"KMK" (space) message & send to 7575

معاملات…(2)

عبادات کا بغور جائزہ لیں اور ان کے انسانی زندگی پر حتمی اثرات کا مطالبہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ تمام تر عبادات کا حاصل تزکیہ نفس‘ نظم و ضبط‘ ایثار‘ خدمت اور قربانی کے علاوہ اور کچھ نہیں اور یہی وہ خصوصیات ہیں جو کسی بہترین معاشرے کی بنیادی شرائط ہیں‘ لیکن ہم نے عبادات کو محض ایک ذاتی اور مشینی عمل سمجھ رکھا ہے جس کی ادائیگی پر ہمارا سارا زور ہے جبکہ رب العزت نے اسلام کو مذہب سے کہیں بڑھ کر دین کے طور پر نازل کیا اور اس کا مقصد محض انسانی زندگی نہیں بلکہ بہترین انسانی معاشرت کی تشکیل ہے۔
صفائی نصف ایمان قرار دیا گیا۔ جیسا کہ میں گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں صفائی ہماری ترجیحات میں دور دور تک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ بیشتر مساجد کے ٹوائلٹ میں ناک پر کپڑا رکھے بغیر داخل ہونا ممکن نہیں اور بہ امر مجبوری اسے استعمال کر لیں تو پاکیزگی قائم رہنے کا معاملہ بھی مشکوک ٹھہرتا ہے۔ آپ شمالی علاقہ جات میں سیروتفریح کیلئے چلے جائیں۔ مجال ہے جو سارا راستہ آپ کو ایک بھی ڈھنگ کا صاف ستھرا ٹوائلٹ مل جائے پڑھے لکھے لوگوں کے رہائشی علاقوں میں یہ عالم ہے کہ اکثر گھروں والے اپنے گھر وںکا کوڑا مقررہ جگہ پر یا کوڑے کے ڈرم میں ڈالنے کے بجائے اپنی آسانی کے مطابق کسی بھی جگہ پر ڈال دیں گے۔ محلوں میں تو یہ عالم ہے کہ گھر والے اپنا گھر کا چھپا ہوا کوڑا اکٹھا کرکے اپنے گھر کے دروازے کے سامنے ڈال دیتے ہیں تاکہ آتے جاتے کو علم ہو سکے کہ اس گھر کے اندر کتنی گندگی تھی۔ اپنے گھر کا کوڑا گلی میں پھینکنے کے بعد ہم حکومتی اداروں کی نالائقی اور بے حسی پر ماتم کرتے ہیں کہ میونسپلٹی والے صفائی نہیں کرتے۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ ہمارے سرکاری محکمے بھی نالائق اور نااہل ہیں لیکن اس معاملے میں زیادہ قصور وار ہم ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری کو ادا کئے بغیر سارا ملبہ سرکار پر ڈال دیتے ہیں۔ اب بھلا ہم راہ چلتے شاپر‘ ریپر‘ کاغذ اور چھلکے پھینکتے پھریں تو اس میں کسی کا کیا قصور ہے۔
ادھر کسی پارک میں چلے جائیں مجال ہے ڈسٹ بن کے علاوہ آپ کو کہیں کوئی کاغذ کا ٹکڑا‘ چپس کا لفافہ‘ جوس کا خالی ڈبہ‘ یا شاپنگ بیگ اڑتا ہوا دکھائی دے۔ اکثر پارکوں میں کتے کی گندگی سمیٹنے کیلئے خالی پلاسٹک بیگز کا اہتمام ہے ‘تاہم میں نے بار ہا دیکھا ہے کہ کتے کے ساتھ سیر کیلئے پارک میں آنے والے مرد و خواتین نے کتے کی فراغت کے بعد اس کی گندگی اپنے ساتھ لائے ہوئے پلاسٹک کے بیگ میں ڈالی اور اسے ڈسٹ بن میں ڈالا۔ ہماری طرح نہیں کہ ہر چلتے ہوئے شخص کی ساری توجہ اس بات پر رہے کہ اس کا پاؤں گندگی پر نہ آ جائے۔ اپنے شوق کے مسائل لوگ خود حل کرتے ہیں نہ کہ اپنے کتے کی گندگی اٹھانے کی ذمہ داری پارک انتظامیہ پر ڈال دیں۔
برسوں پرانی بات ہے میں لندن سے مانچسٹر جا رہا تھا۔ ڈائریکٹ بس نہ ملی تو میں براستہ برمنگھم چل پڑا۔ برمنگھم کے ڈگ بتھ کوچ سٹیشن پر آدھ گھنٹے کا کنکشن ٹائم تھا۔ میں نے ویٹنگ ہال کے ایک کونے میں لگی ہوئی وینڈنگ مشین میں تین پاؤنڈ ڈالے اور کافی کا بٹن دبا دیا لیکن کافی ندارد۔ ایک دو بار مزید بٹن دبا یا مگر کافی برآمد نہ ہوئی۔ مشین کی سائڈ پر وینڈر کمپنی کا فون نمبر لکھا ہوا تھا اور ساتھ ہی مشین کا نمبر بھی درج تھا۔ میں نے مشین پر لکھے ہوئے فون نمبر پر ڈائل کیا اور کمپنی کے نمائندے کو اپنی شکایت درج کروا دی۔ اس نے مشین نمبر پوچھا‘ پھر مجھ سے مشین میں ڈالی گئی رقم کا معلوم کیا اور آخر میں مجھ سے میرا پتا پوچھا۔ میں نے اپنے ایک دوست کا پتادے دیا۔ چار روز بعد مجھے اس پتے پر ایک لفافہ موصول ہوا۔ اس لفافے میں چار پاؤنڈ کی مالیت کے ڈاک ٹکٹ تھے۔ اس کے ساتھ ایک خط تھا کہ جس میں تفصیل تھی کہ ہمارے پاس آپ کا بینک اکاؤنٹ نمبر موجود نہیں تھا جبکہ کیش میں ادائیگی ہماری پالیسی نہیں‘ اس لئے آپ کو چارپاؤنڈ کے ڈاک ٹکٹ بھجوا رہے ہیں۔ تین پاؤنڈ آپ کی کافی کی ادائیگی کے ضمن میں ہیں جبکہ ایک پاؤنڈ آپ کو ٹیلی فون کال کرنے کے عوض ادا کیا جا رہا ہے۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ میری بڑی بیٹی تب آغا خان یونیورسٹی میں اپنی میڈیکل کی تعلیم کے دوران Electivesکے سلسلے میں بوسٹن کے ایک آنکھوں کے تحقیقی ادارے میں تین ماہ کیلئے انٹرن شپ کر رہی تھی۔ اسی دوران میں امریکہ آیا اور نیویارک میں اپنے پیارے دوست شوکت فہمی کے ہاں مقیم تھا۔ بیٹی بھی ہر تیسرا چوتھا ویک اینڈ گزارنے کیلئے شوکت کے گھر آ جاتی تھی۔ شوکت کی اہلیہ اس کا بے انتہا خیال رکھتی تھی اور شوکت کا بیٹا جو بہت چھوٹا سا تھا اس کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کا منتظر رہتا تھا۔ آگے لانگ ویک اینڈ تھا اور کومل بوسٹن سے نیویارک آ گئی۔ اگلے روز ہم گھر سے آدھ کلو میٹر دور ایک سپر سٹور پر چلے گئے جہاں کومل نے میرے ساتھ مل کر بھائی بہنوں کیلئے خریداری کی۔ بل کی رقم غالباً تین سو ڈالر کے لگ بھگ بنی۔ جب میں کارڈ پر اس خریداری کی رقم ادا کرنے لگا تو اچانک ہی کیش کاؤنٹر پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے پوچھا کہ آپ کہاں رہتے ہیں؟ میں نے بتایا کہ دو گلیاں پار میں رہائش پذیر ہوں۔ پھر دوبارہ پوچھنے لگی کہ میں کب تک یہاں ہوں۔ مجھے اس کے سوالات پر حیرانی ہو رہی تھی کہ بھلا کارڈ کو مشین میں ڈالنے سے قبل ان سوالات کا کیا تُک بنتا ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ میں اگلے دو روز ادھر ہی ہوں۔ اس نے میرا بینک کارڈ مجھے واپس پکڑاتے ہوئے کہا کہ کل میموریل ڈے کے سلسلے میں اس سٹور پر پچاس فیصد رعایتی سیل ہے۔ کل خریداری کی صورت میں آپ کا بل آدھا ہو جائے گا۔ ڈیڑھ سو ڈالر کی بچت یقیناً آپ کو اچھی لگے گی۔ یہ کہہ کر وہ مسکرانے لگ گئی۔ میری بیٹی نے کہا کہ اس نے بڑی محنت سے یہ چیزیں پسند کی ہیں۔ اس لڑکی نے دونوں بھرے ہوئے بیگ اپنے سٹول کے پیچھے رکھتے ہوئے کہا کہ کل صبح آپ میرے پاس آ جائیں۔ آپ کا سامان ادھر میرے پاس ہی پڑا ہوگا۔ بس آئیں اور ادائیگی کرکے اسے لے جائیں۔ کل جب میں اس کا بل بناؤں گی تو ہمارا سسٹم اس پر خود بخود پچاس فیصد کی رعایت کر دے گا۔ سٹور سے نکلتے ہوئے مجھے یاد آیا کہ امریکہ آنے سے چند روز پہلے میں نے ملتان میں نو نمبر چونگی کے ساتھ والے پٹرول پمپ سے رات گیارہ بجے پٹرول ڈلوایا۔ اسی شام کو رات بارہ بجے سے پٹرول کی قیمت پانچ چھ روپے لٹر بڑھانے کا اعلان ہو چکا تھا۔ پٹرول کی نئی قیمت کا اطلاق ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا مگر پٹرول پمپ والے نے ایک گھنٹہ قبل ہی اپنے سسٹم میں نئی قیمت فیڈ کر دی تھی اور اسی حساب سے پٹرول فروخت کر رہا تھا۔ جب سیلز مین سے کہا تو وہ کہنے لگا کہ وہ تو اس سلسلے میں کچھ کرنے سے معذور ہے۔ کل صبح آکر مالک سے بات کر لیں۔ میں نے اس سے رسید پر وقت اور تاریخ ڈلوالی۔ اگلے روز میں نے کالم لکھا جس کا عنوان تھا''ٹوٹل فراڈ‘‘ دو دن بعد کراچی سے اس فیول مارکیٹنگ کمپنی کے افسران میرے گھر آ گئے اور معافی تلافی کی بات کرنے لگ گئے۔ میں نے کہا: مسئلہ یہ نہیں کہ مجھ سے زیادہ قیمت وصول کی گئی ہے بلکہ اس روز سینکڑوں لوگوں سے فراڈ کیا گیا ہے۔ وہ کہنے لگے: کمپنی اس پٹرول پمپ کو جرمانہ کرے گی۔ میں نے کہا: وہ بھی آپ کی جیب میں جائے گا۔ گاہکوں کو تو کوئی زر تلافی نہ ملا۔ بات معافی پر ختم ہو گئی اور معاملہ ٹھپ ہو گیا۔
میرے آقا ﷺ مکہ سے ہجرت فرمانے لگے تو نہ گھر چھوڑنے کی پریشانی تھی اور نہ شہر اور دوست یا رشتے دار چھوٹنے کا غم تھا۔ صرف ایک پریشانی تھی کہ امانتیں ان کے مالکوں تک پہنچا دی جائیں‘ اور یہ امانتیں انہی لوگوں کی تھیں جو تلواریں اٹھائے انہیں قتل کرنے کے درپے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی ڈیوٹی لگائی کہ امانتیں ان کے مالکوں تک پہنچا کر مدینہ آجانا۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں