"KMK" (space) message & send to 7575

زندگی کی گاڑی کا ٹکٹ

لندن جیسے بے تحاشا پھیلے ہوئے شہر میں گنتی کے دوست ہیں اور وہ بھی سب ایسے کہ جن سے تعلق لندن میں آکر نہیں بنا بلکہ یہ وہ دوست ہیں جن سے تعلق پاکستان میں قائم ہوا۔ ان میں سے بھی ایک امریکہ جا چکا ہے اور ایک دوست گوشہ نشین ہو گیا ہے۔ ہم اس کی گوشہ نشینی سے تو خوش نہیں مگر اس کی خوشی میں راضی ہیں۔ ان چند دوستوں میں سے ہمارے ملتان کے دوست طہٰ قریشی کو ان کی کمیونٹی کیلئے اعلیٰ خدمات پر ''ممبر برٹش ایمپائر ‘‘ (MBE) کا خطاب مل چکا ہے۔ کووڈ19کے دوران'' ون ملین میل‘‘ پروگرام پراُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر ہمارے دوست اور نہایت ہی شاندار قلمکار، مصنف اور دانشور عارف انیس کو بھی ممبر برٹش ایمپائر کے خطاب اور تمغے سے نوازا گیا۔اسی سال لندن میں عشروں سے مقیم ہماری نوجوانی کے دوست احسان شاہد کو کورونا جیسی عالمی وبا کے دوران خیراتی کچن چلانے اور اس مشکل گھڑی میں ضرورتمندوں کی خدمت کے اعتراف کے طور پر کنگ چارلس نے برٹش ایمپائر میڈل سے نوازا۔ احسان شاہد سے میرا تعلق زمانہ طالب علمی سے ہے۔ اگر میں اور احسان شاہد تب کالجوں میں ہونے والے بین الکلیاتی مباحثوں میں بطور مقرر حصہ نہ لیتے تو بھلا ہماری کہاں ملاقات ہوتی؟ میں ایمرسن کالج ملتان کا طالب علم تھا اور احسان شاہد میاں چنوں کالج کا طالب علم تھا۔ تب میاں چنوں کا ادبی اور دیگر ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے بڑا نام تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ میاں چنوں میں ایسی تمام سرگرمیوں کا سہرا مرحوم غلام حیدروائیں کے سر جاتا ہے۔ مرحوم غلام حیدر وائیں نے اس چھوٹے سے شہر میں مثبت سرگرمیوں کا ایسا ہنگامہ بپا کر رکھا تھا کہ اس کے اثرات نہ صرف میاں چنوں شہر کے پڑھے لکھے طبقے پر نمایاں دکھائی دیتے تھے بلکہ میاں چنوں کا عام آدمی بشمول محنت کش اور مزدور طبقہ بھی ان سرگرمیوں کے طفیل اچھی خاصی انٹلیکچول سطح کے مساوی سوچ کا حامل ہو گیا تھا۔میاں چنوں کالج کی سالانہ بین الکلیاتی تقریبات میں شرکت کرنا تب ہر مقرر اور شاعر طالب علم کا خواب ہوتا تھا۔ حالانکہ تب یہ محض ایک انٹر کالج تھا لیکن پنجاب بھر کے کالجوں سے مقرروں اور شاعروں پر مشتمل ٹیمیں جوق در جوق اس چھوٹے سے شہر کے انٹر کالج میں آتی تھیں۔ عوامی پذیرائی اور دلچسپی کا یہ عالم ہوتا تھا کہ ان تقریبات کے دوران سرشام دکاندار اپنی دکانیں، کاروباری حضرات اپنے دفتر، منڈی کے آڑھتی اپنی آڑھت بند کرکے کالج میں آ جاتے۔ چند سو طلبہ پر مشتمل اس کالج کے پنڈال میں کالج کے طلبہ سے کئی گنا زیادہ کرسیاں لگائی جاتیں اور رات گئے تک یہ عالم ہوتا کہ بہت سے آنے والوں کو کرسیوں پر بیٹھنے کی جگہ نہ ملتی اور وہ کھڑے ہو کر ان تقریبات سے لطف اندوز ہوتے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ بین الکلیاتی تقریبات کی ایسی پذیرائی اور اس قسم کی عوامی شرکت ہمیں کسی اور شہر میں دکھائی نہ دی حتیٰ کہ ملتان میں بھی اس قسم کی رونق کبھی دکھائی نہ دی۔
ہم چار پانچ لوگوں کی ٹیم ان تقریبات میں شرکت کیلئے میاں چنوں پہنچی۔ میرے ساتھ پنجابی مباحثے کے دوسرے مقرر کے طور پر اسد اللہ شاہ تھا۔ اُردو کی ٹیم فرخ نسیم انصاری اور سعید ظفر پر مشتمل تھی۔ مشاعرے کے لیے میرے ساتھ فاروق قریشی تھا۔ پنجابی مباحثہ پہلے روز اور مشاعرہ آخری یعنی تیسرے روز تھا۔ میں میاں چنوں میں تین دن مقیم رہا۔ یہیں میرا تعارف ایک نوجوان مقرر سے ہوا۔ یہ میاں چنوں کا احسان شاہد تھا‘ جواَب لندن میں مقیم ہے اور ہنسلو کے علاقے میں ہونے والی تمام ادبی و ثقافتی تقریبات کا مرکزی کردار ہے۔ وہ خود بھی بہت اچھا شاعر ہے لیکن میرا اس سے تعلق بطور شاعر یا منتظم نہیں بلکہ یہ وہی پرانا تعلق ہے جو ہر قسم کے تقریباتی تعلق سے یکسر پاک ہے۔
میرا اس بار برطانیہ جانے کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ جا کر اسد اور اس شہر کے دوستوں کو مل لوں۔ گزشتہ سال برطانیہ گیا تو مشاعروں کا شیڈول ہی اتنا مصروفیت بھرا تھا کہ دوستوں سے ڈھنگ کی ملاقات ہی نہ ہو سکی۔ اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ہمارے محترم دوست اور اس دور کے انتہائی مقبول شاعر جناب امجد اسلام امجد کو، اس ٹور میں وہ بھی ہمارے ہمراہ تھے۔ ہم غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے یتیم اور ضرورت مند بچوں کیلئے فنڈریزنگ کے سلسلے میں برطانیہ گئے تھے۔ مورخہ 2اکتوبر 2022ء کو میں نے امجد اسلام امجد صاحب کے ساتھ گلاسگو میں مشاعرہ پڑھا۔ یہ امجد صاحب برطانیہ میں، بلکہ بیرون ملک آخری مشاعرہ تھا۔ اس کے بعد امجد اسلام امجد صاحب عمرے کی ادائیگی کیلئے گئے‘ واپسی کے چند روز بعد وہ ایسے سفر پر روانہ ہو گئے جہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔ میرے پاس مورخہ دو اکتوبر 2022ء کو برادرم زبیر ملک کے گھر میں امجد اسلام امجد صاحب کے ساتھ ایک ایسی تصویر ہے جس میں امجد صاحب کھل کر قہقہہ لگا رہے ہیں۔ زندگی سے بھرپور اس تصویر کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ زندگی اس قدر ناپائیدار ثابت ہو گی۔
میں نے چیریٹی مشاعروں کے سلسلے میں سب سے زیادہ بیرون ملک سفر انور مسعود اور امجد اسلام امجد کے ہمراہ کیا ہے اس دوران جو وقت ان کی مشترکہ کمپنی میں گزارے ہیں وہ ایسے یادگار ہیں کہ میری زندگی کا سرمایہ ہیں، لیکن ملال یہ ہے کہ یہ عاجز اب ان جیسے لمحات سے کبھی لطف اندوز نہیں ہو سکے گا کہ اس مثلث کا ایک ضلع اب ہم میں موجود نہیں۔ میں تو خیر حد ِ ادب کے ایک دائرے میں رہتا تھا لیکن انور مسعود اور امجد اسلام امجد کی باہمی چہلیں اور جملے بازی ایسی ہوتی تھی کہ تا دیر ہم اس سے لطف لیتے رہتے۔ حاضر جوابی اور نکتہ آفرینی اپنے عروج پر ہوتی تھی۔میں کبھی کبھی اپنے آپ کو بہت ہی خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ میں ان انمول لمحوں کا شاہدبھی ہوں اور شریک بھی جواَب کبھی دوبارہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
گزشتہ دس بارہ سال کے دوران جب بھی کبھی لندن میں اور خاص طور پر ویسٹ لندن میں مشاعرے ہوئے ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ احسان شاہد برطانیہ میں ہو اور ہم پاکستان سے آنے والوں کو نہ ملے۔وہ پاکستان سے آنے والے کئی دوستوں کا مستقل میزبان ہے لیکن اسے جو محبت عطا الحق قاسمی سے ہے وہ شاید کسی اور سے نہیں۔ عطا الحق قاسمی سے اپنی بے پایاں محبت کو نبھانے کی غرض سے وہ اپنی اس محبت کو ڈاکٹر انعام الحق جاوید تک پھیلا دیتا ہے۔ اس سال کاروانِ ادب برطانیہ نے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا جشن منانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ برطانیہ میں میری متوقع آمد کے باعث اس کے شرکا میں میرا نام بھی شامل تھا تاہم یہ محض اتفاق تھا کہ میں اسی تاریخ کو امریکہ میں دوستوں کی ایک تقریب میں شرکت کا وعدہ کر چکا تھا، اس لئے برطانیہ والے دوستوں سے معذرت کی اور امریکہ روانہ ہو گیا۔
زندگی کی گاڑی ازل سے رواں ہے اور ابد تک اسی طرح چلتی رہے گی۔ مسافر چڑھتے رہتے اور اُترتے رہتے ہیں۔ اس گاڑی کے مسافر دوران سفر خوش گپیوں میں بھی مصروف رہتے ہیں لیکن اس سفر کی سب سے مختلف بات یہ ہے کہ کسی مسافر کو اپنی منزلِ مقصود کا علم نہیں۔ اس کے ہاتھ میں جو ٹکٹ ہے اس پر سٹیشن کا نام درج نہیں، بس اچانک ہی مسافر کو پتا چلتا ہے کہ اس کا ٹکٹ ایکسپائر ہو گیا ہے اور اسے اس سٹیشن پر اترنا ہو گا۔ اللہ جانے اس مسافر کا ٹکٹ کب ایکسائر ہو جائے اور وہ اپنے سٹیشن پر اتر جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں