"KMK" (space) message & send to 7575

ایک غیر متعلقہ تمثیل

میں ایک پُرامن قسم کا قانون پسند شہری ہوں‘ تاہم میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میں کوئی پیدائشی یا ازلی قسم کا قانون پسند شہری ہر گز نہیں تھا‘ مجھے اپنی عادات اور طبیعت کے برخلاف اس قسم کا دھنیا مارکہ قانون پسند ہوئے بہت ہی کم عرصہ ہوا ہے بلکہ یوں سمجھ لیں بس چند دن ہی ہوئے ہیں۔ اب آپ وجوہات نہ پوچھیں کیونکہ ہدایت آجانے کے بعد گزشتہ باتوں کو یاد کرنا یا دہرانا مناسب نہیں‘ بس یہی کافی ہے کہ میں اب قانون اور خاص طور پر عدالتی احکامات پر من و عن عمل کرتا ہوں۔
عدالتی احکامات کی پابندی کے بارے میں تو آپ نہ ہی پوچھیں۔ اعلیٰ عدالتیں تو رہیں ایک طرف‘ ادنیٰ عدالتوں کا بھی بہت زیادہ احترام کرتا ہوں لیکن مسئلہ پھر وہی ہے کہ اب آپ یہ نہ پوچھنے بیٹھ جائیں کہ میں عدالتوں کا احترام دل سے کرتا ہوں یا قانون کی پکڑ کے خوف سے کرتا ہوں۔ بس آپ کے لیے اتنا جاننا ہی کافی ہے کہ میں اپنی عدالتوں کا‘ منصفوں کا‘ ان کے فیصلوں کا اور اپنے پورے ملکی نظامِ عدل و انصاف کا احترام کرتا ہوں۔ احترام کرنا تو بس احترام کرنا ہی ہوتا ہے بالکل ویسے ہی جیسے میں اپنے گوجرانوالہ والے عزیز دوست ظفر اقبال بٹ کا احترام کرتا ہوں۔ بھلے اس سے اب کسی کو کیا غرض کہ میں اس کا احترام دل سے کرتا ہوں یا اس سے ڈر کر کرتا ہوں۔ ویسے تو مکرم احسان الرحمان اور برادرم طارق حسن بھی اسی زمرے میں آتے ہیں تاہم میرا خیال ہے اس موضوع پر حد سے زیادہ تفصیل میں جانا بھی احترام کے تقاضوں کے منافی ہے کیونکہ عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ مملکتِ خداداد پاکستان کا کوئی شخص یہ نہ کہے کہ الیکشن نہیں ہوگا‘ لہٰذا اس عدالتی حکم کی روشنی میں بھلا میں یہ کیسے کہہ سکتا ہوں کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ الیکشن ہوں گے اور ضرور ہوں گے‘ تاہم کیونکہ عدالت نے ان انتخابات کے نتائج اور مستقبل کے بارے میں کسی قسم کے تبصرے پر کوئی پابندی نہیں لگائی‘ اس لیے یہ کہنا کہ الیکشن تو ہوں گے لیکن ایسے الیکشن سے بہتر تھا کہ نہ ہی ہوتے‘ عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں ہے۔ لہٰذا قارئین کے لیے مکرر عرض ہے کہ امیدواروں کی پکڑن پکڑائی‘ کاغذاتِ نامزدگی کی چھینا جھپٹی‘ امیدواروں کے تائید اور تصدیق کنندگان کی دھلائی منجائی‘ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے گھروں پر چھاپوں کی کئی سنچریوں سے بھی غیر مطمئن رہنے کے بعد آخر میں پی ٹی آئی کے تقریباً نوے فیصد امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی کی حیلوں بہانوں سے مستردگی کے بعد ہونے والے الیکشن اگر واقعی الیکشن ہیں تو پھر یقینا ہو رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں کوکم از کم اس عاجز کی طرف سے سو فیصد اطمینان ہونا چاہیے کہ اسے آپ کی جانب سے دیے گئے الیکشن کروانے کے حکمنامے سے نہ تو رَتی برابر اختلاف ہے اور نہ ہی الیکشن کے بروقت انعقاد سے انکار ہے۔
نظامِ انصاف کی اتنی زیادہ تابعداری اور فرمانبرداری کا مظاہرہ کرنے پر اس قلمکار کی اتنی رعایت بطور بونس تو بنتی ہے کہ وہ یہ پوچھ سکے کہ اس متوقع یکطرفہ انتخابات کو احمقوں‘ بے ضمیروں اور اخلاقیات سے عاری لوگوں کے علاوہ اور کون کون صاف شفاف اور آزادانہ تسلیم کرے گا؟ میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ آپ کا کیا اندازہ ہے کہ آٹھ فروری کو الیکشن میں ٹرن آؤٹ کی شرحِ فیصد کیا ہو گی؟ میرا یہ سوال سن کر شاہ جی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ میں ان کے اس غیرمتوقع ردعمل پر حیرانی سے انہیں دیکھنے لگ گیا۔ کہنے لگے :تم ٹرن آؤٹ کی شرح فیصد پوچھتے ہو؟ اس روز ہر قسم کی شرح فیصد‘ تعداد اور گنتی ویسی ہی ہو گی جیسی بینک ڈکیتی میں لوٹی جانے والی رقم کی مالیت کے بارے میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں لکھوائی گئی تھی۔ میرا منہ ان کی بات سن کر حیرانی سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ میں نے ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے تھوڑے شاکی لہجے میں ان سے عرض کیا کہ آپ کبھی کبھی تو بالکل ہی پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں۔ سوال کچھ ہوتا ہے اور جواب کچھ اور مل جاتا ہے۔ سوال گندم جواب چنا والی مثال آپ پر عین صادق آتی ہے۔ شاہ جی کہنے لگے: تو چلو پھر تم بینک ڈکیتی میں لوٹی جانے والی رقم کا قصہ بھی سن لو مگر یاد رہے کہ میں یہ قصہ تمہیں صرف اس لیے سنا رہا ہوں کہ تمہیں اپنی بات سمجھا سکوں‘ وگرنہ اس قصے کا حالیہ ملکی سیاسی صورتحال سے بالکل بھی کوئی واسطہ نہیں۔
ایک بینک میں ڈکیتی کی واردات ہوئی اور ڈاکو بہت ساری رقم لوٹ کر فرار ہو گئے۔ ڈاکے کے بعد وہ محفوظ و مامون اپنے اڈے پر پہنچے تو تھوڑی دیر بعد ہی ڈاکوؤں کے گروہ کا ایک نوجوان رکن کہنے لگا کہ چلیں رقم گنتے ہیں۔ گروپ کا تجربہ کار اور منجھا ہوا سربراہ کہنے لگا: کاکا! زیادہ اُتاولا نہ بن‘ تھوڑی ہی دیر میں کسی چینل پر بریکنگ نیوز آ جائے گی اور اس میں یہ بھی بتا دیں گے کہ کتنی رقم لوٹی گئی ہے۔ نوجوان نے عقلمندی اور تجربے کی بات سنی تو مطمئن ہو کر بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہی اس ڈاکے کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چلنا شروع ہو گئی۔ معلوم ہوا کہ بتیس کروڑ کا ڈاکہ پڑا ہے۔ ڈاکو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔ گروہ کا ہر فرد اپنے اپنے حصے کا حساب لگا کر دل ہی دل میں ان پیسوں کو اپنی خواہشات کی تکمیل کی غرض سے خرچ کرنے کے منصوبے بنا رہا تھا۔ رات سب لوگ بے چین سوئے اور علی الصبح اٹھ کر لوٹی ہوئی رقم کی تقسیم شروع کی مگر ابھی بمشکل آدھے لوگوں تک معاملہ پہنچا تھا کہ رقم کم پڑتی دکھائی دی۔ جب گنتی کی تو پتا چلا کہ رقم بتیس کروڑ نہیں بلکہ صرف سترہ کروڑ تھی۔ ڈاکو بہت سٹپٹائے کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہوا ہے؟ ہوا یہ کہ واردات کے بعد جب ڈاکو چلے گئے تو گھبرایا ہوا برانچ منیجر پولیس کو فون کرنے کے لیے نمبر ملانے ہی لگا تھا کہ اس کے راز دار منیجر آپریشن نے اس کے ہاتھ سے فون لے لیا اور کہنے لگا: جناب یہ ڈاکو ہمارے لیے تو غیبی فرشتہ ثابت ہوئے ہیں۔ پریشان حال برانچ منیجر نے حیرانی سے اپنے آپریشن منیجر کو دیکھا تو وہ کہنے لگا: سر جی! یوں کریں کہ اس ڈاکے کی رقم میں اپنے پہلے سے غبن شدہ دس کروڑ روپے بھی ڈال دیں اور مزید پانچ کروڑ بھی نکال لیں اور یہ سب کچھ ڈاکوؤں کے کھاتے میں ڈال کر پولیس کو فون کر دیں۔ پولیس کو فون کرنے کے بعد عملے نے بینک میں موجود کیش گننا شروع کیا۔ ظاہر ہے بینک کے کیش میں سے بتیس کروڑ روپے کم تھے۔ ڈکیتی کا پرچہ کٹا تو لوٹی جانے والی رقم کے طور پر بتیس کروڑ روپے لکھوائے گئے۔
جب آٹھ فروری کو گنتی شروع ہو گی تو غائب شدہ‘ غبن شدہ اور گمشدہ قسم کے ووٹوں کو ڈال کر گنا گیا تو شرحِ فیصد بھی بتیس کروڑ ہو جائے گی اور لوٹے ہوئے ووٹوں کی تعداد بھی دوگنی ہو سکتی ہے۔ اس لیے زیادہ اُتاولا ہونے کی ضرورت نہیں۔ برانچ منیجر بے شک گھبرایا ہوا ہے لیکن آپریشن منیجر تجربہ کار بھی ہے اور ہوشیار بھی۔ تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ کاکا! صبر کر۔ یہ کہہ کر شاہ جی یہ جا اور وہ جا۔ اب مجھ جیسا اوسط عقل کا بندہ ان باتوں سے کیا نتیجہ نکالے؟ شاہ جی بھی عجیب آدمی ہیں‘ کبھی کبھی تو بالکل ہی غیر متعلقہ قسم کی تمثیل بیان کرتے ہیں جس کا نہ سر ہوتا ہے اور نہ پیر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں