنگ برڈ کا گہرا نیلا رنگ ایسا ہوتا تھا کہ اس میں چمکتے ہوئے سات رنگ دکھائی پڑتے تھے۔ پھر سارا باغ کٹ گیا اور وہاں سریے‘ سیمنٹ اور اینٹوں کا جنگل اُگ آیا۔
ادھر علی الصبح دور سے گزرتی ہوئی تیز رفتار ٹرینیں بغیر سیٹی بجائے گزرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اب بھلا یہ کیا کہ ٹرین گزرے اور سیٹی نہ بجائے۔ اس سیٹی سے ہی تو سارا رومان جڑا ہوا ہے۔ یہ سیٹی جہاں ایک طرف ملنے کی خوشخبری ہے تو دوسری طرف جدائی اور ہجر کا استعارہ ہے۔ منیر نیازی کا شعر تو ریل کی سیٹی میں ایسا دکھ اور درد سمیٹے ہوئے ہے کہ اس کی مثال اردو شاعری میں ملنا مشکل ہے۔
صبحِ کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا
ویسے تو اردو شاعری میں ریل گاڑی پر بے شمار اشعار ہیں مگر بعض اشعار تو ایسے ہیں کہ دل کی تاروں کو چھیڑتے ہیں۔ انجم رہبر نے ریل گاڑی سے جڑے ہوئے رومان پر ایسے دو مصرعے تخلیق کیے ہیں کہ بندہ اس اختصار میں پوشیدہ افسانے پر حیران ہو کر سوچتا ہے کہ بھلا صرف دو سطروں میں ایسا مضمون جو پوری کتاب پر بھاری ہو‘ سوائے الہام کے اور کیا ہو سکتا ہے۔
انجم! تمہارا شہر‘ جدھر ہے اسی طرف
اک ریل جا رہی تھی کہ تم یاد آ گئے
ریل کا ذکر چلا تو پھر ریل پر اردو کے کئی اور بے مثال شعر یاد آ گئے:
محسوس ہو رہا ہے کہ میں خود سفر میں ہوں
جس دن سے ریل پر میں تجھے چھوڑنے گیا (کیف صدیقی)
ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی
یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم (نعمان شوق)
یادوں کی ریل اور کہیں جا رہی تھی پھر
زنجیر کھینچ کر ہی اترنا پڑا مجھے (زہرا شاہ)
محبت ریل کی پٹری نہیں تھی
کہیں تو موڑ آنا چاہیے تھا (عاصمہ طاہر)
اس ایک چھوٹے سے قصبے پہ ریل ٹھہری نہیں
وہاں بھی چند مسافر اترنے والے تھے (جمال احسانی)
سرما کی رات ریل کا ڈبۂ اداسیاں
لمبا سفر ہے اور ترا ساتھ بھی نہیں (سلیم بیتاب)
وہ بھی کیا دن تھے جب میرا گھر چوک شہیداں میں ملتان کے سٹی ریلوے سٹیشن کے ساتھ اور امریکہ میں کومل کا گھر ٹولیڈو سے گزرنے والی ریل کے پھاٹک کے پاس تھا جہاں سے ریل گاڑیاں گزرتی بھی تھیں اور سیٹی بھی بجاتی تھیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں